"FBC" (space) message & send to 7575

موسمیاتی تبدیلیوں کا بہانہ کب تک؟

مسئلہ کسی بھی نوعیت کا کیوں نہ ہو، ہمارے پاس ہمیشہ کوئی نہ کوئی کشن موجود رہتا ہے۔ اُسی کا سہارا لے کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ بات اگر ماحول کے حوالے سے ہو تو ہمارے پاس اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کے نام سے ایک بہت بڑا بہانہ موجود ہے۔ پانی کی کمی کا مسئلہ ہو یا پھر زیادہ بارشیں برس جانے کی آفت‘ انتہائی آلودہ ہوتا ہوا ماحول ہو یا پھراِسی نوعیت کا کوئی اور معاملہ‘ اپنی تمام کوتاہیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے کھاتے میں ڈال کر ہم خود کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں۔ ہماری تان ایک ہی بات پر ٹوٹتی ہے کہ دنیا ہماری مدد کرے۔ اکثرایسے بیانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا زیادہ قصور نہ ہونے کے برابر ہے‘ اس کے باوجود اِسے اِن تبدیلیوں کے خوفناک اثرات بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ موسمیاتی آلودگی میں ہمارا اتنا قصور نہیں ہے لیکن اِس کے باوجود ہمارے ملک کو اِس کے شدید منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں کیا ہماری ذمہ داری یہ نہیں بنتی کہ اگر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات محسوس کر رہے ہیں تو دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے خود ہی ہاتھ پاؤں ہلا لیں؟
دیکھا جائے تو یہ تبدیلیاں ایک آدھ سال میں پیدا نہیں ہوئیں بلکہ اِن میں دہائیوں کا عرصہ صرف ہوا ہے۔ کیا اِس دوران ہم لمبی تان کر سوئے رہے تھے؟معاملہ اب ہاتھ سے نکلنے لگا ہے تو حسبِ روایت ہم دنیا کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے تقریباً آٹھ سال قبل ایک غیرملکی ادارے نے پاکستان میں ایک سروے کیا تھا کہ یہاں کے لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے کس حد تک آگا ہ ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تب لگ بھگ 53فیصد افراد کی طرف سے تسلیم کیا گیا تھا کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران ملک میں ماحولیات کے حوالے سے حالات نہایت ابتر ہوئے ہیں۔ اِن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومت اِس معاملے میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی۔ اگر صرف گزشتہ دس سالوں ہی کا جائزہ لیا جائے تو ہم بدترین طوفانوں، شدید ہیٹ سٹروکس اور سموگ سمیت مختلف موسمیاتی و قدرتی آفات کا سامنا کرچکے ہیں۔ اِس کے باوجود ہماری تان یہیں پر آکر ٹوٹتی ہے کہ دنیا اپنا وعدہ پورا کرے‘ وہ آ کر ہماری مدد کرے۔ اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ ہمارے ملک میں پانی کی شدید کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ بات صد فیصد درست ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اِس کمی میں ہمارا کوئی قصورنہیں ہے؟1947ء میں قیام پاکستان کے وقت یہاں کے ہرشخص کے لیے اوسطاً پانچ ہزار مکعب میٹر سالانہ پانی دستیاب تھا۔ آج پانی کی یہ مقدار صرف آٹھ سو مکعب میٹر تک محدود ہوکررہ گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ یہ نہیں بتایا جا تا کہ پاکستان کی آبادی بھی اس عرصے میں ساڑھے تین کروڑ سے بڑھ کر قریب 24کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ جب آبادی میں سات‘ آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے تو یقینا پانی کی مقدار بھی آبادی پر تقسیم ہوکر کم ہی ہوگی۔ ابھی تو پھر بھی گزارہ ہو رہا ہے لیکن اگلے چند سالوں میں حالات انتہائی خطرناک سطح تک پہنچ جائیں گے۔ وسائل کے محدود ہونے اور سکڑنے کے باوجود ہماری ملکی آبادی میں ہرسال 2.8فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں سے اندازہ لگالیجئے کہ آگے چل کر وسائل کا کیا حال ہونے والا ہے۔
آج سے لگ بھگ بیس‘ پچیس سال پہلے آبادیات پر پہلی ملکی پی ایچ ڈی خاتون ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ نے بہت شدومد سے آبادی بم کے خطرے سے آگاہی کا بیڑہ اُٹھایا تھا۔ بطور وزیر اُنہوں نے اِس پر بہت کام بھی کیا لیکن اِسی دوران بعض مذہبی و سماجی بنیادوں پر اِس کام کی مخالفت شروع ہو گئی۔ متعدد طبقات کی طرف سے خاندانی منصوبہ بندی جیسے پروجیکٹس کی مخالفت شروع کردی گئی جس کے نتیجے میں یہ مہم اپنی موت آپ مر گئی۔ اس دور میں ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ سے ہماری متعدد ملاقاتیں رہیں جن میں وہ تفصیل سے بتاتی تھیں کہ آئندہ بیس‘ پچیس برسوں کے دوران کیا کچھ ہونے والا ہے اور آج وہ سب حقیقت بن کر ہمارے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو رہنے کے لیے گھر بھی چاہئیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہرسال ہماری تقریباً پانچ ہزار ایکڑ زرعی زمین رہائشی منصوبوں کی نذر ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ ندی‘ نالوں اور دریاؤں کے قدرتی راستوں پر بھی قبضے ہوچکے ہیں۔ ایسے میں سیلابی پانی کو بپھرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ تباہی سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
سیلابی ریلوں کو گزرے کئی ماہ ہونے کو آئے ہیں لیکن ابھی تک سندھ کا قابلِ ذکر علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اتنے طویل عرصے تک پانی کھڑا رہنے کی وجہ یہ ہے کہ نکاسیٔ آب کے قدرتی راستے محدود ہوچکے ہیں۔ حالات تو یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں بھی رہائشی منصوبے زیرِ تعمیر ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنے اور فطرت سے کھلواڑ ہی کا نتیجہ ہے کہ کبھی ہمیں شدید ہیٹ ویوز تو کبھی سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی سموگ تو کبھی بارشوں کے روٹھ جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر محکمۂ موسمیات کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ماضی میں بھی شدید ہیٹ ویوز اور سیلاب آتے رہے ہیں۔ یہ برٹش انڈیا کے دور میں دریائے سندھ میں آنے والے ایک شدید سیلاب ہی کانتیجہ تھا کہ تب کی انگریز حکومت نے اُس سارے علاقے کو ''کچا کا علاقہ‘‘ قرار دے دیا جہاں جہاں تک سیلاب کا پانی پہنچا تھا۔ دریا کے کنارے وسیع و عریض علاقے کو کچے کا علاقہ قرار دے کر یہاں تعمیرات پر سختی سے پابندی عائد کردی گئی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُس کے بعد جتنے بھی بڑے سیلاب آئے‘ اُن سے زیادہ جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ وجہ واضح تھی کہ سیلابی پانی جب دریا سے باہر نکلتا تو کچے کے علاقے میں قدرتی راستوں سے ہوتا ہوا دوبارہ دریامیں گر جاتا تھا۔اگرچہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں سے نکلنے والی گرین ہائوس گیسز ہمارے سمیت پوری دنیا کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اپنے طور پر بچاؤ کے حوالے سے کیا اقدامات کر رہے ہیں؟کیا حالیہ سیلاب کے بعد دریاؤں اور ندی‘ نالوں کے قدرتی راستے بحال ہوگئے ہیں؟کیا آئندہ کے لیے سیلابوں سے بچنے کی کوئی منصوبہ بندی کی جارہی ہے؟
ماحولیاتی تبدیلی کی محترم وزیرصاحبہ ہردوسرے روز نیوز کانفرنس میں بتاتی ہیں کہ دنیا کے بڑے ممالک کی وجہ سے ہمارے ماحول کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے‘ وہ گاہ بہ گاہ مطالبہ کرتی ہیں کہ اِن تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا ہماری مدد کرے مگر کبھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ اِن تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ہم خود کیا اقدامات کر رہے ہیں۔ مسائل سے نمٹنے کے بجائے ان سے راہِ فرار اختیار کرنے کا وتیرہ چھوڑنے کے لیے ہم تیار ہی نہیں ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ 2010ء میں آنے والے بڑے سیلاب کے بعد ایسے خدشات مسلسل ظاہر کیے جاتے رہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تیز رفتار عمل سے ملکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ان باتوں کی تائید تب کے سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر)نعیم لودھی نے بھی کی تھی۔ اُن کی طرف سے اِس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا تھا کہ دنیا ہمیں ایک بڑے سیلاب کے خطرے سے مسلسل آگاہ کرتی رہی لیکن ہم چپ سادھے رہے۔ حالیہ تیزبارشوں کے باعث ہونے والی تباہی بھی اِسی چپ کا نتیجہ ہے۔ محکمۂ موسمیات نے تو بارشیں شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی انتباہ جاری کردیا تھا کہ اِس مرتبہ شدید بارشیں ہوں گی لیکن مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس بڑی ملکی آفت سے ہم نے کیا سبق سیکھا ہے؟اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا تو حکومت کرہی سکتی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوامی سطح پر بیداریٔ شعور مہمات چلائے لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ صبح سیاست، دوپہر سیاست، شام سیاست۔ ذمہ داران کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ حکومتیں گرانے اور بنانے کے دائرے سے باہر نکل کر کچھ سوچیں کہ اِن تبدیلیوں نے ہمیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ چند ہی سالوں میں ہم پانی اور خوراک کے لیے دربدر کے دھکے کھاتے نظر آئیں گے؛ تاہم ممکن ہے کہ تب تک ہمیں کوئی اور اچھا بہانہ مل چکا ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں