"FBC" (space) message & send to 7575

بدعنوانی کے ٹرِکل ڈاؤن ایفیکٹس

9 دسمبر کو دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک میں بھی عالمی یوم انسدادِ بدعنوانی منایا گیا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں تقریبات منعقد ہوئیں اور کرپشن کے خلاف بیداریٔ شعور کے لیے واکس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بدعنوانی کے خلاف دیے جانے والے لیکچرز کے دوران مقررین پُرجوش انداز میں یہ قرار دیتے رہے کہ ہمارے ملک کا اصل اور شاید سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے۔ کہا گیا کہ پوری قوم کو اِس ناسور کے خلاف اُٹھنا پڑے گا اور یہ بھی کہ اگر اب اِس برائی کے خلاف جہاد نہ شروع کیا گیا تو پھر معاملہ پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائے گا۔ ویسے ہمارا انداز ہ ہے کہ مقررین خوب جانتے تھے کہ معاملہ پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ چکا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔ بدعنوانی کے خلاف یہ جوش اور جذبہ دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوا کہ چلو کم از کم ابھی تک بدعنوانی کو ایک معاشرتی برائی تو تسلیم کیا جارہا ہے ورنہ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ذہنی طور پر خود کو اِس بات کے لیے تیار کرچکے ہیں کہ اب ہمیں اِس برائی کے ساتھ ہی جینا ہے۔ تبھی تو آج ہم بدعنوانی کے اعتبار سے دنیا کے 180 ممالک کی فہرست میں 140ویں نمبر پر براجمان ہیں۔ یہ 'اعزاز‘ ہمیں 2021ء میں بدعنوانی کی صورت حال کا جائزہ لیے جانے کے بعد ملا تھا۔ معلوم نہیں جب رواں سال بدعنوانی کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا تب اِس میں مزید شرمندگی کا کتنا سامان موجود ہوگا۔
دیکھا جائے تو اب بحیثیتِ قوم ہم نے رشوت اور بدعنوانی جیسی معاشرتی برائیوں پر شرمندہ ہونا چھوڑ دیا ہے۔ جس ملک میں اوپر سے نیچے تک کرپشن کا دوردورہ ہو، جہاں اعلیٰ سطح پر ملکی خزانے کو لوٹا جارہا ہو‘ جہاں انصاف کے نام پر سائلین کو پوری طرح نچوڑا جا رہا ہو‘ وہاں ایمانداری کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ جہاں قدم قدم پرجائز کاموں کے لیے بھی رشوت دینا پڑے‘ وہاں سیدھے راستے پر چلنے والے بھی ڈانواں ڈول ہونے لگتے ہیں اور ہورہے ہیں۔ انسدادِ بدعنوانی کے عالمی دن مناتے رہیں لیکن فی الحال ایسی کوئی صورت‘ کوئی اُمید دکھائی نہیں دے رہی کہ مستقل قریب یا بعید میں کرپشن میں کمی یا اِس کے خاتمے کا کوئی امکان ہو۔
حالت یہ ہے کہ سر سے پاؤں تک ہم بدعنوانی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ کرپشن صرف پیسے وصول کرنے کا ہی نام نہیں۔ کرپشن یہ بھی ہے کہ ہم کسی شخص سے کام تو لیتے ہیں لیکن مناسب اُجرت دینے سے گریز کا رویہ اپناتے ہیں۔ اُس کی مجبوری سے فائدہ اُٹھا کر اُس سے زیادہ وقت کے لیے کام لیتے ہیں لیکن پیسے کم دیتے ہیں۔ کرپشن یہ بھی ہے کہ ہم دفاتر میں مقررہ وقت سے کم ٹائم دیتے ہیں اور بہانے بہانے سے وہاں سے فرار کے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ کرپشن یہ بھی ہے کہ ہم سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور اِس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ کرپشن یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سرکاری عہدوں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ہم میں یہ تمام برائیاں بدرجہ اُتم موجود نہیں ہیں۔ ہمارے اکثر مسیحا دونوں ہاتھوں سے مریضوں کو لوٹنے کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہیں۔ پاکستانی جرنل آف میڈیکل سائنسز میں برطانوی نشریاتی ادارے کی مرتب کردہ ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں پاکستانی مسیحائوں کو دنیا بھر میں مہنگا ترین قرار دیا گیا تھا۔ یہ بھی قرار دیا گیا کہ اکثر مسیحاؤں کا کوئی ایک بھی نسخہ معیاری نہیں ہوتا کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ اور مہنگی ادویات تجویز کرتے ہیں۔ اگر اِس رپورٹ کی دیگر تفصیلات بیان کردی جائیں تو شاید آپ کا طبی نظام پر سے رہا سہا اعتماد بھی اُٹھ جائے۔ اگر پھر بھی آپ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں تو انٹرنیٹ پر یہ رپورٹ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یہ ان کا حال ہے جنہیں قوم کی مسیحائی سونپی گئی ہے اور باتیں ہو رہی ہیں کرپشن ختم کرنے کی۔
دیگر مثالوں کو چھوڑ کر صرف دودھ کی مثال لے لیتے ہیں۔ دودھ فروخت کرنے والی ہردکان پر یہ حدیث شریف بہت نمایاں طور پر آویزاں دکھائی دیتی ہے کہ ''جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ عملاً کیا صورتِ حال ہے‘ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ اب تو دودھ میں پانی کی ملاوٹ ہوتو اِسے غنیمت جانا جاتا ہے۔ شکر ادا کیا جاتا ہے کہ کم از کم سرف یا پھر کوئی مضرِ صحت کیمیکل تو نہیں ملایا گیا۔ یقینا یہ شکر ہی کا مقام ہے کیونکہ آج کل دودھ میں ایسے ایسے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں جن کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ نائٹروجن کی مقدار بڑھانے کے لیے دودھ میں یوریا ملانا عام بات ہوچکی ہے۔ دودھ کو طویل عرصے کے لیے محفوظ بنانے کے لیے ہائیڈروجن اور فارملین کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ دودھ کو جھاگ دار بنانے کے لیے ڈٹرجنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جانوروں سے زیادہ مقدار میں دودھ حاصل کرنے کے لیے اُنہیں آکسی ٹوسن کے انجکشن لگائے جاتے ہیں۔ دودھ میں پروٹین لیول کو بڑھانے کے لیے میلا مائن نامی ایک کیمیکل کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ یہ وہ کیمیکل ہے جس نے آج سے تقریباً بیس سال قبل چین میں تباہی مچا دی تھی۔ چین میں اِس کیمیکل کی دودھ میں ملاوٹ کے باعث تین لاکھ سے زائد شیرخوار بچوں کے گردوں میں پتھری پیدا ہو گئی تھی۔ چینی حکام نے اِس پر سخت کارروائی کرتے ہوئے ذمہ داروں کو کڑی سزا دی تھی۔ کیا یہاں اتنی سخت سزاؤں کا کوئی تصور موجودہے؟ہم سب جانتے ہیں کہ دودھ ہرانسان کی خوراک کا بنیادی جزو ہے لیکن اِس کے باوجود ہماری آنکھوں پر حرص و ہوس کے اتنے دبیز پردے پڑ چکے ہیں کہ سوائے پیسے کے کچھ اور سوجھ ہی نہیں رہا۔ پیسہ ہی مطمح نظر بن چکا ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی صورتحال میں بہتری کے لیے کوششیں تو بہت کررہی ہے لیکن یہ زیادہ بارآور ثابت نہیں ہورہیں کیونکہ کرپشن میں گردن تک دھنسے معاشرے میں ان کارروائیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
اِن حالات میں ہم ہرسال بہت جوش و خروش سے عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی مناتے ہیں۔ سو اِس سال بھی خوب جوش اور جذبے کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بھی عجیب رہی کہ عالمی یومِ انسدادِ بدعنوانی پر ہونے والی بہت سی تقریبات میں ایسی سیاسی شخصیات بھی خطاب کرتی دکھائی دیں جن کی بدعنوانی مسلمہ ہے۔ ایسی شخصیات مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے مختلف تقریبات میں مدعو کی گئی تھیں۔ اب خود ہی اندازہ لگا لیں کہ اِن کی باتوں کو سننے والے کتنی اہمیت دے رہے ہوں گے؟الحمرا‘ لاہور میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں کئی اہم حکومتی و اعلیٰ شخصیات شامل ہوئیں۔ یقین کیجئے کہ کچھ شخصیات ایسی تھیں کہ جب وہ تقریب سے خطاب کررہی تھیں تو ہال میں موجود حاضرین کے لبوں پر گاہے گاہے استہزائیہ مسکراہٹ دوڑنے لگتی تھی۔ وجوہات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ طے ہے کہ گھر کے سربراہان جو کچھ کرتے ہیں‘ بیشتر صورتوں میں گھروں کے بچے بھی اُسی راستے پر چل نکلتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس وقت یہی کچھ ہورہا ہے۔ اوپر والے کرپشن نہ کررہے ہوں تو عام آدمی کی یہ جرأت بھی نہیں ہوسکتی کہ ٹریفک سگنل کی ہی خلاف ورزی کرلے۔ یہ سب ٹرِکل ڈاؤن ایفیکٹس ہیں جنہوں نے اوپرسے شروع ہوکر سوسائٹی کی نچلی ترین سطح تک پوری مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ چلتے چلتے امریکہ کا ایک چھوٹا سا واقعہ جان لیجیے۔ چند روز پہلے امریکی شہر ٹامپا کی پولیس چیف اپنے شوہر کے ساتھ گالف کھیلنے جارہی تھی۔ راستے میں ایک ٹریفک اہلکار نے گاڑی پر نمبر پلیٹ رولز کے مطابق نہ ہونے پر اسے روکا۔ پولیس چیف نے اپنا تعارف کرایااور سروس بیج بھی دکھایا اور شاید یہ سوچا کہ اس کے بعد اُنہیں جانے دیا جائے گا۔ یہ منظر ٹریفک پولیس اہلکار کی وردی میں موجود کیمرے میں فلمبند ہوگیا۔ بس پھر کیا تھا‘ ہرطرف ہاہا کار مچ گئی اور بالآخر پولیس چیف نے ملک و قوم سے معافی طلب کرتے ہوئے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں