"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی صورت نظر نہیں آتی

بات نااُمیدی کی نہیں‘ قصہ صرف اتنا ہے کہ ہرطرف سے گرم ہوائیں ہی آرہی ہیں۔ کہیں سے کوئی خوش کن خبر آجائے تو کم از کم اُسے بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے‘ کہا جا سکتا ہے کہ نا اُمیدی کی کوئی بات نہیں ہے‘ آنے والا وقت ہمارے لیے بہت سی خوشیاں لے کرآرہا ہے‘ بس تھوڑا سا صبر کرلیں‘ پھر چیزیں ٹھیک ہونا شروع ہوجائیں گی لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ فی الحال ایسی کوئی اُمید دکھائی دے رہی ہے؟جس معاشرے میں پچھلے پچھتر سالوں سے آئین و قانون سے کھلواڑ جاری ہو‘ وہاں ایسا وقت آنا ہی تھا۔ ایک طرف آئین اور قانون سے کھلواڑ جاری ہے اور دوسری طرف خوش کن اور چکنی چپڑی باتیں اورنعرے ہیں‘ ان دونوں نے مل کر ہی حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔ اِس کے باوجود ہمارے ذہنوں میں شاید یہ راسخ ہوچکا ہے کہ ہم پر ہمیشہ قدرت اپنا کرم کرتی رہے گی۔ نہیں! ایسا ہرگزنہیں ہے۔ قدرت کے اپنے قوانین ہوتے ہیں اور اُن پر عمل ہی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیا وجوہات ہیں کہ ایک مسلم معاشرہ ہونے کے باوجود بھی ہمارے ملک کا شمار دنیا کے بدعنوان ممالک میں ہوتا ہے۔ اِس کی بظاہر صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے‘ وہ یہ کہ ہمارے ملکی قوانین بدعنوانوں پر مؤثر گرفت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر کبھی کوئی قانونی گرفت میں آ جائے تو پھر اسے قانون کے شکنجے سے نکالنے کے لیے ساری قوتیں سرگرم ہو جاتی ہیں۔ یہی حالات و واقعات ہیں کہ اپنے ملک کا آئین توڑنے میں بھی رتی برابر عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے ہاں کے طاقتور دوسرے ممالک میں سٹرک پار کرنے کے لیے بھی زیبرا کراسنگ کا سگنل گرین ہونے کا انتظار کرتے پائے جاتے ہیں۔ جب یہ اپنے ملک میں اقتدار میں ہوتے ہیں تو نجانے کتنی جبینیں اُن کے درِ دولت پر جھکی رہتی ہیں، جب یہ باہر سڑکوں پر نکلتے ہیں تو گھنٹوں پہلے شاہراہیں بند کرکے عوام کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے۔ لوگ گھنٹوں تک سڑکوں پر پھنسے رہتے ہیں مگر یہی حکمران جب مغرب کے ان ممالک میں جاتے ہیں جہاں قانون کی حکمرانی ہے‘ تو وہاں بھاگ بھاگ کر سڑک عبور کررہے ہوتے ہیں۔ آپ نے وزیراعظم صاحب کی وہ وڈیو دیکھی ہو گی جس میں وہ لندن کی ایک سڑک کو بھاگ کر عبور کرتے نظر آ رہے تھے۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ایسے مناظر ہم لاہور کے لبرٹی چوک اور مال روڈ پر بھی دیکھ سکتے ہیں؟ اگر کوئی حکومتی عہدہ نہ ہو‘ تب بھی ہمارے سیاستدانوں کے قافلے میں درجنوں گاڑیاں شامل ہوتی ہیں۔ حکومت میں آ جائیں تو پھر کیا ہی بات ہے۔ حیرت اِس بات پر بھی ہوتی ہے کہ یہ ایک ترقی پذیر ملک کے حکمران ہیں، ملک کی معاشی حالت سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ پوری دنیا میں امداد کے حصول کے لیے گھوم رہے ہیں۔ منت سماجت کے باوجود حالات ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے۔ ہم شاید اپنی کریڈیبلٹی ہی کھو چکے ہیں۔ ہم نے خود ہی ایک دوسرے کو بدعنوان‘ کرپٹ‘ چور‘ ڈاکو کہہ کہہ کر دنیا کو باور کرا دیا ہے کہ ہمارے یہاں سب ایسے ہی ہیں۔ صبح سے شام تک ایک دوسرے پر لگائے گئے اپنے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا جاتا ہے کہ ہم تو ایماندار ہیں لیکن جو باقی لوگ ہیں‘ اُن سے بڑا بے ایمان کوئی اور ہوہی نہیں سکتا۔ انہی باتوں کا‘ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ اب ہم بحیثیت قوم بھگت رہے ہیں۔
امید شکن بات یہ ہے کہ حالات میں بہتری کی بھی کوئی امید نظر نہیں آ رہی بلکہ آنے والے وقت میں خود کو مزید مشکل صور تحال کے لیے ابھی سے تیار کر لیجئے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ بظاہر جن سیاستدانوں نے ملکی حالات میں بہتری لانی ہے‘ وہ اِس مشکل ترین وقت میں بھی سنجیدہ نظرنہیں آرہے۔ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف‘ دونوں فریق شب و روز ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ جو ملکی حالات میں بہتری کے لیے خود کو انتہائی سنجیدہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘ سبھی کے قول وفعل میں تضادات ہی تضادات نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت تمام نمایاں سیاسی جماعتوں کے کسی نہ کسی طور اقتدار میں شامل ہونے کے باوجود سیاسی استحکام نہیں آرہا۔ تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور بعد ازاں عمران خان پر ہوئے قاتلانہ حملے کے بعد سے اِس جماعت نے ملک میں افراتفری پھیلانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ جب معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو پنجاب اور کے پی کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں۔ اِس سے ملک میں نیا سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا۔ مقصد یہی ہے کہ کچھ بھی کر کے ملک میں جلد عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوجائے۔ اسی دوران جب پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا اشارہ دیا تو پی ڈی ایم کی صفوں میں ایسی افراتفری مچی کہ فوراً ہی سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 35اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے۔ ذہن نشین رہے کہ تحریک انصاف کے اراکین کا موقف ہے کہ وہ اپریل میں ہی استعفا دے کر اسمبلی سے باہر آ چکے ہیں اور اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری ان استعفوں کو منظور کر کے الیکشن کمیشن کو ان سیٹوں کو خالی قرار دینے کا کہہ چکے ہیں۔ کئی بار پی ٹی آئی اراکین سپیکر قومی اسمبلی سے یہ مطالبہ بھی کر چکے ہیں ان کے استعفے منظور کر کے ان کی سیٹوں کو خالی قرار دیا جائے مگر پی ڈی ایم بالخصوص سپیکر قومی اسمبلی کا موقف تھا کہ آئینی تقاضا یہ ہے کہ مستعفی ہونے والا ہر رکن فرداً فرداً سپیکر کے پاس پیش ہو اور اپنے استعفے کی تصدیق کرے۔ گزشتہ نو ماہ سے اسی لیے یہ معاملہ لٹکایا جا رہا تھا مگر اب جیسے ہی پی ٹی آئی نے اسمبلی میں جانے کا عندیہ دیا‘ پہلے پینتیس استعفے منظور کیے گئے‘ اس کے تین دنوں بعد مزید پینتیس استعفے منظور کر لیے گئے۔ واضح رہے کہ گیارہ استعفے اس سے قبل منظور کیے جا چکے ہیں جن میں سے آٹھ جنرل نشستوں پر انتخابات بھی ہو چکے ہیں، ایک کے سوا‘ باقی سات پر پی ٹی آئی کے چیئرمین نے ان سیٹوں پر الیکشن لڑ کر کامیابی حاصل کی تھی‘ گزشتہ روز جن کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ اس حوالے سے فریقین جتنی مرضی تاویلات پیش کرتے رہیں‘ قصہ یہی ہے کہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم‘ دونوں کیلئے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہی مقدم ہیں۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے جلد انتخابات کرانا نہیں چاہتے اور تحریک انصاف جلد انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے ہر ممکن زور لگا رہی ہے۔
یہی وہ حالات ہیں جن کے پیش نظر آنیوالے دنوں میں صورتحال کے مزید بگڑنے کے خدشات مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس چھینا جھپٹی میں آٹے کے نرخ 150روپے کلو تک پہنچ چکے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ ایک زرعی ملک میں عام آدمی آٹے کے حصول کیلئے خوار ہو رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ڈالرز کی عدم دستیابی پر تاجر الگ سے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ تاجر تنظیموں کی طرف مسلسل یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر صورت حال یہی رہی تو مارچ میں بیروزگاری کا ایسا طوفان آئے گا جس سے نمٹنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اِس صورتحال کے جواب میں صرف ایک ہی بات سننے میں آرہی ہے کہ ابھی ''گزشتہ چار سالوں کا گند‘‘ صاف کیا جارہا ہے۔ یہی کچھ جانیوالے بھی کہا کرتے تھے اور آنیوالے بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ اعلیٰ حکام سیاستدانوں کے روایتی بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں۔ جب تاجروں نے گورنر سٹیٹ بینک کے سامنے اپنے مسائل رکھے تو کہا گیا کہ ہم جن چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں‘ وہ راتوں رات حل نہیں ہو سکتے‘ اِنہیں حل کرنے میں کچھ وقت صرف ہوگا۔ فی الحال وہ ''کچھ وقت‘‘ آنے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ اِسی باعث اب حکمران اشرافیہ اور عوام کے مابین پہلے سے حائل خلیج مزید وسیع ہوچکی ہے۔ سیاسی اشرافیہ وطن میں ہوتی ہے تو عوام پر حکمرانی کرتی ہے‘ جیسے ہی عہدوں سے ہٹتی ہے تو پھر بیرونِ ملک سکون اور عیش میں زندگی بسر کی جاتی ہے۔ آج کل ملک میں یہی کچھ چل رہا ہے‘ جسے اگر ہم اپنے ہی اعمال کا نتیجہ قرار دیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ جب آئین و قانون سے کھلواڑ کیا جائے‘ جب خواص کے لیے الگ اور عوام کے لیے الگ قانون ہو‘ جب مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کے لیے پورا زور لگا دیا جائے تو پھر یہی نتائج نکلتے ہیں جو اس وقت ہم بھگت رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں