"FBC" (space) message & send to 7575

دورِ جدید کے غلام

اپنا قانون اور اپنی عدالتیں! ستم ایسا کہ دل دہل جائے۔ کروفر اور تکبر کا یہ عالم کہ دنیا کے قانون کی کوئی پروا ہے اور نہ ہی قانونِ قدرت کے حرکت میں آجانے کا کچھ ڈر اور خوف۔ شاید اِس میں قصوروار ہمارے ملک کا وہ نظام بھی ہے جو طاقتوروں کو بھرپور معاونت فراہم کرتا ہے اور تب تک اُن سے کوئی باز پرس نہیں ہوسکتی جب تک کوئی معاملہ بھرپور طریقے سے سامنے نہ آجائے۔ بیشتر اوقات سامنے آنے والے معاملات پروقتی طور پر تو کارروائی ہوجاتی ہے لیکن آخر میں جیت طاقتوروں کی ہی ہوتی ہے۔ وہ وڈیو آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے جس میں بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن کی گاڑی کوئٹہ کے ایک چوک میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل کو کچلتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ پہلے یہ بیانیہ گھڑا گیا کہ گاڑی رکن صوبائی اسمبلی نہیں بلکہ اُن کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ بعد میں جب معاملات واضح ہوگئے تو طوہاً و کرہاً رکن اسمبلی کے خلاف مقدمہ درج کرنا پڑ گیا۔ حسبِ روایت طویل قانونی کارروائی شروع ہوگئی اور بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ موصوف کو باعزت بری کردیا گیا۔ بری کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ملزم کے خلاف ''اطمینان بخش‘‘ شواہد موجود نہیں تھے، اِس رہائی پر اس وقت کے ایک اعلیٰ پولیس آفیسر کا تبصرہ تھا کہ آج ریاست کا وجود باقی نہیں رہا۔
کراچی میں شاہ زیب نامی ایک نوجوان کا قتل ہوا۔ اِس قتل کے ملزموں کی بریت بھی ابھی کل ہی کی بات ہے۔ شاہ زیب کو چند امیر زادوں نے معمولی سے جھگڑے پر سرعام گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ مائنڈ سیٹ وہی تھاکہ ہم طاقتور ہیں‘ کسی کی کیا جرأت کہ ہم پر ہاتھ ڈال سکے۔ یہ معاملہ شاید دب جاتا مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اتنا زیادہ اُچھالا گیا کہ پولیس کو مجبوراً کارروائی کرنا پڑی۔ البتہ قانونی کارروائی کے دوران ملزموں کو بھرپورسہولتیں فراہم کی جاتی رہیں‘ یہاں تک کہ کسی کے علم میں لائے بغیر مرکزی ملزم کو طویل عرصے تک علاج کے نام پر ایک ''گھر نما ہسپتال‘‘ میں رکھا گیا۔ ایک روز یہ خبر عام ہوئی تو مجبوراً ملزم کو دوبارہ جیل منتقل کرنا پڑا۔ دس سالوں تک یہی کھیل جاری رہا اور دس برسوں کے بعد اس کیس کے تمام ملزمان باعزت بری ہوگئے۔ بتایا گیا کہ چونکہ فریقین کے درمیان تصفیہ ہوچکا ہے‘ لہٰذا مرکزی ملزم سمیت تمام افراد کی رہائی میں اب کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ یہ صلح صفائی کیسے ہوئی ہو گی‘ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ شاہ زیب کے لواحقین تب تک کیس لڑتے رہے جب تک اُن میں ہمت تھی لیکن رہنا تو اُنہیں اِسی ملک میں ہے‘ سو مزید نقصان سے بچنے کے لیے مفاہمت کرنے کو ترجیح دی گئی۔
اس حوالے سے کون کون سی مثال پیش کی جائے‘ یہاں تو ایسی مثالوں کا انبار لگا ہوا ہے۔ اِس افسوسناک باب میں ایک حالیہ اضافہ سانحہ بارکھان ہے۔ ایک خاتون اور اُس کے بچے کئی سال تک ایک سردار کی نجی جیل میں قید رہے۔ اس بدنصیب خاندان کے سربراہ محمد خان مری نے کس کس دروازے پر دستک نہیں دی‘ کون سے شہر میں وہ نہیں گیا، کوئٹہ سے کراچی اور لاہور‘ مگر کسی ادارے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ جوںرینگ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ بلوچستان کا سرداری نظام اتنا مضبوط ہے کہ اِس کے خلاف جانا اگرناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ نجی قید میں ڈالے جانے والے بچوں اور اُن کی والدہ کا قصور صرف اتنا تھا کہ خاندان کا سربراہ علاقے کے سردار کے کہنے پر جھوٹی گواہی دینے کو تیار نہ تھا۔ ایک ملازم کی اتنی ہمت کہ وہ سردار کی بات نہ مانے؟ سو‘ سرداری غیظ وغضب جوش میں آیا اور محمد خان مری کو ایک مقدمے میں پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا اور اس کے پورے خاندان کو نجی جیل میں ڈال دیا گیا۔ جب وہ جیل سے باہر آیا تو اسے علم ہوا کہ اس کا خاندان لاپتا ہے۔ ادھر ادھر ہاتھ پائوں مارنے سے اسے علم ہو گیا کہ وہ سب سردار کی نجی جیل میں قید ہیں جہاں دوچار دنوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ سالوں سے ان سب کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ محمد خان مری اپنے خاندان کی رہائی کے لیے ہرممکن کوشش کرتا رہا مگر بے سود، اسی دوران قید میں موجود اس کی بیوی گراں ناز بی بی کی قرآن شریف ہاتھ میں لیے رہائی کے لیے اپیل کرتی ہوئی ایک وڈیو سامنے آئی، سوشل میڈیا پر یہ معاملہ اٹھا اور مذکورہ خاندان کی رہائی کے لیے آوازیں اٹھنے لگیں مگر اس خاتون کے دو بیٹوں کو قتل کرکے اُن کی لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئیں۔ اِن دو لاشوں کے ساتھ کنویں سے ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کی لاش بھی برآمد ہوئی جسے زیادتی کے بعد سر میںتین گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ اِس لڑکی کی شناخت کو چھپانے کے لیے اِس کے چہرے کو تیزاب ڈال کر مسخ کر دیا گیاتھا۔ یا خدایا! یہ انسانوں کو کیا ہوگیا ہے؟ کیوں وہ طاقت کے نشے میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں؟ غریبوں اور مظلوموں کو بھوکے بھیڑیے دن رات نوچ رہے ہیں لیکن کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
ایک خاتون اپنے بچوں کے ساتھ سالوں سردار کی نجی جیل میں قید رہی۔ جب اُس نے رہائی کے لیے دہائی دی تو اُس کے دوبچوں کو قتل کردیا گیا۔ توقع کے برعکس یہ معاملہ پورے ملک میں زیرِبحث آگیا جس پر حکومت کو طوہاً و کرہاً نہ صرف سردار کو حراست میں لینا پڑا بلکہ خاتون اور اس کے بچوں کی بازیابی کے لیے آپریشن بھی کرانا پڑا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے تو دو روز میں ہی پانچ بچوں اور اُن کی والدہ کو بازیاب کرا لیا گیا۔ یہ ہے ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والوں اور طاقتوروں کے گٹھ جوڑ کی ایک جھلک۔ بہرکیف‘ یہ سب تو ہوگیا۔ ملزم کی گرفتاری پر سب نے اطمینان کا اظہار کیا کہ ایک بااثر ملزم بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اِس کے بعد کیا ہو گا؟متوقع طور پر جو کچھ ہوسکتا ہے‘ اُس کی بابت دومثالیں پہلے ہی پیش کی جا چکی ہیں۔ طویل قانونی کارروائی چلتی رہے گی‘ اِس دوران سبھی ثبوت مٹائے جائیں گے‘ تفتیش کا رخ موڑا جائے گا‘ معاملے کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جائے گا‘ طاقتور سردار کے کارندے غریب خاندان کی جان عذاب کیے رہیں گے اور ہمارے اور آپ جیسے لوگ اِنہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ دیکھو! وہ سردار ہے‘ انتہائی طاقتور اور تم انتہائی کمزور ہو۔ تمہارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم صلح کرلو۔ مظلوموں کی داد رسی اور ان کو انصاف دلانے والے ادارے بھی دامے درمے قدمے سخنے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ خان محمد اور اُس کے اہلِ خانہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عدالتوں اور تھانوں‘ کچہریوں کے چکر لگاتے رہیں گے۔ اِس دوران اُنہیں ہروقت یہی خدشہ ستاتا رہے گا کہ ابھی کہیں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور وہ سب کے سب انصاف مانگتے مانگتے اِس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔ یہ سب کچھ سہتے سہتے ایک دن ایسا آئے گا کہ جب اُن کی ہمت پوری طرح سے ٹوٹ جائے گی۔ سب باہم مشورہ کریں گے اور اُس کے بعدملزمان کو معاف کرنے کا اعلان کردیں گے۔ خدا نہ کرے کہ یہ تمام مناظر ہمیں دیکھنے کو ملیں‘ مگر سردار عطامحمد مری نے بلوچستان کے سرداری نظام پر کیا خوب تبصرہ کر رکھا ہے کہ بلوچستان میں سردار ' لا شریک‘ ہوتا ہے۔ اِس نظام میں سردار ہی وہ سرچشمہ ہوتا ہے جہاں سے سیاسی، ثقافتی اور دیگر اختیارات پھوٹتے ہیں۔ کہنے کو تو 8 اپریل 1976ء سے ملک میں سرداری نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن یہ نظام آج بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ برقرار ہے۔اِن حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ محمد خان مری اور اس کے خاندان کو انصاف ملے گا۔
غور طلب بات یہ بھی ہے کہ آخر ہمارے ملک میں آج تک کیوں یہ صورتحال برقرار ہے۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک کبھی قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے میں دلچسپی نہیں لی گئی۔ وہ تمام عناصر اِن حالات کے برابر ذمہ دار ہیں جنہوں نے بار بار قانون اور آئین کو اپنے پاؤں تلے روندا یا اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے طاقتوروں کے کندھوں کا سہارا لیا اور اِس کے عوض اُنہیں کھلی چھوٹ دی کہ وہ جس طرح چاہیں اپنے اپنے علاقوں میں ظلم و ستم کا بازار گر م رکھیں، بس ان کی حمایت جاری رکھیں۔ریاست کی چشم پوشی نے طاقتوروں کو مزید حوصلہ بخشا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ایک سردار گرفتار ہوا ہے تو حالات میں بہتری کی توقع باندھ لی جائے، ہرگز نہیں‘ یہ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی رہے گا‘اُس وقت تک جب تک قانون کا بلاتفریق نفاذ یقینی نہیں بنایا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں