"FBC" (space) message & send to 7575

اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

دنیاکی پانچویں بڑی آبادی‘ عوام کا دردرکھنے کا دعویٰ کرنے والے لاتعداد سیاستدان‘ بہترین زرعی زمین‘ معدنیات کے بے شمار خزانے‘ تمام موسم‘ ہر قسم کے موافق حالات‘ بہترین جغرافیائی پوزیشن‘ الغرض جتنی بھی تعریفیں ہمارے ذہن میں آسکتی ہیں‘ بلاشبہ ہمارا ملک اُن پر پورا اُترتا ہے۔ یہ ساری حقیقت اپنی جگہ لیکن اگر ایسے ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد آٹے جیسی انتہائی بنیادی ضرورت کی چیز کے حصول کیلئے اپنی جانیں گنوا رہی ہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ یہ انتہائی شرمندگی کا مقام ہے کہ مردوخواتین کی ایک بڑی تعداد صبح سے شام تک آٹا حاصل کرنے کیلئے قطاروں میں خوار ہوتی رہتی ہے۔ اِس سے بڑھ کر اور ستم کیا ہوسکتا ہے کہ حصولِ آٹا کے لیے لوگ اپنی جانیں تک گنوا رہے ہیں۔ کسی نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ایک زرعی ملک میں لوگوں کیلئے آٹے کا حصول ہی اتنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک طرف مستحقین کو مفت آٹا فراہم کرنے کے دعوے کیے جارہے ہیں اور دوسری طرف مارکیٹ میں دس کلو آٹے کے نرخ 1160روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت کی کارستانیاں ملاحظہ کیجئے؛ ہفتہ‘ دس دن پہلے تک دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 648روپے تھی۔ یکایک اِس کے نرخ 1158روپے تک پہنچا دیے گئے، مطلب فی کلو آٹے کی قیمت میں 51 روپے کا ظالمانہ اضافہ کردیا گیا۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہ کی کہ آٹے کے نرخوں میں اتنے زیادہ اضافے سے شہریوں پر کیا قیامت ٹوٹے گی۔ آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافے کے بعد مستحقین کو مفت آٹا فراہم کرنے کی سکیم شروع کی گئی جس کیلئے عوام کو طویل قطاروں میں کھڑا کردیا گیا۔ اب ہویہ رہا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں دس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1160روپے ہے اور دوسری طرف مفت آٹا فراہم کرنے کے نام پر شہریوں کو ذلیل و خوا رکیا جا رہا ہے۔صبح سے شام تک شہری اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے دھکے کھا رہے ہیں۔ مفت آٹا فراہمی سنٹرز پر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ تمام دن قطار میں لگے رہنے کے بعد جب کسی شہری کی باری آئی تو اسے یہ کہہ دیا گیا کہ آٹا ختم ہو گیا ہے‘ کل صبح آئے گا۔ گویا آئندہ صبح پھر یہی چکر شروع ہوجائے گا۔
اگر صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے تو پھر ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہم پچھترسالوں تک قوم کو زرعی معیشت کے بے معنی نعروں کی گولی دے کر سلاتے رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایسی بے ڈھنگی سکیموں کا اعلان کرکے صرف سستی شہرت سمیٹی جاتی ہے۔ مفت آٹا فراہمی سکیم کے بارے میں حکومتی سطح پر باتیں تو بہت کی جارہی ہیں‘ خود وزیراعظم صاحب بھی مختلف سنٹرز کا دورہ کر کے غریبوں میں آٹا تقسیم کر رہے ہیں لیکن اربابِ حکومت کی جانب سے یہ نہیں بتایا جارہا کہ اِس کیلئے شہریوں کو کس حد تک ذلیل ہونا پڑ رہا ہے۔ معلوم نہیں ہم کون سی دنیامیں رہتے ہیں اورکہاں بیٹھ کرایسے منصوبے بناتے ہیں کہ جن کا کوئی سرہوتا ہے نہ پیر۔ حکومت نے کیا کمال کیا کہ اوپن مارکیٹ میں آٹے کے نرخوںمیں بے تحاشا اضافہ کر کے انتہائی قلیل تعداد میں شہریوں کو مفت آٹا فراہم کرنا شروع کردیا۔ گویامفت آٹا تو کم تعداد میں لوگوں کو ملے گا لیکن مہنگا آٹاخریدنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔ حد یہ ہے کہ اِس بھونڈی سکیم کی بھرپور تشہیر بھی کی جارہی ہے۔ کوئی بھی شخص حالات کا عبوری جائزہ لینے کے بعد بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اصل میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اُن لوگوں کودیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے جو مفت آٹا لینے کی خواہش میں سارا دن لائن میں کھڑے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اوپن مارکیٹ میں ہی آٹے کے نرخوں میں نمایاں کمی کردی جاتی تاکہ سبھی حکومت کی ''دریا دلی‘‘ سے مستفید ہوتے۔ خدا کی پناہ! مائیں‘ بہنیں آٹے کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں‘ مرد حضرات بھی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہوتی ہے ماں جیسی ریاست؟ایسے ہوتے ہیں حکمران‘ جو خود تو کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور عوام کو آٹے جیسی بنیادی جنس بھی فراہم نہیں کرسکتے؟
اِسی طرح کی ایک سکیم کم آمدنی والے افراد کو سستا پٹرول فراہم کرنے کے نام پر بھی لانچ کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ فرمان جاری ہوا کہ ہم امیروں سے زیادہ پیسے لیں گے اور اِن پیسوں سے کم آمدنی والے افراد کو کم نرخوں پہ پٹرول فراہم کیا جائے گا۔ حکومتی زعما کے مطابق موٹرسائیکلوں اور چھوٹی گاڑیو ں کے مالکان ملک میں پٹرول کی مجموعی کھپت کا تقریباً نصف استعمال کرتے ہیں۔ اعلان ہواکہ پچاس فیصد صارفین سے زیادہ دام وصول کیے جائیں گے اور باقی پچاس فیصد کو پٹرول رعایتی نرخوں پر فراہم کیا جائے گا۔ طے یہ پایا کہ پہلے مرحلے میں پیسے اکٹھے کیے جائیں گے اور دوسرے مرحلے میں موٹرسائیکل اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والے صارفین کو رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ رجسٹریشن کے بعد متعلقہ صارف کو پیغام بھیجا جائے گا کہ آپ رجسٹر ہوچکے ہیں اور اُنہیں ایک او ٹی پی (ون ٹائم پاسپورڈ) کوڈ بھیجا جائے گا۔ اِس کوڈ کو پٹرول پمپ پر سکین کرنے کے بعد صارفین کو پٹرول فراہم کیا جائے گا۔ درمیان میں کچھ دیگر ضابطے کی کارروائیاں بھی ہوں گی۔ اِس سکیم کی زوروشور سے تشہیر کی گئی اور حسبِ روایت اِسے ''عوام دوست‘‘ حکومت کا ایک شاندار کارنامہ قرار دیا گیا۔ ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے تشویش کا اظہار سامنے آگیا۔آئی ایم ایف کا اظہارِ تشویش سامنے آنا تھا کہ فوری طور پر سکیم کو مؤخر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا اور یوں یہ غنچہ کھِلنے سے قبل ہی مرجھا گیا۔ گویا کھایا نہ پیا‘ گلاس توڑا بارہ آنے۔ وہی روایتی طرزِ عمل کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے کوئی کام شروع کردیا جاتا ہے اور بعد میں اعلان واپس لے لیا جاتا ہے۔ اِیسے ہی سیاسی حربوں اور ڈھکوسلوں کے سبب آج ہم اپنی بقا کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے پر مجبور ہیں۔ سب سے زیادہ دکھ اُن پر ہے جو 10‘ 12 فیصد مہنگائی پر خوب اچھل کود کر رہے تھے‘ مہنگائی مارچ کر رہے تھے اورہمہ وقت حکمرانوں کو برا بھلا کہتے تھے، آج جب خود حکومت میں ہیں تو ہلکی سی آواز بھی نہیں نکل رہی۔ آج ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 47 فیصد کی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، عوام فاقوں پر مجبور ہیں مگر کسی کو احساس تک نہیں۔
ایسے عناصر کا ایک منفی کردار یہ بھی ہے کہ سیاسی مخالفین پر ہر تہمت‘ ہر الزام دھرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ آجا کے وہی باتیں کہ فلاں غیر ملکی ایجنٹ ہے‘ فلاں دشمن کا آلہ کار ہے‘ فلاں غدار ہے‘ فلاں دہشت گرد ہے۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی بھی صورت اپنا اقتدار برقرار رہے۔ آج حکومتی اتحاد میں کم و بیش بارہ جماعتیں ہیں۔ ہے کسی کو احساس کہ عوام کس عذاب سے گزر رہے ہیں؟کسی ایک نے بھی اتنی اخلاقی جرأت نہیں دکھائی کہ دکھاوے کے طور پرہی حکومت سے علیحدہ ہوجائے۔ بالکل بھی نہیں! ایسا ہو گا بھی نہیں کیونکہ ان کی دم توڑتی سیاست کی بقا اقتدار سے چمٹے رہنے میں ہی ہے۔ جب تک حالات کی گردش اِنہیں مجبور نہیں کردیتی‘ انہیں عوام کا درد نہیں ستائے گا۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف عوام اپنا پیٹ بھرنے کیلئے جتن کر رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت کو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے ہی فرصت نہیں۔ شاید حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں اِس حقیقت کو قبول کرچکی ہیں کہ وہ سیاسی میدان میں تو اپنے مخالف کا مقابلہ نہیں کرسکتیں لہٰذا اِسے دوسرے طریقوں سے قابو کیا جائے۔ وزیر داخلہ کا بیان اس حوالے سے اعترافِ جرم کا درجہ رکھتا ہے۔ افسوس کہ ملک کا وزیر داخلہ یہ کہہ رہا ہے کہ جب بات بقا کی آ جائے تو پھر قانونی‘ غیر قانونی کی بحث ختم ہو جاتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب یہ صورتحال ہوگی تو انتظامی معاملات کا وہی حال ہو گا جو اِس وقت ہم بھگت رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں