"FBC" (space) message & send to 7575

اتنا اُدھم

معلوم نہیں اور کتنی بھد اُڑانی ہے۔ دنیا بھر میں مذاق تو ہم پہلے ہی بن چکے ہیں‘ نجانے کون سی کسر باقی رہ گئی ہے جو ایک دوسرے کے گریبان تک کھینچتے چلے جا رہے ہیں۔ معاشی طور پر نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ سیاسی طور پر دور دور تک استحکام کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اخلاقی طور پر شاید اتھاہ گہرائیوں میں گر چکے ہیں لیکن صبح سے شام تک ایک دوسرے کو صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ دیانتداری کی بات ہے کہ اب یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم ملک کے حالات بہتر کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اِس کی تازہ ترین مثال بارہ‘ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد نے قائم کی ہے۔ سپریم کورٹ کا حکم آتا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کرائے جائیں۔ اِس بات پر اتنا اُدھم مچایا گیا کہ یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے یہ حکم پاکستان نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک کی عدالت نے سنایا ہو۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول تو جاری کر دیا لیکن شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ انتخابات بروقت ہو سکیں گے۔ اِس ابہام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اقلیتی ہے جس کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ حد تو تب ہوئی جب قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی قرارداد تک منظور کر لی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ عدالت کے فیصلے سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا اور یہ بھی کہ یہ ایوان پورے ملک میں بیک وقت انتخابات کو ہی مسئلے کا حل سمجھتا ہے۔ جس پارلیمنٹ میں کورم قائم رکھنا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہو، آج اُس پارلیمنٹ کو یہ خیال ستا رہا ہے کہ سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ درپردہ کس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اِس پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا کہ قرارداد میں کابینہ کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہ کرنے کے لیے بھی کہا گیا۔ دوسری طرف پوری کابینہ مسلسل انتخابات نہ کرانے کا راگ الاپ رہی ہے۔ یہ سب کچھ ایک آئینی تقاضے کی تکمیل میں رکاوٹوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔ افسوس آج ہم اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کسی ایک بھی ادارے کو ہم نے غیر منتازع نہیں رہنے دیا۔
یہ سب اُدھم بارہ‘ تیرہ جماعتوں پر مشتمل حکومتی اتحاد کی طرف سے مچایا جا رہا ہے۔ اس اتحاد میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ایف) نمایاں جماعتیں ہیں۔ افسوس در افسوس کہ آج اُس شخصیت کا نواسہ بھی ایک آئینی تقاضا پورا کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا جس کو ملکی آئین کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ اتنے بڑے اتحاد میں سے کسی ایک شخصیت نے بھی حکومت یا پی ڈی ایم اتحاد سے علیحدگی اختیار نہیں کی کہ وہ ایک آئینی معاملے کو متنازع بنائے جانے کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے کو سپریم کورٹ کا حکم ہی 'غیر شرعی‘ دکھائی دے رہا ہے۔ اِس بیان پر سوائے سر پیٹنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے؟ دیکھا جائے تو سیاست میں مذہبی اصطلاحات کے استعمال کی یہ نئی مثال نہیں ہے۔ ہماری تاریخ اپنے سیاسی مفادات کے لیے ایسی تاویلات کی تاریخ سے بھری پڑی ہے۔ جب حکومتی اتحاد بھرپور طور پر سیاسی عہدوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے تو اُسے کیا پڑی ہے کہ انتخابات کے جھمیلوں میں پڑے؟ سو جب تک ممکن ہو گا تب تک اِن عہدوں پر فائز رہنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔ سیاسی بصیرت کا تقاضا یہ تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا جاتا کہ اگر تم انتخابات کے لیے میدان سجانا ہی چاہتے ہو تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ مگر میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کو فیصلے کو بھی متنازع بنا دیا گیا۔ ملک میں سیاسی طور پر مزید عدم استحکام پیدا کیا گیا۔ یہ تمام صورت حال پوری طرح سے واضح کر رہی ہے کہ حکمران اتحاد انتخابات سے خوفزدہ ہے۔ دیکھا جائے تو اُسے خوف زدہ ہونا بھی چاہیے۔ اِس اتحاد کو برسراقتدار آئے ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ اِس ایک سال کے دوران یہ حکومت اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان کے دور میں عوام کو مہنگائی کے جس گرداب میں پھنسایا گیا تھا‘ اُس سے قوم کو نجات دلائی جائے گی۔ بے روزگاری کو کم کیا جائے گا اور ڈالر کی اونچی اڑان کو کنٹرول کیا جائے گا۔ اِسی طرح کے بے شمار دعوے کیے گئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمام معاشی اقدامات ہماری انگلیوں پر گنے ہوئے ہیں‘ ہمیں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ درکار ہوں گے۔ اس تجربہ کار حکومت کے دعووں کا بھرم چند ہفتوں میں ہی کھل گیا تھا جب ڈالر ہی اس کے کنٹرول میں نہیں آ سکا۔ کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا، اُلٹا مسائل پہلے کی نسبت کہیں زیادہ گمبھیر ہو چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے دور میں جو کچھ ہوا‘ سو ہوا لیکن جو کچھ موجودہ حکومت کے دور میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے، اُس نے اگلی پچھلی تمام کسریں نکال دی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کپڑے بیچ کر عوام کو آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا، ان کے ملبوسات تو ویسے کے ویسے ہیں لیکن عام آدمی کے کپڑے ضرور اُتر چکے ہیں۔ مہنگائی نے ایسا حال کیا ہے کہ نہ جیا جاتا ہے نہ مرا جاتا ہے۔ 182 روپے والا ڈا لر ایک سال کے اندر 300 کا ہو چلا ہے۔ مہنگائی گزشتہ پانچ دہائیوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ گیس، بجلی اور پانی کے بل دینا اب عام آدمی کی بساط سے باہر ہو چکا ہے۔ اس ایک سال میں بلڈنگ میٹریل کی قیمتوں میں کم از کم تین گنا تک اضافہ ہوا ہے۔ ٹین ڈبہ قسم کی کاروں کی قیمتیں ملینز میں پہنچ چکی ہیں لیکن مجال ہے کوئی پوچھنے والا ہو۔ ایک سال میں بنیادی ترین ضرورت‘ آٹا نہ صرف کمیاب و نایاب ہو چکا ہے بلکہ قیمت دو سے تین گنا تک بڑھ چکی ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے اور دوسری طرف 87 رکنی کابینہ قوم پر مسلط کر کے گزشتہ سال بھر سے قوم کو صرف یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کا کیا دھرا ہے۔ دن رات ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی دور کی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر پہنچ چکی ہے۔ ایک لمحے کو مان لیا کہ ایسا ہی ہوا ہو گا‘ لیکن یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ایک سال میں آپ نے کیا کیا ہے؟ کون سا ایسا تیر مارا جس سے مسائل میں ذرہ برابر ہی کمی آئی ہو۔ قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ موجودہ کابینہ کے حد سے زیادہ غیر ملکی دوروں پر کتنی رقوم خرچ کی گئیں؟ نیز اِن دوروں کا حاصل وصول کیا ہے۔ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اقتدار میں آنے کے بعد کس نے کتنے مقدمات بند کرائے ہیں۔ کس کس نے کیا کیا فائدے حاصل کیے ہیں۔ زیادہ نہ سہی‘ تھوڑا بہت کر دکھانے کے لیے ایک سال ایسا کم عرصہ بھی نہیں۔ وہ بھی اِس صورت میں جب آپ کے پاس دنیا کی سب سے بڑی‘ 87 رکنی ذہین و فطین کابینہ ہو۔ لگ بھگ سبھی پارلیمانی پارٹیاں حکومت کی اتحادی اور اس کا دست و بازو ہوں‘ اس کے باوجود ایسی کارکردگی؟
شاید موجودہ ابتر صورت حال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔ ہر حکومت کی طرح‘ اِس حکومت کا سب سے بڑا مقصد اپنے اقتدار کو قائم و دائم رکھنا ہے۔ یوں بھی اس اقتدار کے قائم رہنے سے بارہ‘ تیرہ جماعتوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ اِسی لیے یہ سب اُدھم مچایا جا رہا ہے۔ رہی بات سپریم کورٹ کو متنازع بنانے کی‘ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1997ء کا وہ دور کسے یاد نہیں جب اس وقت کے چیف جسٹس‘ جسٹس سجاد علی شاہ کو اُن کے اپنے ہی ساتھی ججوں نے عہدے سے بے دخل کر دیا تھا۔ تب کون سی شخصیت بریف کیسز لے کر کوئٹہ گئی تھی‘ یہ باتیں اب طشت از بام ہو چکی ہیں۔ 1997ء کی صورتحال نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کو پست ترین سطح پر پہنچا دیا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر دنیا میں ملک کا مذاق اُڑتا ہے‘ عدالتی احکامات اگر ہنسی کا سامان بن کر رہ جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ کچھ بھی ہو جائے لیکن ضد‘ انا اور اقتدار اپنی جگہ قائم رہے۔ اپنے چند وقتی سیاسی مفادات کے لیے ملکی اداروں کو تصادم کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلوں کی پروا نہیں کی جا رہی۔ اس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ ملک کی موجودہ صورتحال کے باعث حالات مزید خراب ہوں گے۔ حکمران اتحاد نے انتخابات سے بچنے کیلئے ہر ممکن حد تک افراتفری پیدا کیے رکھنی ہے اور اِس کے نتیجے میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جائیں گے۔ یوں تو آئینِ پاکستان کی گولڈ ن جوبلی بہت جوش و خروش سے منائی جا رہی ہے لیکن آئین پر عمل کرنے کے لیے کوئی بھی تیار دکھائی نہیں دے رہا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں