"FBC" (space) message & send to 7575

چھڑی اور گاجر

وہ بھی عجیب و غریب منظر تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار چوہدری پرویز الٰہی کی رہائش گاہ پر چڑھ دوڑے تھے۔ کم از کم دو سے تین سو کے قریب پوری طرح سے مسلح اہلکار اپنے ساتھ بکتر بند گاڑی بھی لے کر آئے تھے تاکہ ہرطرح کی مزاحمت کو کچلا جاسکے۔ بکتر بند گاڑی رہائش گاہ کے دروازے کو ٹکریں مار رہی تھی۔ پولیس اہلکار دیواروں کے اوپر چڑھ کر رہائش گاہ کے اندر کود رہے تھے۔ ہم اور ہمارے قریب کھڑے دوسرے ساتھی رپورٹرز ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔ اس دوران پولیس اہلکار رہائش گاہ کے اندر کود کر گھر کا بڑا دروازہ اندر سے کھول دیتے ہیں۔ اس کے بعد تو جیسے ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہوگیا۔ گھر کے ملازمین کو تھپڑ مار مار کر گھر سے باہر نکالا جارہا تھا‘ انہیں گالیاں دی جارہی تھیں۔ گھر کے دروازوں کو ٹھڈے مار مار کر کھولا جا رہا تھا اور ہر وہ حربہ استعمال کیا جارہا تھا کہ جس سے اس گھر کے اندر رہنے والوں کو ذلت کا احساس ہو۔ وہاں موجود میڈیا کے سبھی نمائندگان کیلئے یہ بہت ہی افسوسناک منظر تھا۔ یہی بحث ہو رہی تھی کہ اگر اینٹی کرپشن کے پاس چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف ٹھوس مواد موجود ہے تو پھر انہیں ضرورگرفتار ہونا چاہیے لیکن بحث اس بات پر تھی کہ یہ کیا طریقہ ہے؟ فسطائیت کی انتہا یہ کہ جب آٹھ گھنٹوں تک جاری رہنے والے اس آپریشن کے بعد بھی پولیس چوہدری پرویز الٰہی کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تو بعد میں ان کیساتھ ساتھ ان کے ساتھیوں کے خلاف بھی دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ دہشت گردی کے مقدمات تو جیسے '' وَٹ‘‘ پر پڑے ہیں کہ جنہیں کھیل تماشا ہی بنا لیا گیا ہے۔ ہاں پر اتنا ضرور ہے کہ تمام دہشت گردوں کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہی ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل تیرہ جماعتوں کے تمام رہنما اور کارکن صحیح معنوں میں محب وطن اور انتہائی پاک صاف ہیں۔ محکمہ اینٹی کرپشن اور قانون نافذ کرنیوالے دیگر ادارے اپنی اَن تھک کوششوں کے باوجود حکمران جماعتوں کے کسی رہنما میں کوئی کرپشن نہیں ڈھونڈ سکے۔ اسے اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہی قرار دیا جانا چاہیے ورنہ تو ملک کا ستیاناس ہی ہو جاتا۔
خیر یہ سب کچھ تو ہوتا رہا اور آٹھ گھنٹوں تک تماشا لگا رہا۔ اب اس سے آگے چلتے ہیں کہ اس کا دوسرا مرحلہ بھی کافی حیرت انگیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو ملک کے طول و عرض میں پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنیوالے ادارے ایسی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں لیکن یہاں کچھ عجیب ہوا۔ سب سے پہلے وفاقی وزار نے چھاپے سے اظہارِ لاتعلقی کرکے اپنی بریت کا اظہار کیا۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا کہ اس واقعے کی بابت تفصیلات اکٹھی کی جارہی ہیں اور حقائق جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے رابطہ کرکے چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی پر اظہارِ افسوس کیا۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اُنہیں تو چھاپے کی بابت ٹی وی دیکھ کر معلوم ہوا ہے اور ہو نہ ہو یہ پنجاب کی نگران حکومت کی کارروائی ہے۔ بات پنجاب کی نگران حکومت پر آئی تو صوبے کے نگران وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ وہ تو مدینے میں ہیں اور انہیں اس بابت کچھ معلوم نہیں ہے کہ چھاپہ کس کی ہدایت پر مارا گیا۔ بعد میں نگران وزیراعلیٰ واقعہ پر اظہارِ افسوس کے لیے چوہدری شجاعت حسین کے پاس پہنچ گئے۔ ان کیساتھ صوبے کے دیگر اعلیٰ حکام بھی تھے جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ پرویز الٰہی کے گھر پر چھاپہ مارنیوالے افسران تحریری معافی نامے جمع کرائیں۔ عدالت کی طرف سے کارروائی کرنیوالوں کے خلاف کافی سخت ریمارکس بھی دیے گئے۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے غلط طریقے سے کارروائی کی اور پھر حکومت نے اس پر معذرت کا رویہ اپنایا۔ بعد میں ہائی کورٹ نے تحریری معافی نامے جمع کرانے کا حکم دیا۔ ویسے دیکھا جائے تو چوہدری برادران کافی خوش قسمت ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کرنیوالوں کو کافی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم اور آپ جیسے تو اس ''ریلیف‘‘ کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر اس چھاپے کے بارے میں دونوں حکومتوں کی طرف سے ہدایات جاری نہیں کی گئیں تو پھر آنے والے کہاں سے اور کن کی ہدایات پر آئے تھے؟
اندازہ کیجئے کہ یہ سب کھیل تماشے اس ملک میں ہورہے ہیں جہاں ایک سال پہلے ستر روپے کلو میں ملنے والا آٹا ایک سو ستر روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جہاں مٹھی بھر آٹا حاصل کرنے کیلئے لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ جہاں ایک لٹر پٹرول 283روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ جہاں مہنگائی کی بلند ترین شرح نے اسے دنیا کے مہنگے ترین ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں رشوت ستانی عام ہے۔ جہاں کے رہنے والوں کی بات پر دنیا بھر میں کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جہاں ریاست کے اندر نہ جانے کتنی ریاستیں بن چکی ہیں۔ جس ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر شرمندگی کی حد تک نیچے آچکے ہیں۔ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون پوری طرح سے قدم جما چکا ہے۔ جہاں ایک ریٹائرڈ شخصیت کا بیٹا کسی کو ٹکٹ دلانے کے عوض ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں طاقت ور لوگ غریبوں کا حق شیرِ مادر سمجھ کر ڈکار جاتے ہیں۔ جہاں کا سرمایہ دار مذہبی فرمودات پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ جہاں کا مسیحا ہروقت چاقو چھریاں تیز کرکے مریضوں کی کھال اتارنے کیلئے تیار بیٹھا رہتا ہے۔ جہاں تعلیم کے شعبے کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ جہاں منافقت کا ایسا دور دورہ دکھائی دیتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ جہاں معاشرت نامی چڑیا کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ہاں پر اس ملک میں اگر آج کل کچھ نظر آرہا ہے تو ''دہشت گردوں‘‘ اور ان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کی بھرمار ہے۔ اس کی زد میں ہر وہ شخص آرہا جو معمولی سی مزاحمت کرنے کی جرات کر بیٹھتا ہے۔ بچت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہمیشہ پابجولاں چلتے رہو۔
دراصل طاقتوروں نے جس طرح سے ہمارے ملک کو تجربہ گاہ بنایا‘ اس کے بعد میرا ملک ویسا ہی ہونا چاہیے تھا جیسا بن چکا ہے۔ قانون موم کی ناک بن چکا کیوں کہ یہاں طاقتوروں نے کبھی خود کو قانون کے تابع سمجھا ہی نہیں۔ ہوتے ہوتے بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جسے قدرت نے تھوڑی بہت طاقت بھی عطاکی ہے‘ وہ بھی اپنے سے زیادہ طاقتوروں کی من مانیاں دیکھ کر خود کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے۔ اس کے مظاہر آئے روز مشاہدے میں آتے رہتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس چلن میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ آج یہ کسی کے خلاف کچھ کرلیں تو کوئی ایسا فورم نظر نہیں آتا جہاں متاثرہ شخص کی شنوائی ہو سکے۔ دراصل جب حکومت یہ کہتی ہے کہ مخالفین پر جھوٹے مقدمات درج کرو کہ انہیں سبق سکھانا ہے۔ حکومت کی فرمائش تو پوری کر دی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی اپنی دشمنیاں بھی خوب نکالی جاتی ہیں۔ پولیس اہلکار بجا طور پر یہ گمان کر لیتے ہیں کہ جب حکومت خود ہی جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے تو پھر ہم کیوں اپنے مفادات کی تکمیل نہ کریں۔ کون ذی شعور یہ گمان کر سکتا ہے کہ ایک شخص پر مختصر وقت کے دوران سو سے زائد مقدمات درج کردیے جائیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر مقدمات دہشت گردی کے ہوں۔ سب مقدمات کی ایک جیسی نوعیت اور ایک جیسی عبارت۔ تو بس جان رکھو کہ میرا ملک ایسے ہی چلے گا۔ جسے یہاں رہنا ہے رہے ورنہ کہیں اور کا راستہ ماپے۔ ہاں لیکن اگر آپ کسی بھی طریقے سے طاقت اور پیسہ حاصل کر لیتے ہیں تو پھر آپ کی پانچوں انگلیاں گھی اور سرکڑاہی میں ہوگا۔ ہاں آپ کو کبھی کبھی کسی گستاخی کے نتیجے میں کچھ لوگوں کی ایسی کارروائیوں کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا جس طرح کی کارروائی کا سامنا چوہدری پرویز الٰہی کو کرنا پڑا۔ چوہدری برادران البتہ اس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ پہلے چھڑی سے ہانکا گیا اور پھر کھانے کو گاجریں بھی دی جارہی ہیں‘ ورنہ ہرکسی کی ایسی قسمت کہاں ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں