"FBC" (space) message & send to 7575

افہام و تفہیم سے معاملہ حل کریں

پیشانیوں پر تفکرات کی لکیریں‘ جواب طلب بے شمار سوالات کہ آخر ملک کا کیا بنے گا۔ ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے لوگ‘ جو اپنے مستقبل سے مایوس ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس شاد باد ملک کا کیا حال کردیا گیا۔ وہ کچھ ہوگیا‘ جو کچھ کسی صورت اور کسی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اپنے آنکھوں سے ایسے دلخراش مناظر دیکھے کہ دل ابھی تک خون کے آنسو رو رہا ہے۔ دوسرے شہروں کی صورتِ حال بھی خراب رہی لیکن لاہور میں پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے دوران انتہائی ناخوشگوار واقعات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ شہر کے حساس علاقے کئی گھنٹوں تک مشتعل ہجوم کے کنٹرول میں رہے جس دوران سکیورٹی نام کی کوئی چیز کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہ ناکے جہاں پر اپنی شناخت کرائے بغیر آگے جانا ناممکنات میں سے ہوا کرتا تھا‘ سب کے سب خالی پڑے تھے۔ اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں پوری طرح سے بپھرے ہوئے ہجوم کے رحم و کرم پر تھیں اور کہیں پر حکومت کا کوئی کنٹرول دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہجوم میں اتنا غصہ تھا کہ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ توڑ پھوڑ کے علاوہ مزید کس انداز میں وہ اپنے غصے کا اظہار کریں۔ ذہن میں بار بار ایک ہی سوال گردش کررہا تھا کہ کون ہے جوہمارے محافظوں اور عوام کو آمنے سامنے لے آیا ہے؟ کس نے اُن ہاتھوں کو پتھر برسانے پر مجبور کردیا جو ہاتھ ہمیشہ عزت کے ساتھ سلام کرنے کے لیے اُٹھا کرتے تھے؟ کون ہے ایسا جس نے لوگوں کا غصہ اِس سطح تک پہنچا دیا کہ سب بھر م ٹوٹ گئے‘ سب کچھ ملیا میٹ ہوگیا اور دشمنوں کو ہماری بھد اُڑانے کا موقع مل گیا؟ضرور کچھ بڑی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جو صورت حال اِس نہج تک پہنچ گئی۔ اُس مقام تک‘ جہاں سے آگے ساری حکمت عملیاں اور سارے پلان مشتعل ہجوم کے بہاؤ میں بہہ گئے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہم حکمت عملی بنانے کے اتنے ہی ماہر ہوتے تو کیا ملک کے یہ حالات ہوتے؟ مشتعل ہجوم کو کوئی بھی نام دیا جاتا رہے‘ نو مئی کو خواہ سیاہ دن کا نام دیں‘ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا ۔ ہم سب نے اپنی حرکتوں سے سب کچھ اپنے ہی ہاتھوں برباد کرکے رکھ دیا۔ کوئی ایسا تجربہ باقی نہیں رہ گیا جو ہم اپنے وطن عزیز میں بروئے کار نہ لائے ہوں لیکن ہرتجربے کے ایسے ہولنا ک نتائج برآمد ہوئے کہ ہمیشہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔ کسی ایک تجربے کی ناکامی سے ہم نے یہ سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ملک تجربات سے نہیں بلکہ نیک نیتی کے ساتھ چلتے ہیں۔ جہاں بدنیتی کارفرما ہو‘ وہاں حالات ایسے ہی ہوجاتے ہیں جیسے اس وقت ہمارے ہوچکے ہیں۔ ہم نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ معاملات کو افہام وتفہیم سے سلجھانے کی سعی کی جائے، خلوصِ نیت کو بروئے کار لایا جائے، مخالفین کی طرف امن و دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے یا کم از کم معاملات کو اس حد سے آگے نہ جانے دیا جائے کہ جہاں ورکنگ ریلیشن شپ بھی ٹھپ ہو کر رہ جائے۔
اب ہویہ رہا ہے کہ حکومت کے اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں۔ حکومتی زعما کی طرف سے مذمتوں کا طومار باندھا جارہا ہے۔ اِس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ملک کے مختلف شہروں میں فوج طلب کی جاچکی ہے جو امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے میں سول انتظامیہ کی مدد کرے گی۔ وہی روایتی اقدامات کیے جارہے ہیں جو ایسے مواقع پر کیے جاتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے ایسے سخت اقداما ت کی ضرورت ہے لیکن یہاں ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ جو پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے‘ اپوزیشن کی ساری قیادت کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے‘ انٹرنیٹ کو بند کر دیا گیا ہے‘ اس طرح حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟ کیا ایسے اقدامات سے مستقل بنیادوں پر صورتِ حال بہتر ہوجائے گی؟بظاہر اِس کا جواب نفی میں ہی سامنے آتا ہے لیکن ہم یہ کبھی نہیں سمجھیں گے کہ حالات میں دیرپا بہتری کے لیے کچھ اور اقدامات بھی ضروری ہوتے ہیں۔ سب سے پہلی ضرورت یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ سب ہمارے ہم وطن ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ مشتعل ہجوم نے توڑ پھوڑ کرکے نہایت غلط حرکت کی لیکن اس ہجوم کو مشتعل کس نے کیا؟ چیئرمین تحریک انصاف نے اسلام آباد روانگی سے قبل ایک وڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں کہا تھا کہ اگر کوئی انہیں وارنٹ دکھائے گا تو وہ بنا کسی مزاحمت کے اس کے ساتھ چل پڑیں گے مگر کچھ سیاسی انائوں کی اس سے تسکین نہیں ہو سکتی تھی، ذاتی تسکین کے لیے ہتک آمیز طریقے سے گرفتار کرنا ضروری تھا۔ اگر سب کام قانونی طریقے سے ہوتا‘ جس کا گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی کہا‘ تو کسی کو بھی انگلی اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی۔ گرفتاری کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے‘ اب حکومت کے بیانیے میں کتنا دم باقی رہا؟ اب جو بھی الزامات لگائے جاتے رہیں‘ کوئی فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ ہونی تو بالآخر ہوکر رہی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ سب کچھ بھی ہوگیا جس کا کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا جاسکتا تھا۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سب مل بیٹھ کر سوچیں کہ انتہاکو پہنچی ہوئی ان نفرتوں میں کس طرح کمی لائی جاسکتی ہے۔ کیسے اِس ملک کو سیدھے راستے پر ڈالا جاسکتا ہے۔ اُس ملک کو جو پہلے ہی معاشی طور پر وینٹی لیٹر پر جا پہنچا ہے۔
اگر ہم نے حالات کے اِس سطح پر پہنچنے سے پہلے ہی اِن کی نزاکت کا ادراک کرلیا ہوتا تو مخالفین کو ہم پر انگلیاں اُٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ کاش ہم نے عوام کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی ہوتیں تو شاید نفرتیں اتنی گہری کبھی نہ ہوتیں۔ حکومت کا لب و لہجہ اور عزائم دیکھ کر دل کانپ رہا ہے کہ یہ نفرتیں شاید ابھی مزید گہری ہوں گی۔ وزیر داخلہ عمران خان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت بہرحال اپنی رِٹ کو چیلنج کرنے والوں کو سزا دیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔ اگر اِن عناصر کو معافی ملتی ہے تو پھریہ ایک روایت بن جائے گی اِس لیے حکومت کو اِن کے خلاف بہرصورت کارروائی کرنا ہی ہوگی۔ آتشزدگی اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کا محاسبہ کرنا ازحد ضروری ہے۔ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے اور تادمِ تحریر مختلف شہروں سے بارہ سو کے قریب افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اب اِن کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی لیکن اگر یہاں بھی سیاسی پسند و ناپسند کا خیال رکھا گیا تو نفرتیں مزید گہری ہوں گی اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا چلاجائے گا۔ پانچ دہائیوں قبل ہم جس انتہائی بھیانک سانحے سے گزرچکے ہیں، وہاں بھی حالات بتدریج خراب ہوتے چلے گئے تھے مگر انہیں درخورِ اعتنا نہیں سمجھا گیا تھا‘ جلتی آگ پر پانی ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی جس کے نتیجے میں ہمیں تاریخ کے انتہائی افسوسناک سانحے سے گزرنا پڑا۔ تب بھی ایسے ہی بیانات سننے میں آتے تھے کہ فلاں کو نہیں چھوڑا جائے گا‘ فلاں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اِسی چکر میں حالات بدسے بدتر ہوتے چلے گئے تھے۔ اللہ نہ کرے کہ اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہوں لیکن صورتِ حال بہرطور انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ کچھ عاقبت نااندیش حکومتی زعما کی غیرذمہ دارانہ بیان بازی جلتی پر تیل چھڑک رہی ہے۔
طاقت کا استعمال ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ خدارا کچھ ملک کے لیے بھی سوچیں۔ ملک چلانے کے لیے فرشتے ہرگز نہیں آئیں گے کہ جو ہمارے حالات ٹھیک کردیں۔ اپنے ملک کے حالات ہمیں خود ہی ٹھیک کرنا ہوں گے۔ کب تک ہم خود ہی دوسروں کو خود پر اُنگلیاں اُٹھانے کے مواقع فراہم کریں گے؟ سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال غلط نتائج لے کر آتا ہے۔ ماضی کے کئی ایسے تجربات کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ صورتحال میں دیرپا بہتری کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ سب نیک نیتی کے ساتھ مل بیٹھیں اور ملکی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تو پھر ہمیں خود بھی قانون کی پاسداری کرکے رول ماڈل بننا چاہیے۔ اگر دلوں میں نیک نیتی سے کچھ کرگزرنے کا جذبہ ہوتو کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے‘ لہٰذا حالات کی نزاکت اور عوامی جذبات کو سمجھا جائے اور افہام و تفہیم سے معاملے کو حل کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں