"FBC" (space) message & send to 7575

یہ نظام ہی نہ رہا تو…؟

عجیب منظر تھا! وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون میں مظاہرین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ریڈ زون کے گیٹ پھلانگے جارہے تھے اور ایک اعلیٰ عدالتی شخصیت کے خلاف زور و شور سے نعرے بازی ہورہی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے علاقے میں ہورہا تھا جہاں دفعہ 144 نافذ تھی لیکن اِس کے باوجود کسی نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش نہ کی۔ روکنے کی کوشش تو کیاکی جاتی‘ اُلٹا اِنہیں ہرطرح کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اُس کے بعد ملک کے سب سے بڑی عدالتی ایوان کے باہر ایک جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں جو تقاریر کی گئیں‘ وہ سن کر تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کیا یہ گفتگو واقعی ہمارے ''جمہوریت پسند‘‘ رہنماکر رہے ہیں۔ وہ رہنما جن کے منہ سے ہمیشہ اداروں کے احترام کا درس سننے کو ملتا ہے۔ اِس احترام کی اصل حقیقت کیا ہے‘ وہ ان تقریروں سے اچھی طرح ظاہر ہورہی تھی۔ ستم ظریفی یہ کہ یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی میں ہورہا تھا۔ مظاہرین کو ریڈ زون تک پہنچانے کے لیے بھرپورسہولت کاری کی جارہی تھی۔ مقصد ایک ہی تھا کہ عدالتی حکم کے باوجود انتخابات نہ کرائے جانے کے زیرِ سماعت کیس کے حوالے سے عدالت کو دباؤ میں لایا جائے۔ مظاہرین کا جوش اور جذبہ بہت سے خدشات کو جنم دے رہا تھا۔ 1997ء کے ایک تلخ باب کی یادیں ذہن میں دوبارہ ابھر رہی تھیں۔ نعرے بازی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ جب جمہوری اقدار کے علمبردار قائدین کا خطاب شروع ہوا تو اُن کے الفاظ سن کر سبھی ششد ر رہ گئے۔ کسی مہذب معاشرے میں منصفین کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا مگر یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا تھا۔ نہ صرف ہو رہا تھا بلکہ ریاستی ٹی وی پر براہِ راست دکھایا جا رہا تھا۔ اسی دوران ایک لیڈر نے قابلِ احترام ججز کو مخاطب کر کے استفسار کیاکہ آپ کو عوام کا سمند ر دیکھ کر خوش ہوئی کہ نہیں؟ ان مظاہرین کو ملک کے اصل عوام قرار دیا گیا۔ دورانِ خطاب بے شمار ایسے جملے ادا کیے گئے جن پر اظہارِ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب نے تو اپنے خطاب میں حد ہی کردی۔ اُن کی طرف سے قرار دیا گیا کہ اگر حکومت پر ہاتھ ڈالا گیا تو حکومت کا تحفظ کریں گے۔ اسی طرح کا ایک بیان وزیر داخلہ نے ان الفاظ میں دیا کہ اب عدالتی حکم پر کوئی حکومت گھر نہیں جائے گی۔
بہت سی یادداشتوں میں 1997ء کا وہ احتجاج آج بھی محفوظ ہوگا جب برسر اقتدار جماعت کے کارکن سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ میں اُس وقت کے وزیراعظم کے خلاف توہینِ عدالت کا ایک مقدمہ زیرِسماعت تھا۔ اُس روز کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔ ابھی عدالتی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک اہم پارٹی رہنما یکایک کمرۂ عدالت سے باہر نکلے جس کے بعد کمرے کے باہر شوروغل اُبھرنے لگا۔ کچھ صحافیوں نے جا کر معزز جج صاحبان کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ پر حملہ ہوچکا ہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ اپنا فیصلہ نہ سنا سکے اور عدالتی کارروائی ختم کر کے ساتھی ججز کے ساتھ کمرۂ عدالت سے روانہ ہو گئے۔ ہجوم جب کمرۂ عدالت میں داخل ہوا تو ججز کو وہاں نہ پا کر اُس نے صحافیوں کو پکڑ لیا جن کی بمشکل گلوخلاصی ہوئی۔ جب یہ حربہ بھی ناکام ثابت ہوا اور چیف جسٹس کو نہ جھکایا جا سکا تو پھر ان کے ساتھی جج صاحبان کے ذریعے اُن کے خلاف بغاوت کرادی گئی۔ اس بغاوت کے کیا اسباب تھے‘ بہت سی کہانیاں اُس وقت بھی زیرگردش رہیں جن میں لین دین کا کثرت کے ساتھ ذکر ہوتا تھا۔
یقینا وہ وقت بھی یاد ہوگا جب احتسابی ادارے کے سربراہ ایک مخصوص جسٹس صاحب کو اس وقت کے ایک وزیراعلیٰ کے پیغامات پہنچایا کرتے تھے کہ فلاں فلاں کیس میں ان کے مخالف سیاستدانوں کو زیادہ سے زیادہ سزائیں سنائی جائیں۔ اِس حوالے سے ایک آڈیو لیک بھی سامنے آئی جس کی پاداش میں ان جسٹس صاحب کو تو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن وزیراعلیٰ صاحب بچ نکلے۔ غرضیکہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی روایت کافی پرانی ہے۔ مقصد اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانا ہوتا ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب حکومتی سطح پر ایسی کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے باہر جو کچھ ہوا‘ اُ س کے پیش نظر اِس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ دکھاوے کیلئے ہی سہی‘ کچھ نہ کچھ کارروائی ضرور کی جائے گی لیکن یہ بھی ممکن نہ ہوسکا۔ اس سے قبل ایک سیاسی جلسے میں قابلِ احترام ججز کی تصاویر چلا کر ان پر تنقید کی گئی تھی مگر اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔ یہ توقع اِس تناظر میں تھی کہ اِس سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک خاتون مجسٹریٹ کو دھمکی دینے پر مقدمہ درج ہوچکا ہے۔
جب ایک اپوزیشن رہنما نے ایک بیان دیا تو اُس پر فوراً مقدمہ درج کرلیا گیا مگر یہی رویہ اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے حکومت میں شامل جماعتوں نے اپنایا تو اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ صد افسوس کہ اِس 'کارِخیر‘ میں پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی بھرپور شرکت کی۔ وہی پیپلزپارٹی جو خود کو آئینِ پاکستان کی خالق جماعت قرار دیتی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سب سے زیادہ جمہوریت پسند سوچ کی حامل ہے۔ وہ پیپلزپارٹی جو آئین و قانون کیلئے دی گئی اپنی قربانیوں پر بجا طور پر فخر کرتی ہے۔ افسوس کہ اُس نے بھی ایک ناپسندیدہ عمل میں حصہ لیا۔ بعض کارکنوں نے کچھ اہم شخصیات کی تصاویر بھی نذرِ آتش کیں مگر دوسرے‘ تیسرے درجے کی قیادت کی جانب سے بھی اس عمل کی مذمت نہیں کی گئی۔ کل تک ایک دوسرے کی سخت حریف جماعتیں آج اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کی ڈھال بنی ہوئی ہیں۔ افسوس اِس بات پر بھی ہوا کہ حکومت میں شامل تیرہ جماعتوں میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ اِس غیر ضروری سرگرمی کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جائے۔ یہ ہے ہمارے رہنماؤں کی سوچ‘ جو ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ جو ہمیشہ عدلیہ کے احترام کی بات کرتے ہیں۔ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ عدالتوں کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ کیا یہ ہے عدلیہ کا احترام کہ اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کی جائیں؟ یہ بھی شاید ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا۔ آئین کا آرٹیکل 68 واضح طور پر کہتا ہے کہ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ یا کسی بھی ہائیکورٹ کے کسی جج کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہو سکتی۔ مگر یہاں آئین کی پروا کسے ہے؟ عدلیہ کا قصور صرف اتنا ہے کہ اُس نے ایک آئینی تقاضا پورا کرنے کا حکم دیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ آئین کے مطابق کوئی بھی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد نوے دنوں کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ یہ فیصلہ سامنے آنے کی دیر تھی کہ عدلیہ مخالف مہم کا ڈول ڈال دیا گیا۔ جو ادارے سکیورٹی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، اُن کی طرف سے کہا گیا کہ وہ الیکشن کے لیے سکیورٹی نہیں دے سکتے۔ الیکشن کرانے کے ذمہ دار ادارے نے کہہ دیا کہ وہ انتخابات کرانے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔ واضح عدالتی حکم کے باوجود حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
کاش اِن احباب نے یہ بھی سوچا ہوتا کہ اقتدار ہمیشہ نہیں رہنا۔ تسلیم کہ ہمارے عدالتی نظام میں بہت سے سقم ہیں اور یہ کہ عدالتی فیصلوں میں اعتراض کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر نظام کو ہی کمزور کردیا گیا تو پھر کیا ہوگا؟آج جس طرح عدالتوں کو متنازع بنایا جا رہا ہے اور جس طرح پکڑ دھکڑ ہورہی ہے‘ کل کو ہمارے صاحبانِ اختیار خود بھی اس جبر و زیادتی کا شکار ہوئے تو کس کے سامنے فریاد کناں ہوں گے؟آج جس طرح وہ توہینِ پارلیمنٹ کا قانون متعارف کرا رہے ہیں‘ کیا کل کو اِس کی زد میں وہ خود نہیں آئیں گے؟ افسوس کہ ہم ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کے باوجود ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ بجائے اِس کے عدالتی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرکے اِسے مضبوط بنیادوں پر استوار کیا جائے‘ اِس نظام کو مزید کمزور کیا جارہا ہے۔ عدالتیں رہائی کا حکم دیتی ہیں لیکن رہا ہونے والوں کو فوراً ہی کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اقتدار میں موجود بیشتر جماعتیں خود بھی ماضی میں بہت کچھ جھیل چکی ہیں لیکن نجانے اقتدار میں آتے ہی کیوں یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ اب اقتدار کا ہُما سدا ان کے ہی سر پر بیٹھا رہے گا۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیں اورمتاثرین سے ریلیف کی بچھی کھچی اُمیدیں مت چھنیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں