"FBC" (space) message & send to 7575

سب کچھ ٹھیک توہے

شور مچانے والوں کا کیا ہے کہ وہ تو شور مچاتے ہی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ آئین اور قانون کی بے توقیری کا راگ الاپنے والے کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ تاریخ کی اس مضبوط ترین حکومت کے دور میں تو آئین اور قانون کی ماضی کی تمام حکومتوں سے زیادہ ''پاسداری‘‘ دیکھنے میں آرہی ہے۔ بس سمجھنے والا ذہن اور دیکھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔ کچھ زیادہ مسائل بھی باقی نہیں رہ گئے۔ بس ایسے ہی چند ایک مسائل ہی باقی بچے ہیں ورنہ بیشتر مسائل تو حل کیے جا چکے ہیں۔ اندھے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اور ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ اگر کوئی چند ایک مسائل رہ بھی گئے ہیں تو ہماری جہازی سائز کابینہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے دن رات محنت کررہی ہے۔ سنا ہے کہ ان چند ایک مسائل کی وجہ سے ہمارے کم و بیش 86وزرا‘ مشیران اور معاونینِ خصوصی میں سے بیشتر کو راتوں کو نیند نہیں آتی۔ اگر ان مسائل کا حل ملک کے اندر نہ ملے تو پھر ظاہر سی بات ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جا کر تو ان کا حل ڈھونڈنا لازم ہو جاتا ہے۔ سو بیچارے ملکوں ملکوں گھوم کر ان مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے حکومتی زعما کو چند ایک باقی رہ جانے والے مسائل کی اتنی زیادہ فکر ہے کہ صرف 22وزرا نے 93غیرملکی دورے کر ڈالے ہیں۔ خیر سے ہمارے جواں سال وزیر خارجہ نے اٹھارہ دوروں کے ساتھ پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ وزیر مملکت برائے امور خارجہ گیارہ دوروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئی ہیں۔ وزیر تجارت اور وزیر پٹرولیم سات‘ سات دوروں کے ساتھ برابر رہے۔ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے بھی دو غیرملکی دورے کر ڈالے ہیں جن پر صرف 77لاکھ 56ہزار روپے خرچ ہوئے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی‘ عائشہ غوث پاشا اور متعدد دیگر وزرا نے بھی غیرملکی دورے کیے جن پر صرف ساڑھے آٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ وزیر خارجہ کے دوروں کے اخراجات ان میں شامل نہیں ہیں۔ اب ظاہر سی بات ہے یہ تمام تر تردد ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہی تو کیا جارہا ہے ورنہ کیا مصیبت پڑی ہے کہ اپنے گھر والوں سے دور جایا جائے۔
ہماری قوم بھی شاید دنیا کی عجیب ترین قوم ہے جس کے پلے عقل کی کوئی بات پڑتی ہی نہیں ہے۔ خواہ مخواہ ہی اتنی بڑی کابینہ پر شور مچایا جاتا ہے۔ ارے بھئی ملک چلانے کے لیے کابینہ کی بہت اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ تمام مسائل جلد سے جلد حل کیے جا سکیں اور ہمارے وزیر‘ مشیر بلاشبہ اس کے لیے اَن تھک محنت کررہے ہیں۔ خود ہمارے وزیراعظم بھی دن رات محنت کررہے ہیں کہ کسی طرح سے ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمیں تو ان کی تمام باتوں اور بیانات پر مکمل یقین ہے کہ وہ جو کچھ فرماتے ہیں‘ بالکل ٹھیک فرماتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ قانون شکن عناصر سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا تو ہمیں پورا یقین ہوتا ہے کہ اب کوئی قانون شکن قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکے گا۔ ہمیں تو ان پر تب بھی پورا یقین تھا جب وہ یہ کہتے تھے کہ مہنگائی ختم کرنے کے لیے اپنے ملبوسات بھی فروخت کردیں گے۔ وہ شاید ایسا کر بھی دیتے لیکن بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ مہنگائی تو پوری دنیا کا بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ابھی چند روز پہلے بھی انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ باور کرایا ہے کہ ہم وطنو! ہم مہنگائی کم کرنے کی کوششیں تو کررہے ہیں لیکن کیا کریں کہ یہ تو عالمی مسئلہ ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ وہ بیچارے کسی عالمی مسئلے میں کیوں کر ٹانگ اڑا سکتے ہیں۔ مسئلہ پھر وہی آجاتا ہے کہ بے وقوف عوام عالمی حالات سے بالکل بے بہرہ ہوکر ایسی ہی باتوں پر شور مچاتے رہتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں کہ وہ دیکھیں جی ڈالر 300 روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ وہ دیکھیں جی مہنگائی کی شرح 38فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ وہ دیکھیں جی تیرہ ماہ پہلے جو سودا سلف 8 ہزار روپے میں آتا تھا آج اس کی خریداری کے لیے کم از کم 18 ہزار روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں یہ لوگ ایسی باتوں کے لیے حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے رہے ہیں۔ ارے بھئی ہماری حکومت آپ کو بتا بتا کر تھک چکی ہے کہ مہنگائی کو کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن یہ قوم ہے کہ اسے کسی بات پر یقین ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم پوری طرح سے حکومت اور اس کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کیساتھ ہیں۔ صرف ساتھ ہی نہیں ہیں بلکہ دل و جان سے ساتھ ہیں۔
ہم کیوں حکومت کے ساتھ نہ ہوں کہ جب ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 13'' جمہوری جماعتیں‘‘ ایک دوسرے کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہیں۔ کم از کم ہمیں تو تاریخ میں ڈھونڈے سے بھی ایسی مثال نہیں ملی۔ ان سب کو دیکھ کر دل اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس خوشی کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ دیکھئے تو سب کی سب جماعتیں مل کر آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے دن رات نت نئے قوانین منظور کررہی ہیں۔ اخترمینگل صاحب‘ مولانا فضل الرحمن‘ ایمل ولی خان صاحب اور ایسے ہی کتنے رہنما جمہوری اقتدار کی مضبوطی کے لیے بھرپور طریقے سے اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ عوام کو صرف یہ بات سمجھنی چاہیے کہ بھلا اگر اتنے سارے جمہوریت اور آئین پسند لوگ ایک ہی جگہ پر موجود ہوں تو پھر کس مائی کے لال کی جرأت ہے کہ وہ آئین کے ساتھ کوئی کھلواڑ کر سکے۔ ہمیں تو اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ یہ سب کے سب مل کر ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی میں مصروف ہیں۔ وہ ناہنجار جو غیرملکی ایجنٹ ہیں‘ جو ملک اور سماج دشمن ہیں‘ ہمیں امیدِ واثق ہے کہ وہ سب اپنے مقاصد میں ضرور ناکام ہوں گے اور جلد ہی ملکی سیاست میں صرف اور صرف ایسے لوگوں کا راج ہوگا جو ہر لحاظ سے محب وطن ہیں۔ ایسے لوگ جن کی حب الوطن میں ماضی میں کوئی شک رہا اور نہ ہی آئندہ ایسا کوئی شک پیدا ہونے کی توقع ہے۔ ہاں بس اتنا ہے کہ اس حب الوطنی کو برقرار رکھنے کے لیے وزارتوں کی ضرورت بہرحال رہے گی۔ دیکھیں وزارتیں نہ رہیں تو پھر شاید کہیں سے کوئی غلط آوازیں ابھرنا شروع ہو جائیں ورنہ جب تک وزارتیں موجود ہیں تب تک فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ بس ان کا یہی جمہوری طرزِ عمل ہے جو ہمیں ان کا دیوانہ بناتا ہے۔
ہمیں اس حکومت سے پوری امید ہے کہ اس کے دورمیں آئین اسی طرح اپنی پوری مضبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑ ا رہے گا۔ پورا یقین ہے کہ اس حکومت کے دور میں کسی دہشت گرد کو امن و عامہ کی صورت حال خراب کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ یہ حکومت کسی بھی طرح جمہوری اقدار کے خلاف نہیں جائے گی تو پھر بھلا ہمیں اور کیا چاہیے۔ ہمیں اس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ ملک کے 25کروڑ عوام بھی پوری طرح سے اس حکومت کے ساتھ ہیں۔ امید ہے کہ اتنی وسیع عوامی حمایت حاصل ہونے کے بعد اب جلد ہی انتخابات کرا دیے جائیں گے۔ جب ہمیں ایک ہی حکومت کی چھت تلے اتنا سب کچھ مل رہا ہے تو پھر معلوم نہیں وہ کون لوگ ہیں جو اس حکومت پر نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں تو اس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی۔ اسی لیے ہم ایک مرتبہ پھر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم دل و جان سے پوری طرح اس حکومت کیساتھ ہیں۔ ہم نہ صرف ملک کے اندر موجود لیگی زعما سے عقیدت رکھتے ہیں بلکہ لندن میں موجود احباب کے بھی معتقد ہیں۔ وہ صاحب تو جب سے علاج کے لیے باہر گئے ہیں‘ ہماری تب سے ہی دعائیں جاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد صحت عطا فرمائیں۔ ان کی ملک سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اتنی زیادہ محبت ہے کہ اب اس کے نتیجے میں لیول پلئینگ فیلڈ بھی میسر ہونے جارہی ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ وہ کتنے محب وطن لوگ ہیں۔ بس ان کے ماضی کے کچھ بیانات کی طرف دھیان نہ دیجئے گا۔ نہ ان کے اور نہ ہی ان کے ساتھیوں کے ماضی کے کچھ بیانات کو خاطر میں لائیے گا۔ عوام کے لیے بھی ہمارا یہی مشورہ ہے کہ بس موجودہ حکومت کا پوری طرح ساتھ دیں کہ اسی میں ملک کی بہتری اور ہماری بقا پنہاں ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ تحریر ثبوت رہے گی کہ ہم موجودہ حکومت کے کتنے بڑے معتقد اور سماج‘ ملک اور قوم دشمن عناصر کے کتنے سخت مخالف ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں