"FBC" (space) message & send to 7575

مراعات کے لیے یکساں رویے

چہرے دیکھیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ عام آدمی کا سب سے زیادہ درد یہی محسوس کررہے ہیں۔ بات کرتے ہیں تو لگتا ہے جیسے عوام کی حالتِ زار پر اِن کا دل خون کے آنسو رورہا ہے‘ جیسے یہ عام آدمی کے غم میں گھلے جارہے ہیں۔ اعلانات کیے جاتے ہیں کہ اپنے کپڑے بیچ کر بھی مہنگائی کم کریں گے‘ بس ایک مرتبہ اقتدار میں آنے دیں پھر دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی جائیں گی‘ عام آدمی کی حالت میں بہتری لانے کے لیے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے مگر جب اقتدار مل جائے تو کپڑے تو کیا بیچنے ہوتے ہیں‘ عام آدمی کے بچھے کھچے ملبوسات اتروانے تک نوبت آ جاتی ہے۔ ایک طرف جہاں عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل تر ہوچکا ہے‘ وہیں ہمارے منتخب نمائندوں کا اپنی مراعات میں بلا روک ٹوک اضافے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ چند سال قبل ہمارے ایک منصفِ اعلیٰ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے شاندار اضافی مراعات منظور کرالی تھیں۔ یہ منصف اعلیٰ اپنے منصب پر فائز رہتے ہوئے سب کو لتاڑنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ ہمہ وقت یہی تاثردینے کی کوششوں میں مصروف رہتے کہ دنیا میں اُن سے بڑھ کر کوئی دردِ دل رکھنے والا نہیں ہے۔ سرکاری افسران کو کھڑے کھڑے ذلیل کر دیتے تھے۔ کبھی اپنا کام چھوڑ کر ڈیم کے نام پر چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیتے۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ کا ستیاناس کردیا تھا۔ شاید اُنہیں یہ غم کھائے جارہا تھا کہ اُن کے ڈاکٹر بھائی کی تنخواہ انسٹیٹیوٹ کے چیف سے کم کیوں ہے۔ نجانے کیا وجہ تھی مگر موصوف نے ایک شاندار منصوبے کو برباد کر دیا۔ امریکہ میں کامیاب پریکٹس چھوڑ کر پاکستان آنے والے انسٹیٹیوٹ کے چیف اور اُن کی ٹیم کو اتنا زچ کیا گیا کہ وہ بالآخر واپس امریکہ چلے گئے۔ یہ کم ظرفی اور اپنے اختیارات کے بے جا استعمال کی بدترین مثال تھی۔ معلوم نہیں کہ بعد میں کتنے مریضوں کو علاج کی وہ سہولتیں میسر آ سکیں جو اس سے قبل مریضوں کو حاصل ہوچکی تھیں۔ جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نے اِس ہسپتال کا سنگِ بنیاد رکھا تھا تو تب ہم بھی اس تقریب میں شامل تھے۔ جو کچھ اِس منصوبے کے بارے میں بتایا گیا تھاوہ سن کر دل باغ باغ ہوگیا تھا لیکن افسوس‘حسرت ان غنچوں پر ...
خیر‘ جب یہ منصفِ اعلیٰ ریٹائر ہوئے تو اپنی ریٹائرمنٹ سے کچھ ہی عرصہ قبل اُنہوں نے اپنے لیے اضافی مراعات منظور کرلیں۔ اس منظوری کے لیے اُنہوں نے وہ سب کچھ کیا جو کچھ اُن کے بس میں تھا اور بالآخر اِس میں کامیاب ٹھہرے۔ اگست 2018ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے چندر وز قبل وزارتِ قانون نے وزیراعظم آفس کو ایک سمری بھیجی جس میں 7 جولائی 2018ء کو ہونے والے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کا حوالہ دیا گیا تھا۔ سمری میں بتایا گیا کہ فل کورٹ اجلاس میں منصفِ اعلیٰ کو ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی سہولتیں فراہم کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ اِس سمری پر کچھ اعتراضات اُٹھائے گئے اور کہا گیا کہ اِس طرح تو یہ ایک رسم بن جائے گی اور ہر کوئی اپنی مدتِ ملازمت ختم ہونے سے قبل یہی کچھ کرے گا مگر بالآخر اِن مراعات کی منظوری دے دی گئی اور موصوف کی ریٹائرمنٹ کے بعداُنہیں ایک پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات بھی فراہم کی گئیں جس کی تنخواہ سپریم کورٹ کے بجٹ سے ادا کی جاتی ہے۔ عوام کی دلچسپی کے لیے بتاتے چلیں کہ ہمارے یہ سابق منصفِ اعلیٰ کم از کم دس لاکھ روپے پنشن وصول کر رہے ہیں۔ دوہزار یونٹ مفت بجلی ملتی ہے۔ ان کی تین ہزار لوکل کالوں کا بل بھی قومی خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ ماہانہ تین سو لیٹر پٹرول مفت میں فراہم کیا جاتا ہے‘ پانی کا تو کوئی بل وہ ادا ہی نہیں کرتے‘ گیس کے اچھے خاصے یونٹس کا بل بھی سرکاری خزانے سے ادا کیا جاتا ہے۔ اِن کی رہائش گاہ پر چوبیس گھنٹے سرکاری خزانے سے سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ اِس کے علاوہ بھی متعدد مراعات کا لطف اُٹھایا جا رہا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی کئی سہولیات ضابطے کے تحت انہیں ملیں گی ہی لیکن اِس کے باوجود اِنہوں نے اضافی مراعات کا بندوبست کرلیا۔ اس قوم کے دردمندوں کی باتیں سنیں اور ان کے عمل کو دیکھیں‘ پوری طرح واضح ہوجاتا ہے کہ ہمارے حالات اتنے ابتر کیوں ہوچکے ہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ تو یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایسی مثالیں ہر روز ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں کہ دنیا چاہے اِدھر کی اُدھر ہوجائے‘ ہماری مراعات اپنی جگہ برقرار رہنی چاہئیں۔
اب تازہ ترین مثال سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات کا بل پاس ہونے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اِس بل کا پیش کیا جانا ایجنڈے میں شامل ہی نہیں تھا۔ انتہائی عجلت میں یہ بل پیش کیا گیا اور سوائے جماعت اسلامی کے ایک رکن کے‘ باقی تمام اراکین نے پانچ منٹ کے اندر اندر اسے متفقہ طور پر منظورکرلیا۔ اس بل کی منظوری کے بعد اب چیئرمین سینیٹ کی رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر پچاس لاکھ روپے خرچ کیے جاسکیں گے۔ بارہ گارڈز پر مشتمل سکیورٹی عملہ وہ اپنے ساتھ رکھ سکیں گے۔ اٹھارہ لاکھ روپے تک صوابدیدی فنڈاستعمال کرسکیں گے۔ رہائش گاہ کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر دولاکھ پچاس ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ چارٹرڈ جہاز پر نہ صرف وہ خود بیرونِ ملک جاسکیں گے بلکہ اپنے ساتھ چار افراد کو بھی لے جاسکیں گے۔ بل کی منظوری کے بعد سابقہ چیئرمین سینیٹ بھی اضافی مراعات حاصل کرنے کے حق دار ہوں گے۔یہ تو جو ہوا‘ سو ہوا لیکن اِس کا ایک پہلو توجہ طلب ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی صاحب نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب سہولتیں 1975ء کے قانون میں پہلے سے ہی مل رہی تھیں‘ ان میں صرف موجودہ حالات کے مطابق کچھ ردوبدل کیا گیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس سے قومی خزانے پر کوئی اضافہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ لیکن اب جب تفصیلات سامنے آئی ہیں تب سے چہار سو خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کئی ممبران کو بل کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئیں اور یوں انہیں اندھیرے میں رکھ کر بل کی منظوری حاصل کی گئی اور یہ سب کچھ بنا ایجنڈے کے‘ صرف پانچ منٹ کے اندر ہوگیا۔
سوائے جماعت اسلامی کے کسی دوسری سیاسی جماعت نے اِس بل پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ وجہ بہت صاف ہے کہ مراعات حاصل کرنے میں سب کا اتفاق ہے اور بلاامتیاز ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آج وہ دوسروں کے مفادات کا تحفظ کریں گے تو کل کو اِن کے مفادات کا بھی تحفظ ہوگا۔ وہ جانتے ہیں کہ آج وہ دوسروں کی کارگزاریوں پر پردہ ڈالیں گے تو کل کو اِن کی کو بھی تحفط دیا جائے گا۔کیا یہ مثال کم ہے کہ ماضی قریب میں ایک دوسرے کو چور اور ڈاکو قرار دینے والے کس طرح آج باہم شیروشکر ہیں۔ کیسے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کیا جا رہا ہے۔ وہ تمام افراد‘ جو ماضی میں خاصی سخت لائن لیتے رہے‘ وہ بھی آج حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں اور تمام غیرجمہوری اقدامات کو پوری طرح سے سپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمارے قول و فعل کا یہی تضاد ہے جس نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا میں آج بے اعتبار ہو چکے ہیں۔ لاکھ دہائیاں دیتے رہیں لیکن کوئی ہماری باتوں پر یقین کرنا تو دور‘ کان دھرنے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ البتہ باتیں کرنے میں ہم یکتا ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا اور دوسری طرف معاشی بحالی کا نیا پلان دیا گیا ہے۔ ایسے بے یقینی اور غیر مستحکم حالات میں 2035ء تک کے معاشی پلان کا اعلان کیا گیا ہے۔ اللہ کرے کہ سب کچھ پلان کے مطابق ہو لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں وزیر قانون اور وزیراعظم کے مشیر برسرِ عام سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کا اعلان کر رہے ہوں وہاں ایسا طویل مدتی معاشی پلان...؟ یہاں صرف ایک ہی پلان ہمیشہ سے کامیاب ہوتا آیا ہے اورآگے بھی کامیاب دکھائی دیتا ہے‘ وہ ہے ذاتی بحالی کا پلان! جس نے ہماری اشرافیہ کو سر سے پاؤں تک نہال کررکھا ہے۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہماری دعائیں عرش تک پہنچنے کی سکت ہی کھوبیٹھی ہیں ورنہ ہماری کبھی یہ حالت نہ ہوتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں