"FBC" (space) message & send to 7575

بانسری بجاتے رہیں

تصوراتی دنیا اور کھوکھلے نعروں میں اُلجھی قوم کے لیے حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے جارہے ہیں۔ ہرحوالے سے ہم ایک بدترین دور کا سامنا کر رہے ہیں۔ بدترین معاشی حالات‘ بدترین سیاسی عدم استحکام‘ توانائی کا بدترین بحران۔ معاشرے میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ بدترین مہنگائی کے باوجود کسی بھی سطح پر صورتحال میں بہتری کیلئے سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔ نااُمید ی ہے کہ ہرطرف اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑتی چلی جارہی ہے لیکن ہمارے اربابِ اختیارلیول پلیئنگ فیلڈ کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اِسی چکر میں آئین سے کھلواڑ ہو رہا ہے اور قانون اور ووٹ کی بالادستی کو طاقوں میں سجادیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تو خیر اندرونی محاذ پر ہورہا ہے لیکن اب بیرونی محاذ پر بھی بہت سی نئی مشکلات کا آغاز ہوگیا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربتیں ہمارے لیے بیرونی محاذ پر نت نئی مشکلات کا سندیسہ لارہی ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حالیہ دنوں میں امریکہ کا دورہ کیا جہاں اُن کا شاندار استقبال کیا گیا۔ امریکی صدر کی جانب سے اُنہیں خصوصی پروٹوکول دیا گیا۔ وہاں مختلف بڑے بڑے کاروباری اداروں کے سربراہان کیساتھ ان کی ملاقاتیں رہیں۔ اِن ملاقاتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ صرف ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک نے بھارت میں کاروبار شروع کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا بلکہ کئی دیگر بڑے کاروباری ادارے بھی بھارت میں سرمایہ کاری کے خواہشمند نظرآئے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ایپل گروپ اور مرسڈیز کمپنی سمیت کئی بڑی کمپنیاں پہلے ہی بھارت میں کاروبار شروع کرچکی ہیں۔ یہاں تک بھی سب قابلِ قبول ہو سکتا ہے لیکن پریشانی کی بات ہے امریکہ اور بھارت کا مشترکہ اعلامیہ۔ اِس مشترکہ اعلامیے میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی اور پراکسی وار کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اِس بات کو یقینی بنائے کہ اُس کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آگے چل کر ہمارے لیے کس طرح کے حالات پیدا ہونے والے ہیں۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا شاندار استقبال کرکے بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ ماضی میں امریکی حکومت خود 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی شدید مذمت کرچکی ہے اور یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ نریندرمودی‘ جو اس وقت ریاستِ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے‘ نے یہ فسادات جان بوجھ کر بھڑکائے تاکہ وہ ہندوؤں کا اکثریتی ووٹ حاصل کر سکیں۔امریکہ نے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کو یکسر فراموش کردیا بلکہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو بھی فراموش کردیا گیا۔ دونوں ممالک نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر ایک بار پھر الزامات عائد کیے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ امریکہ اور بھارت نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لیا ہے‘ ایک ایسے ملک پرالزام تراشی کی گئی ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ قربانیا ں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور قربانیاں دینے کا سلسلہ بھی تھما نہیں ہے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بجا طور پر انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعاون کے باوجود اِس طرح کی باتیں کرنے کو بلاجواز قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ کی طرف سے قرار دیا گیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں‘ ہمارے ملک کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں نے اپنی جانیں دے کر مثال قائم کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ بین الاقوامی برادری بارہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرچکی ہے۔ دفتر خارجہ نے بجا طور پر یہ سوال بھی اُٹھایا کہ مشترکہ بیان میں کیے جانے والے دعووں سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عالمی عزم کیسے مضبوط ہوگا۔ اِس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ امریکہ‘ بھارت مشترکہ اعلامیے میں خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اہم ذرائع کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ درست لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ محض بیانات سے ہمارے حالات تبدیل ہوجائیں گے؟کیا امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی راہیں مسدود ہو سکیں گی یا اِن دونوں ملکوں کی قربتوں سے ہمیں جو نقصان پہنچ سکتا ہے‘ اُس سے بچاؤ ممکن ہوسکے گا؟کیا ہمارے وزراکی طرف سے حسبِ روایت امریکہ‘ بھارت مشترکہ اعلامیے کی مذمت کردینا کافی ہوگا؟موجودہ صورتحال پر تیرہ ماہ کے دوران 18 غیر ملکی دورے کرنے والے وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ امریکہ‘ بھارت بڑھتے ہوئے تعلقات سے ہم ہرگز غیرمحفوظ نہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا ورثہ ہمیں امریکہ سے ملا ہے۔ اُن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اعلامیہ ایک ایسے شخص کے دورۂ امریکہ کے موقع پر سامنے آیا‘ ماضی میں جس کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔ جس روز یہ بیانات اخبارات میں چھپے‘ اسی روز اِن بیانات کے بالکل ساتھ ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں درآمدات پر تمام پابندیاں ختم‘ حکومت بجٹ میں ردوبدل کرنے کے لیے بھی تیار۔ نیز یہ کہ وزیر خزانہ نے پاکستان میں امریکہ کے سفیر سے آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدے کے لیے تعاون کی درخواست کی۔ اس کے بعد مزید کسی تبصرے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ ایک جانب امریکی سفیر سے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرانے میں تعاون کے لیے درخواست کی جا رہی ہے اور دوسری جانب مودی‘ بائیڈن ملاقات کے اعلامیے پر امریکہ پر تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے آئی ایم ایف معاہدہ تعطل کا شکار ہے‘ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک طرف ایل سیز کھولنے اور درآمدات پر پابندیاں ہٹانے کا اعلان کیا جا رہا ہے‘ دوسری جانب ملکی خزانے میں اتنے بھی پیسے نہیں کہ کراچی پورٹ پہ اس وقت جتنے کنٹینرز کھڑے ہیں‘ انہیں ہی کلیئر کیا جا سکے۔ کراچی پورٹ کی لیز کے حوالے سے جو داستانیں سامنے آ رہی ہیں وہ اپنی جگہ تشویش میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ہمارے معاشی حالات کے سبب ہی حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں کہ اب ہمارے بیانات تو دور‘ ہماری قربانیوں کو بھی یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے مگر ہمیں ہرگز اِس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ اب ہمیں شاید اِس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ افغانستان جیسا ملک‘ جس کے لیے ہم نے اپنے ملک کو برباد کر لیا‘ وہ بھی اب ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ ہمیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ پوری دنیا میں ہمارے سیاسی معاملات تماشا بنے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک تو کجا‘ ہمارے دوست ممالک بھی بار بار یہی تلقین کر رہے ہیں کہ اپنے سیاسی معاملات کو بہتر بنائیں لیکن ہمارا تو بس ایک ہی مقصد ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں لیول پلیئنگ فیلڈ درکا ر ہے اوریہ مقصد حاصل کرکے ہی دم لیا جائے گا۔ اِس کیلئے چاہے کتنے ہی مزید افراد کو جیلوں میں ڈالنا پڑے‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا پڑے‘ تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ وزیر داخلہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے کوئی بنیادی حقوق نہیں ہونے چاہئیں۔ اس قسم کے بیانات سے دنیا بھر میں کیا پیغام جا رہا ہے‘ ہمارے اربابِ اختیار کو اس کی قطعاً کوئی پروا نہیں۔ یوں بھی ہم نے اب دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے جینا سیکھ لیا ہے۔ اب کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی ہمارے بارے میں کیا سوچتا اور کیا کہتا ہے۔ہم اپنی دھن میں مگن ہیں اور اپنی دھن میں مگن چین کی بانسری بجاتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں