"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی فرق نہیں پڑتا

ہمارے اربابِ حکومت یا اہلِ حَکم کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ ہمارے ملک کے دس کروڑ افراد اس وقت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ شاید انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اگر مزید کروڑوں افراد بھی خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں۔انہیں اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آئی ایم ایف سے ہونے والا معاہدہ مہنگائی کی نئی لہر کا باعث بننا شروع ہوگیا ہے اور اس معاہدے کے نتیجے میں عام آدمی پر کم از کم سوا دوکھرب روپے کے نئے ٹیکسز عائد کیے جاچکے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ کیا جاچکا ہے۔ مزید آفٹر شاکس بھی متوقع ہیں لیکن آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے پر حکومتی جشن ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ بہت فخر کے ساتھ قوم کو بتایا جا رہا ہے کہ پی ڈی ایم حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے اس سے بڑا کوئی کارنامہ ہوہی نہیں سکتا۔ اس معاہدے پر ایسے خوشیاں منائی گئیں جیسے کوئی بہت بڑی فتح حاصل کرلی گئی ہو۔ اس معاہدے پر شادیانے بجانے والے وہی ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کے سبب گزشتہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا تھا۔ موجودہ وزیراعظم سمیت کئی وفاقی وزرا اور اُسوقت کے اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے قرار دیا جارہا تھا کہ ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی میں دے دیا گیا ہے۔ قوم کو بتایا جاتا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے ملک کو عالمی ادارے کے پاس گروی رکھ دیا ہے اور جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو غلامی کی یہ زنجیریں توڑ دیں گے اور ملک کو اس پاتال سے باہر نکالیں گے۔ اُس وقت ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ کشکول توڑ دیا جائے گا‘ آئی ایم ایف کو بائے بائے کہہ دیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ آج یہ عالم ہے کہ آٹھ ماہ تک آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑنے کے بعد جو معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی گئی ہے‘ اس کے لیے انتہائی کڑی شرائط قبول کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ اگر عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط قبول ہی کرنا تھیں تو پھر کیوں اتنے ماہ تک انتظار کیا گیا؟ملکی معیشت کو یوں بے یقینی کی شاخ پر جھولنے کے لیے کیوں چھوڑ دیا گیا؟ اتنے طویل انتظار کے بعد بھی عالمی مالیاتی ادارے کی تمام شرائط تسلیم ہی کرنی تھیں تو یہ کڑوا گھونٹ پہلے ہی بھر لیا جاتا‘ پھر شاید معاشی حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بے بس اور مجبور ہو کر تمام کی تمام شرائط ان کی طرف سے قبول کی گئی ہیں جو اس سے قبل یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اُن سے زیادہ آئی ایم ایف کو کوئی نہیں جانتا‘ کیونکہ ان کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ باور کرایا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف معاہدہ کرلے تو ٹھیک‘ ورنہ ہمیں بھی اُس کی کوئی پروا نہیں۔ آج جب اس بابت سوال کیا جاتا ہے تو سوال کرنے پر جو سلوک ہوتا ہے‘ وہ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی بیسمنٹ میں پیش آئے ایک واقعے سے سامنے آ چکا ہے۔ایک طرف ملک و قوم کے سامنے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں‘ پلان بی‘ پلان سی کا مژدہ سنایا جاتا ہے اور دوسری طرف معاہدے کے لیے امریکہ اور دوسرے ممالک سے سفارش کرائی جاتی ہے، عالمی ادارے کی منت سماجت کی جاتی ہے۔
اب تمام شرائط پر سرِ تسلیم خم کر کے جو سٹینڈ بائی معاہدہ ہوا ہے‘ اس پر خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ اس طرزِ عمل کا مظاہرہ اُن کی طرف سے کیا جارہا ہے جو سیاست نہیں‘ ملک بچانے کا نعرہ لے کر برسرِ اقتدار آئے تھے۔ ملک کو تو کیا بچانا تھا‘ پندرہ ماہ کی حکومت میں ہرشعبے کو مزید زوال آشنا کر دیا ہے۔ اب بھی حکومت اپنا طرزِ عمل تبدیل کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ اتنے ٹیکسز اور اتنی زیادہ مہنگائی کہ حقیقی معنوں میں عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ بجلی و گیس کا بل دینا اب عوام کی سکت سے باہر ہو چکا ہے۔ اخلاقی طو رپر بھی معاشرے کا بریک ڈاؤن ہوچکا ہے۔ صبح‘ شام جھوٹ کا ایسا کاروبار کیا جارہا ہے کہ جسے سن کر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ اتنا جھوٹ کہ سچ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا۔ وزرا کی فوج ظفرموج کی نوکری شاید اسی سے مشروط ہیں کہ سیاسی مخالفین کو سانس نہیں لینے دینا‘ چاہے اس کے لیے کوئی بھی حربہ استعمال کرنا پڑے۔ سیاسی مخالفین پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور اتنا خیال بھی نہیں کیا جا رہا کہ اس سے معاشرے میں کیا تاثر پیدا ہورہا ہے‘ ہم نئی نسل کو کیا درس دے رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارا حکمران طبقہ یہ تک سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ملک کا حکمران طبقہ جو کچھ کرتا ہے‘ اُس کے اثرات نچلی سطح تک آتے ہیں۔اگر حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد ہوگا تو یہ صورتحال پورے معاشرے میں نظر آئے گی۔ آج ہرطرف یہی حالات نظرآرہے ہیں لیکن ہمارے اربابِ اختیار کو کیا فرق پڑتا ہے۔ انہیں تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ کسی بھی صورت میں ان کا اقتدار برقرار رہے۔ چاہے اس کے لیے ماضی کے سبھی مخالفین کو باہم مل کر ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ماضی قریب میں برسرِاقتدار رہنے والوں نے بے شمار غلط کام کیے ہیں تو موجودہ حکومت کی ڈگر بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ہم پہلے بھی کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ملکی تاریخ کی مضبوط ترین حکومت قرار دیا جاسکتا ہے۔ بارہ‘ تیرہ جماعتیں مل کر ملک چلا رہی ہیں۔ اس حکومت کو مقتدرہ کی بھرپورحمایت حاصل ہے، اپوزیشن نام کو بھی موجود نہیں ہے لیکن اس کے باوجود دیکھا جائے توہرشعبہ زوال پذیری کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود حکومتی سطح پر مسائل حل کرنے کے لیے سرے سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ریاست کے بجائے اپنی سیاست بچانے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اخلاقی اقدار کی تو دھجیاں ہی بکھر چکی ہیں۔ برآمد ات میں کمی‘ بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ‘ بے شمار فیکٹریوں کی بندش اور اس پر مستزاد یہ کہ اظہارِ رائے پر بھی قدغن۔ یہ سب کچھ اُن کے دور میں ہورہا ہے جو ہمیں سستی گیس اور سستی بجلی دینے کے نعرے سے برسرِ اقتدار آئے تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ کپڑے بیچ کر بھی مہنگائی کم کریں گے۔ اپنے ملبوسات تو کیا بیچنے تھے‘ البتہ ملکی اثاثے گروی رکھنے کا عمل ضرور شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ پندرہ ماہ کے دوران منظور کیے گئے تمام قوانین کا مقصد صرف سیاسی مفادات کا حصول تھا۔ گزشتہ سال حکومت سنبھالتے ہی نیب قوانین میں ترامیم کی گئی تھیں۔ اب سیاسی مخالفین کو رگڑا لگانے کے لیے ایک بار پھر قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی مراعات کے لیے بھی بل منظور کرائے گئے ہیں۔ گزرے پندرہ ماہ کے دوران ایک بھی بل ایسا منظور نہیں کیا گیا جس میں مفادِ عامہ کی بات کی گئی ہو۔ اربابِ حکومت کا ایک ہی مقصد نظرآرہا ہے کہ کسی طرح سے سیاسی میدان کو صاف کیا جائے اور اپنے سیاسی مخالفین کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود مقصد پور ا ہونے میں نہیں آرہا۔
کیا اس حوالے سے کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کہ آج دنیا ہمارے حالات اور ہمارے طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کررہی ہے۔ ہمارے دوست ممالک ہمیں بار بار یہ مشورہ دے رہیں کہ اپنے ملکی حالات کو بہتر بنائیں‘ ملک میں سیاسی استحکام لائیں‘ کیونکہ معاشی استحکام بھی سیاسی استحکام ہی سے وابستہ ہے۔ ہم ہیں کہ کسی کو خاطر میں لانے کے لیے بھی تیار دکھائی نہیں دیتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے اس طرزِ عمل کے ساتھ سروائیو کرپائیں گے۔ ہم کیسے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالیں گے اور کیسے اخلاقیات کے بکھرتے ہوئے تاروپود کو سمیٹیں گے؟ ہر طبقے میں شدت کے ساتھ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ مزید کتنے عرصے تک چلے گا اور وہ وقت کب آئے گا جب حقیقی معنوں میں عوام کے ووٹ کے باعث تبدیلی آئے گی۔ بھلے یہ تاثر دینے کی کتنی ہی کوشش کریں کہ صورتحال کنٹرول میں ہے لیکن حقیقت سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی تاثر دیا جاتا تھا لیکن غلط فیصلوں کا جو نتیجہ نکلا تھا‘ وہ سب کے سامنے ہے لیکن شاید ہم ماضی سے سیکھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں