"FBC" (space) message & send to 7575

کسی خوش فہمی میں مت رہیے گا

سیاسی حکومتوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اب نگران حکومت کی طرف سے بھی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جارہاہے۔ بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے نام پر اجلاسوں پر اجلاس ہورہے ہیں۔ پہلے اِس حوالے سے صرف ایک اجلاس ہوتا تھا جس میں یہ فیصلہ کیا جاتاتھا کہ شہریوں کو بلوں کی مد میں کس حد تک ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ یہ اجلاس اب بھی ہوا لیکن اِس میں حقائق جب حکومت کے سامنے رکھے گئے تو یہ بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ ذمہ داران کو بات سمجھ آگئی تھی کہ بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے میں ان کا کچھ اختیار نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ کہہ کر وقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ اِس حوالے سے جلد دوسرا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ اُس کے بعد سے مختلف اعلانات سامنے آرہے ہیں۔ صورتحال کی ذمہ دار سابق حکومتوں کے وزرا بھی بڑھ چڑھ کر نگران حکومت کو مشورے دے رہے ہیں کہ کس طرح عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ اِسی طرح چلتا رہے گا اور عوام اپنی قسمت کو روتے رہیں گے۔ ہمارا مشور ہ یہی ہے کہ اِن اجلاسوں اور اعلانات سے زیادہ اُمیدیں وابستہ کرنے کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جس '' محنت شاقہ‘‘ سے ہمارے سابق حکمرانوں نے بجلی کے مسئلے کو اس نہج تک پہنچایا ہے‘ ابھی اِس کے اثرات کم از کم مزید چار سے پانچ سال تک بھگتنا پڑیں گے۔ 2027ء کے بعد شاید مہنگی بجلی کسی حد تک سستی ہونی شروع ہو جائے‘ سرِ دست اِس کے سستا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ نگران حکومت کے اختیار میں صرف اتنا ہی ہے کہ وہ عوام کو دلاسے دیتی رہے کہ فکر نہ کریں اور یہ کہ حکومت عوام کی مشکلات سے بخوبی آگا ہ ہے۔
ایسے اعلانات بھی ہو رہے ہیں کہ بجلی چوروں کے خلاف جلد انتہائی مؤثر مہم چلائی جائے گی اور یہ بھی کہ بجلی کے بل ادا نہ کرنا بجلی چوری کے مترادف ہی تصور کیا جائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے کچھ اعلانات تو سامنے آچکے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہیں گے۔ نگران حکومت کے پاس یہی ایک طریقہ ہے جس پر عمل کرتے ہوئے وہ عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کرتی رہے گی ورنہ بجلی ابھی مزید مہنگی ہونی ہے۔ فی الحال بجلی کا ایک یونٹ تقریباً 52روپے میں مل رہا ہے اور آئندہ ماہ یہ 90 روپے تک پہنچنے کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سو عوام کو چاہیے کہ حقیقت پسند بنیں اور کسی خوش فہمی میں مت رہیں۔
پی ڈی ایم حکومت کی 16مہینوں کی '' شاندار‘‘ کارکردگی میں سنہری حروف میں لکھا جانے والا ایک کارنامہ مہنگی بجلی بھی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے دنوں میں پوری قوم کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے اور آج ہرکوئی بجلی کے بل ہاتھوں میں لیے بے بسی کی تصویر بنا دکھائی دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینے والوں میں سے بہت سے اس وقت لندن کی ٹھنڈی اور پُرکیف فضاؤں کا لطف اُٹھا رہے ہیں۔ باقی بھی اپنے اپنے معمولات میں مصروف ہوچکے ہیں اور عوام حکومت کے فیصلوں کو رو رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اِس مسئلے کے بہت سے ذمہ دار حکومت کے خاتمے کے بعد اب نگران حکومت کو بجلی سستی کرنے کے لیے مختلف تجاویز دے رہے ہیں۔ ایسی ڈرامے بازی شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو ملتی ہو جو ہمارے ملک میں دیکھنے میں آتی ہے۔ ملک میں اس وقت کیا ہو رہا ہے اور یہ کس ڈگر پر چل رہا ہے‘ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ سب مل کر عوام کونوچ رہے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ہر روز کوئی نیا ڈرامہ عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ قانون اور آئین کو پسِ پشت ڈالنا اب کسی کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے، ملک کو کون چلا رہا ہے۔ ایسے ملک میں اگر شہریوں کے لیے اپنا پیٹ بھرنااور بجلی کے بل ادا کرنا سب سے بڑے مسئلہ بن چکا ہے تو اِس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں۔ اگر بجلی کی قیمت ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ چکی ہے، اور اب میں کوئی شک نہیں کہ اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ یہی وہ دونوں جماعتیں ہیں جنہوں نے بجلی پیدا کرنے کے لیے نجی پاورپلانٹس لگانے کے انتہائی مہنگے معاہدے کیے۔ یہ سلسلہ 1994ء میں شروع ہوا تھا اور ملک سے بجلی کی قلت دور کرنے کے لیے نجی پاور پلانٹس سے انتہائی مہنگے منصوبے کرنے کا آغاز ہوا تھا۔ نجی پاور پلانٹس سے کیے جانے والے معاہدوں میں ایسی ایسی شقیں شامل کی گئیں کہ اُن میں نہ ملک کے مفاد کو دیکھا گیا اور نہ ہی قوم کے ریلیف کی بابت سوچا گیا۔ انہی معاہدوں کے نتیجے میں آج پورا ملک ایک شکنجے میں جکڑا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ ان معاہدوں کی سب سے ظالمانہ شق یہ ہے کہ اگر کوئی پلانٹ کسی وجہ سے بند ہوجائے اور بجلی پیدا نہ کرے تو بھی اُسے اُتنی بجلی کی قیمت ادا کی جائے گی، جتنی بجلی کی خریداری کا اُس سے معاہدہ کیا گیا ہے۔ مثلاً اگر کسی نجی پاور پلانٹ سے پانچ سو میگاواٹ بجلی خریدنے کا معاہدہ کیا گیا لیکن بجلی کی وافر پیداوار پر‘ یا سردیوں کے موسم میں بجلی کی کھپت کم ہونے پر اس پلانٹ کی بجلی کی ضرورت نہیں پڑتی‘ اور وہ پلانٹ بند ہوجاتا ہے تو بھی حکومت اُسے پانچ سو میگا واٹ بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہوگی۔
ایک طرف یہ یکطرفہ معاہدے کیے گئے، جن میں سراسر نجی پاور پلانٹس کے مفادات کا تحفظ کیا گیا اور دوسری طرف حکومت معاملات کو ٹھیک طریقے سے مینج نہ کرسکی۔ اِس کے نتیجے میں گردشی قرضے اور کپیسٹی پیمنٹ چارجز کی رقم ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ گئی۔ پہلے مختصراً گردشی قرضوں کے بارے میں جان لیجئے کہ یہ کیا ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ حکومت پاور پلانٹس سے بجلی لیتی ہے اور دوسری طرف عوام سے بجلی کے بلوں کی صورت میں بجلی کی قیمت وصول کرلیتی ہے لیکن پاور پلانٹس کو ادائیگی نہیں کی جاتی۔ اِس صورت میں رقم جمع ہوتی رہتی ہے اور حکومت کے مسائل بڑھتے جاتے ہیں۔ اب یہ رقم کھربوں تک پہنچ چکی ہے‘ ہر روز کروڑوں روپے اس رقم پر سود جمع ہو رہا ہے اور یہ صورتحال بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور آئندہ سال تک مزید خراب ہوجائے گی۔
اب ایک نظر کپیسٹی چارجز پر بھی ڈال لیں۔ یہ وہ چارجز ہیں جو بجلی نہ بننے کی صورت میں حکومت نے پاور پلانٹس کو ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ رقم آئندہ سال تک 2010ارب روپے تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ اُس پر مستزاد آئی ایم ایف کے ساتھ کیا جانے والا تازہ ترین معاہدہ‘ جس پر چودہ جماعتی حکومتی اتحاد نے خوب بغلیں بجائی تھیں‘ اِس معاہدے کی روسے حکومتیں ایک مخصوص مدت تک بجلی مہنگی کرنے کی پابند ہیں۔ سو‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال کے پیش نظر کسی خوش فہمی میں مت رہیے کہ کوئی ریلیف ملے گا یا بجلی سستی ہوسکتی ہے۔ دوسری بہت سی ناروا چیزوں کی طرح اب کم از کم 2027ء تک اِس مہنگی بجلی کے عذاب کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت بھی ڈال لینی چاہیے۔
چلتے چلتے ایک بات اور جان لیجئے‘ 2021ء میں پی ٹی آئی حکومت نے پاور پلانٹس کے مالکان کے ساتھ معاہدوں کو ریویو کیا تھا اور ان معاہدوں کی کچھ شقوں کو تبدیل کیا گیا تھا‘ جن میں سے ایک شق یہ بھی تھی کہ آئندہ پیمنٹ ڈالر کے بجائے موجودہ ڈالر ریٹ یعنی 148 روپے کے حساب سے ہوا کرے گی۔ یعنی پیمنٹس میں ڈالر کا ریٹ 148روپے پر فکس کردیا تھا کہ اگر ڈالر کا ریٹ بڑھ بھی جائے تب بھی حکومت 148 روپے فی ڈالر کے حساب ہی سے ادائیگی کرے گی۔ آج انٹربینک میں ڈالر 304 روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اوپن مارکیٹ کا تو کوئی حال ہی نہیں۔ وہاں سوا تین روپے میں بھی ڈالر نہیں مل رہا۔ اندازہ کیجئے کہ اگر ڈالر کا ریٹ فکس نہ کیا گیا ہوتا تو آج کیا قیامت برپا ہوتی۔معاہدے کرنے والے اپنی کک بیکس اور کمیشن سمیٹ کے جا چکے ہیں لیکن پوری قوم آج رو رہی ہے۔ اب یہی لوگ جلد ہی کوئی نیا پلان لے کر ہمارے سامنے آئیں گے جس کی ابتدا حکومت کو بجلی سستی کرنے اور اِس بابت مشورے دینے سے ہوچکی ہے‘ کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ قوم کمزور یادداشت کی مالک ہے۔ دوبارہ نئے خواب دکھائے جائیں گے اور عوام ان خوابوں کا شکار ہو کر پھر سے ان کے جھانسے میں آ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں