"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی صورت نظر نہیں آتی

بساط سے باہر بجلی بلوں پر احتجاج کے سلسلے نے طول پکڑا تو حکومت کی توجہ بجلی چوری پر مبذول ہوئی۔ اب روزانہ کی بنیاد پر پکڑے جانے والے بجلی چوروں کے کوائف شیئر کیے جارہے ہیں۔ ہر روز خبر آتی ہے کہ آج اتنے بجلی چوروں کو گرفتار کرلیا گیا، اتنے غیر قانونی کنکشن کاٹ دیے گئے، وغیرہ وغیرہ۔ بہت اچھی بات ہے اور یقینا پوری قوم اِس مہم کے حق میں ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابھی تک بجلی چوری کرانے والے کتنے متعلقہ اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے؟ کتنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس طرح علاقے کے تھانے کی منظوری کے بغیر اُس علاقے میں کوئی غیرقانونی دھندہ نہیں ہو سکتا، بالکل اِسی طرح جب تک متعلقہ ایس ڈی او یا دیگر اہلکار نہ چاہیں‘ علاقے میں بجلی چوری نہیں ہوسکتی۔ اب تک جتنے بھی بجلی چور پکڑے گئے ہیں یا پکڑے جا رہے ہیں‘اِن کی بابت متعلقہ اہلکار خوب اچھی طرح جانتے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بجلی چوری ہو رہی ہو اور متعلقہ اہلکاروں کو اِس بابت کچھ علم نہ ہو۔ بجلی چوری کے خلاف اِس مہم کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام نے مہنگی بجلی کو قسمت کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کرلیا ہے۔ اُنہیں یقین سا ہوگیا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لیں‘ اُن کے مسائل حل ہونے والے نہیں۔ مہنگی بجلی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہوا لیکن اِس مد میں ریلیف دینے کے بجائے رواں ماہ دو مرتبہ بجلی کی قیمت میں مزیدا ضافہ کر دیا گیا۔ تازہ ترین اضافہ 23ستمبر کو کیا گیا جب بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 3روپے 28 پیسے کا اضافہ کیا گیا۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ کچھ عرصہ پہلے نگران حکومت نے بجلی کی مد میں ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا لیکن ریلیف تو کیا ملنا تھا‘ اُلٹا بجلی مزید مہنگی کردی گئی۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے بلکہ بجلی کی قیمت میں مزید اضافے کے قوی امکانات بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلسل کے ساتھ سنایا جا رہا ہے کہ جب تک بجلی چوری کو نہیں روکا جاتا‘ تب تک اِ س کے نرخوں میں کمی ناممکن ہے۔ آج یہ بتایا جا رہا ہے کہ سالانہ تقریباً 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجلی چوری اب شروع ہوئی ہے؟ بجلی چوری تو ہمیشہ سے ہی ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، یہ تو حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی ہے، اس کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ جب کبھی مہنگی بجلی پر شور مچتا ہے تو ایسے ہی اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں قوم کو اُلجھا دیا جاتا ہے۔
سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں‘ جہاں ہرروز ایک نیا مسئلہ سر اُٹھائے ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے‘ وہاں ایسی مہم کتنی دیر تک چلائی جاسکتی ہے؟ بجلی چوری کے خلاف مہم مستقل بنیادوں پر جاری رہنی چاہیے کیونکہ ایک‘ دوماہ کی مہم سے اگر مستقل طور پر مثبت نتائج کی امید وابستہ کی گئی ہے تو اِسے خام خیالی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بجلی چور تو موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ جیسے ہی مہم کمزور پڑتی ہے، وہ دوبارہ بجلی چوری شروع کر دیتے ہیں، اس لیے ایسا میکانزم بنانا چاہیے جس کے تحت بجلی چوری کا مستقل تدارک ہو سکے اور محض بجلی چور کو پکڑنا مقصود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس دھندے کی بیخ کنی کے لیے متعلقہ اہلکاروں کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنا ہو گا، اس کے بغیر بجلی چوری کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔
اس وقت مہنگی بجلی کے خلاف احتجاج میں کچھ ٹھہرائو آ گیا ہے۔ یوں بھی ہم نے جس طرح سے خود کو آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے اُس کے بعد بجلی کے نرخوں میں کمی جیسے معاملات ہمارے بس ہی میں نہیں رہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے ہمیں یہ تسلی دی گئی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کا فارمولا آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، وہاں سے گرین سگنل ملنے کی دیر ہے کہ نرخوںمیں کمی کردی جائے گی مگر پھر یہ بات بھی آئی گئی ہوگئی۔ دراصل آئی ایم ایف نے اس حوالے سے کسی بھی پلان کو رد کر دیا تھا۔ یہ بات پہلے ہی واضح تھی کہ آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی گرین سگنل نہیں ملے گا۔ اُس وقت بھی واضح تھا کہ نگران حکومت عوام کو طفل تسلیاں دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام حکومتی تسلیوں پر چپ ہو کر بیٹھ گئے، اِس اُمید پر کہ شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔ ذہنی طور پر تیار رہیے کہ2027ء سے پہلے بجلی کے بلوں میں ریلیف ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ جو بجلی چوری کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے، اس وقت تک یہ بھی بھرپور ثمر بار نہیں ہو سکتی جب تک متعلقہ اہلکاروں کو اپنے کیے کی سزا نہیں ملتی۔ اکثر علاقوں سے اس قسم کی اطلاعات موصول بھی ہو رہی ہیں کہ اِس مہم کے بعد سے بجلی چوری کے ''ریٹس‘‘ بڑھ گئے ہیں۔ پہلے اگر کسی کا گھریلو بجلی کا کنکشن کاٹا جاتا تھا تو اُسے بحال کرنے پر لگ بھگ پانچ ہزار روپے چارج کیے جاتے تھے۔ اب یہ نرخ بڑھ دس ہزار روپے تک پہنچ گئے ہیں، ساتھ میں منتیں الگ، ورنہ ایف آئی آر کی دھمکی تو ہے ہی۔ یہ انتہائی کارگر حربہ ہے جسے سننے کے بعد بجلی چور اپنی جیب ڈھیلی کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتا۔
اِسی طرح جب چینی مافیا نے چار ماہ کے قلیل وقت میں کم و بیش 56 ارب روپے کما لیے تو پھر حکومت کو خیال آیا کہ اِن کے خلاف بھی مہم شروع کرنی چاہیے۔ مہم شروع ہوئی اور اِس کے حوالے سے بھی کوائف روزانہ کی بنیاد پر شیئر کیے جاتے رہے۔ البتہ اِس مہم کے کافی اچھے نتائج سامنے آئے ہیں اور چینی کے نرخوں میں قدرے کمی ہو چکی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہ صورتحال تقریباً ہرسال ہی پیدا ہوتی ہے۔ ہرسال کم از کم ایک سے دومواقع پر چینی کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، یا کر دی جاتی ہے۔ جب چینی مافیا اربوں روپے کما لیتا ہے، تب ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خلاف مہم شروع کردی جاتی ہے۔ یہ صورت حال اِس بات کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ جب حکمران طبقہ اپنے کاروباری مفادات کو ترجیح دینے لگے توپھر ایسی صورتحال کا پیدا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ آج ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو ریلیف دینے کی باتیں کررہے ہیں۔ حالانکہ اِن میں سے اکثر وہ ہیں جو خود شوگرملوں کے مالکان ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوکہ اگر وہ اقتدارمیں آکر ریلیف دینے سے پہلے ہی چینی کی مد میں کچھ ریلیف دے دیں۔ یہ تو اُن کے بس کی بات ہے لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ معلوم نہیں یہ سب کچھ کرکے ہم خود کو دھوکا دے رہے ہیں یا دوسروں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ اب تو یہی چلن ہے معاشرے کا جو مضبوطی سے جڑیں پکڑچکا ہے۔
کچھ دیگر مہمات بھی جاری ہیں اور ہم سب دعاگو ہیں کہ کوئی اچھا نتیجہ نکل آئے، جس کی اُمید کم ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب نے مل کر ملکی حالات کو اِس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ کم از کم مستقبل قریب تک حالات میں بہتری کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ انتہائی مخدوش صورتحال کے باوجود ہم اپنی روش کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ وہی بے معنی باتیں اور لاحاصل روایتی اقدامات، جن کا ماضی میں کوئی نتیجہ نکلا نہ اب کوئی نتیجہ نکلنے کی امید ہے۔ اِس بات سے یہ تاثر ہرگز نہیں لیا جانا چاہیے کہ کوئی بھی ایسے اقدامات کے خلاف ہو سکتا ہے جس کے کسی بھی حوالے سے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ بیشتر صورتوں میں نیت مسئلہ حل کرنا نہیں بلکہ معاملے کو دبانا اور اس پر مٹی ڈالنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کوئی بھی‘ کسی پر بھی یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اربابِ اختیار تو اپنا اعتماد پوری طرح سے کھو چکے ہیں۔ اُن کے بیانات پر کوئی کان تک نہیں دھرتا، یقین کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر کسی کو اپنے مفادات کی فکر ہے کہ بہرصورت وہ محفوظ رہنے چاہئیں۔ یہ اِسی مفاد پرستی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً سوا کروڑ مزید افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اِن حالا ت میں اچھائی اور بہتری کی امیدوں کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے۔ کچھ بھی تو بہتر ہوتا نظر نہیں آ رہا، ایسے میں عام آدمی بیچارہ کیا کرے؟ کہاں جا کر اپنا سر پھوڑے کہ آج وہ اپنے لیے کوئی جائے پناہ بھی نہیں پاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں