"FBC" (space) message & send to 7575

کرکٹ ٹیم کو الزام مت دیں

کھیل کے میدان میں ہار جیت معمول کی بات اور گیم کا حصہ ہے۔ جو ٹیم بھی اچھا کھیلتی ہے‘ فتح اُس کا نصیب بنتی ہے۔ اِس بات کو افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے پوری طرح سے ثابت کیا ہے۔ بھارت کے شہر چنائے میں کھیلے جانے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ میں افغانستان نے پاکستانی ٹیم کو ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کر دیا۔ بلاشبہ افغانستان نے باؤلنگ‘ فیلڈنگ اور بیٹنگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کسی ایک بھی موقع پر اس نے میچ کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ کسی ایک جگہ پر بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میچ افغانستان کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔ انتہائی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان ٹیم نے پاکستان کے خلاف اپنا پہلا ون ڈے میچ جیت کر تاریخ رقم کر دی۔ اِس پر وہ بلاشبہ داد کی مستحق ہے لیکن میچ ختم ہونے کے بعد جو کچھ ہوا وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اِس پر آگے چل بات کریں گے لیکن فی الحال اِس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جس طرح ہمارے ملک کے ہر شعبے میں تنزلی کا عمل تیز رفتاری سے جاری ہے‘ وہ صورتِ حال اب کھیلوں کے حوالے سے بھی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ٹیم ہمیشہ ہارنے کے لیے ہی میدان میں اُترتی رہے۔ ایک نہ ایک روز اُسے جیتنا بھی ہوتا ہے اور افغان ٹیم کی جیت کے آثار کافی عرصے سے دکھائی دے رہے تھے۔ اِس سے پہلے کھیلے گئے دو میچوں کے دوران بھی افغان کرکٹ ٹیم نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن بدقسمتی سے وہ میچ جیتتی جیتتی ہار گئی۔ اِس مرتبہ پلیئرز نے اپنی خامیوں پر قابو پایا اور جیت نے اُن کے قدم چوم لیے۔ شاید ہمیں زیادہ دکھ اِس بات کا ہے کہ صرف کرکٹ کا کھیل ہی بچا تھا جہاں سے خوشی کا کوئی جھونکا آ جاتا تھا، مگر اب افغانستان سے ہار نے کے بعد شاید یہ شعبہ بھی تنزلی کا شکار ہونا شروع ہو جائے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہاکی، سکواش، بیڈمنٹن، والی بال اور فٹ بال کے کھیلوں کا کوئی نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں ہائی سکول کی سطح پر بھی فٹ بال کی بہترین ٹیمیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ والی بال اور بیڈمنٹن کے میچز بھی باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے لیکن پھر ایک ایک کرکے یہ سب کھیل ہمارے تجربات کی بھینٹ چڑھتے گئے۔ کھیلوں کی فیڈریشنز میں پروفیشنلز کے بجائے اپنے پیاروں کو کھپانے کی روش نے سب کچھ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ زیادہ تر فیڈریشنز کی سربراہی ایسے افراد کو سونپی گئی جو خود کو ہر قسم کے احتساب اور تنقید سے بالاتر سمجھتے تھے۔ وہ اپنی من مانیاں کرتے رہے اور تمام کھیل ایک ایک کرکے دم توڑتے گئے۔ اِس کی ایک مثال ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم میدان میں اُترتی تھی تو سب کو اُس کی فتح کا یقین ہوتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ ہاکی ٹیم کو ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھی کوالیفائنگ رائونڈ کھیلنا پڑتا ہے اور یہ تماشا بھی چشم عالم دیکھ چکی ہے کہ پاکستانی ٹیم ہاکی ورلڈکپ کے لیے ہی کوالیفائی نہیں کر سکی۔ اب یہ ٹیم ٹاپ ٹیموں میں دوردور تک کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی۔ گویا سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
اب یہی صورتحال کرکٹ کے حوالے سے بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے؛ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ کرکٹ ٹیم کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح مختلف تجربات کرتے ہوئے ہم نے پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، اِسی طرح پاکستان کرکٹ بورڈ بھی نت نئے تجربات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے‘ وہ اپنے کسی پیارے کو کرکٹ بورڈ کا سربراہ مقرر کر دیتی ہے۔ نئے آنے والے صاحب پرانی پالیسیوں کو ختم کر کے نئے سرے سے اپنے تجربات شروع کر دیتے ہیں۔ اب بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اِن حالات کا اثر کھلاڑیوں پر نہ پڑے۔ جب تک اِن تجربات کا سلسلہ بند نہیں کیا جائے گا، تب تک حالات تنزلی کی طرف گامزن رہیں گے۔ یوں بھی جب ٹیم کا اعلان ہوا تھا تو اُس وقت ہی اِس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کی زد میں سب سے زیادہ چیف سلیکٹر انضمام الحق آئے۔ اُن پر اقربا پروری کا الزام لگایا گیا‘ خصوصاً اُن کے عزیز امام الحق کی ٹیم میں شمولیت کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ دیگر کھلاڑیوں کی سلیکشن کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ ممکن ہے کہ سلیکشن میں کچھ اونچ نیچ ہوئی ہو لیکن میدان میں اُترنے سے پہلے ہی تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ ہمیشہ ٹیموں کے مورال پر برا اثر ڈالتا ہے۔ یوں بھی اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محض اس وجہ سے ٹیم پر تنقید شروع کر دی جاتی ہے کہ ناقدین کے پسندیدہ کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ نہیں مل پاتی۔ ماضی کے ایک شاندار بیٹسمین اور کرکٹ لیجنڈ نے ایک مرتبہ ملک میں کرکٹ کے شعبے میں ہونے والی تنزلی کے حوالے سے شدید تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ اب وہ اِس کھیل کی بہتری کے لیے خود میدان میں اُتریں گے۔ اُن کا یہ بیان سامنے آنے کی دیر تھی کہ اُن کے ایک عزیز کو کوئٹہ کی کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کر دیا گیا اور یوں تنقید کا سلسلہ بند ہو گیا۔ ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ تنقید سے ٹیم ہمیشہ پریشر میں آتی ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ جب وہ ایک ایسے ملک میں کھیلنے کے لیے جا رہی ہو جہاں سب کے سب اِس ٹیم کی شکست کے خواہاں اور منتظر ہوں۔ ٹیم کی اچھی‘ بری کارکردگی اپنی جگہ لیکن سچ یہ ہے کہ ہم نے اِس ٹیم کے میدان میں اُترنے سے پہلے ہی اِس کا مورال ڈاؤن کر دیا تھا۔ بھارت اور افغانستان کے خلاف میچوں میں یہ دباؤ واضح طور پر دکھائی دے رہا تھا۔
خیر‘ جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اور اب قومی کرکٹ ٹیم اگر‘ مگر کے چکروں میں اُلجھ گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی کرشمہ ہو جائے اور یہ دوبارہ ٹورنامنٹ میں اِن ہو جائے لیکن بظاہر حالات کافی خراب دکھائی دے رہے ہیں۔ خرابی اِس صورت میں بھی پیدا ہوئی کہ جیت کے بعد جس طرح سے افغان ٹیم نے بھارتیوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن منایا‘ اُس سے یہ بھرم ایک مرتبہ پھر ٹوٹ گیا کہ پاکستانی اور افغان بھائی بھائی ہیں۔ گزشتہ چالیس سال سے ہمیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ ہم نے افغانوں کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں، اُنہیں سوویت یونین کے ہاتھوں سے بچایا، افغانستان سے آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کو انسانی ہمدردی کی بنا پر اپنے ملک میں پناہ دی مگر حیرت کی بات ہے کہ اتنی زیادہ قربانیوں کے باوجود افغانوں کا ہمارے ساتھ رویہ نفرت کی غمازی کرتا ہے۔ جس افغان کھلاڑی کو پلیئر آف دی میچ کا ایوارڈ ملا‘ اُس نے یہ ایوارڈ اُن افغان پناہ گزینوں کے نام کیا جنہیں پاکستان سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ میچ صرف ایک سپورٹس ایونٹ نہیں تھا۔
ملک کے حالات اس وقت جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ وہ ظاہر و باہر ہے لیکن اِس کے باوجود ہم کچھ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی اتھل پتھل اور جوڑ توڑ کی وجہ سے پورے معاشرے میں ایک ہیجانی اور بے یقینی کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔ کل کے مجرم آج کے ہیرو بن چکے ہیں اور کل کے ہیرو آج کے مجرم۔ کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں کو کوئی نئی کہانی سنانا شروع کر دی جائے اور بتایا جائے کہ پہلے والی باتیں غلط تھیں۔ یہی کہانیاں ہیں‘ جن کے باعث آج ہم دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ حتیٰ کہ کھیل کے میدانوں سے بھی ہم تقریباً غائب ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں چین میں جو ایشین گیمز ہوئیں، اُن میں بھی پاکستانی دستے کی کارکردگی انتہائی شرمناک رہی۔ ہاکی میں بھارت نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب کوئی خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے پر تُل جائے تو پھر کوئی دوسرا اُس کے پاؤں کو نہیں بچا سکتا۔ سو اِن حالات میں اگر ہماری قومی کرکٹ ٹیم افغانستان سے ایک اہم میچ ہار گئی ہے تو اُسے ہدفِ تنقید بنانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ یہ جو مختلف قسم کے تجربات ہو رہے ہیں‘ سپورٹس کا شعبہ بھی جن کے اثرات سے باہر نہیں‘ یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ ویسے اس کی امید تو کوئی نظر نہیں آتی اور جس طرح ہاکی، والی بال، سکواش اور فٹ بال وغیرہ میں ہم شکست کو اپنا مقدر سمجھ چکے ہیں، اُسی طرح ایک روز کرکٹ کی تنزلی پر بھی رو دھو کر بیٹھ جائیں گے۔ جب ملکی سطح پر کھیل تماشوں سے فرصت ملے گی‘ تبھی کھیلوں کی بابت کچھ سوچا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں