"FBC" (space) message & send to 7575

پی ایس ایل کودیس نکالا مت دیجئے

رواں سال ماہِ ستمبر میں میڈیا کے ساتھ اپنی گفتگو میں چیئرمین پی سی بی نے اعلان کیا تھا کہ پی ایس ایل سیزن نائن کے تمام میچز ملک کے اندر ہی منعقد ہوں گے۔ اپنی اِس گفتگو کے دوران اُن کی طرف سے اِس تاثر کی پُرزور تردید کی گئی تھی کہ ملک میں امن و امان کے مسائل پی ایس ایل کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر کوئی غیر معمولی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے تو پھر پی ایس ایل کے شیڈول کو تبدیل کر دیا جائے گا لیکن اِس کے تمام میچز ملک کے اندر ہی منعقد کرائے جائیں گے۔ یہ بیان بہت خوش آئند تھا کہ اب ہم نے اتنی صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ عام انتخابات اور پی ایس ایل کو ایک ساتھ منعقد کرا سکتے ہیں۔ خوش ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ خدا خدا کرکے کرکٹ کی ملک میں واپسی ہوئی تھی‘ لہٰذا اب یہ سلسلہ آگے بھی اِسی طرح چلتا رہنا چاہیے۔
ہمارے ملک میں کرکٹ کے میدان 3 مارچ 2009ء کو ویران ہو گئے تھے۔ یہ وہ سیاہ دن تھا جب لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے قریب سری لنکن ٹیم کو دہشت گردوں نے اپنا نشانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ تب پیش آیا تھا جب غیر ملکی ٹیم ہوٹل سے قذافی سٹیڈیم ٹیسٹ میچ کھیلنے جا رہی تھی۔ اُن دنوں میرا دفتر لبرٹی گول چکر کے بالکل ساتھ ہوا کرتا تھا۔ فائرنگ کی آوازیں سنتے ہی جب آفس کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دیے۔ فائرنگ کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں اور شلوار قمیص میں ملبوس دہشت گرد بلاخوف و خطر فائرنگ میں مصروف تھے۔ یقین کیجئے کہ اُنہیں دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ اُنہیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ اِس دوران مہمان ٹیم کی بس پر ایک راکٹ بھی فائر کیا گیا لیکن خوش قسمتی سے وہ راکٹ بس کے نیچے سے گزر گیا جس کے باعث مہمان کھلاڑی کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔ اس موقع پر بس کے ڈرائیور نے کمال بہادری اور عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کی بوچھاڑ میں بس کو بھگایا اور سٹیڈیم کے اندر پہنچا دیا۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کی فائرنگ سے نو پولیس اہلکار جاں بحق ہو گئے؛ البتہ تمام کھلاڑی محفوظ رہے۔ کچھ زخمی ضرور ہوئے مگر الحمدللہ سبھی مہمان کھلاڑی اس واقعے میں محفوظ رہے۔ اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دہشت گرد جائے وقوعہ سے فرار ہو گئے۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اِس دہشت ناک واقعے نے پاکستان میں کرکٹ سمیت سپورٹس کے میدانوں کو مکمل طور پر ویران کر دیا۔
اِس سے قبل مئی 2002ء میں بھی ایک خوفناک واقعہ پیش آ چکا تھا۔ اس وقت کراچی میں اُس ہوٹل کے باہر ایک خودکش حملہ ہوا تھا جہاں نیوزی لینڈ کی ٹیم قیام پذیر تھی۔ اِس خود کش حملے میں فرانسیسی انجینئرز کی ایک ٹیم کو نشانہ بنایا گیا تھا اور قریب بارہ افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اِس افسوس ناک واقعے کے بعد جاری ٹیسٹ سیریز منسوخ کر دی گئی اور نیوزی لینڈ کی حکومت نے اپنی ٹیم کو فوری طور پر واپس بلا لیا۔ 2009ء میں لاہور میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سری لنکن ٹیم بھی فوری طور پر اپنے وطن واپس روانہ ہو گئی اور اِس واقعے نے عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بری طرح متاثر کیا اور طویل عرصے تک غیرملکی ٹیمیں پاکستان آنے سے گریزاں رہیں۔ اب صورتِ حال کچھ بہتر ہوئی ہے جس میں پی ایس ایل ٹورنامنٹس کے ملک کے اندر انعقاد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ پی ایس ایل میں حصہ لینے کے لیے غیر ملکی کھلاڑی بڑی تعداد میں پاکستان آتے رہے ہیں جس کے باعث پاکستان کا امیج بہتر ہوا۔ بیرونی دنیا تک یہ پیغام گیا کہ اب پاکستان سپورٹس ایونٹس کے لیے ایک محفوظ ملک ہے۔ اِسی لیے کچھ غیر ملکی ٹیمیں بھی کرکٹ سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آئیں جس کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ اب پی ایس ایل کے آئندہ سبھی مقابلے ملک کے اندر ہی منعقد ہوا کریں گے لیکن اب ایک نیا مسئلہ درپیش آ گیا ہے۔
ستمبر میں اگرچہ اِس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ پی ایس ایل سیزن 9 کے تمام میچز ملک کے اندر ہی ہوں گے مگر اب پی سی بی حکام کو یہ خدشات ستانے لگے ہیں کہ فروری میں انتخابات کے دوران ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ اِس لیے پی ایس ایل کے ابتدائی میچز دبئی منتقل کر دیے جائیں۔ اُنہیں خدشہ ہے کہ فروری میں چونکہ عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں لہٰذا اِس کے اثرات پی ایس ایل پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اِنہی خدشات کے پیش نظر مبینہ طور پر پی ایس ایل کے ابتدائی میچز ملک کے اندر منعقد کرانے میں ہچکچاہٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابھی تک ملکی حالات نارمل ہیں اور امن و امان کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش نہیں مگر پی سی بی حکام پہلے ہی سے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ فروری میں ملک میں امن و امان کے حوالے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اِس بات کو اگر فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے تو یہ بات قدرے غیر معمولی محسوس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر سکیورٹی خدشات محسوس کیے جا رہے ہیں تو اِس کی وجہ عام انتخابات ہی ہو سکتے ہیں۔ اِس سے یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ شاید عام انتخابات کے دوران امن و امان کے حوالے سے کوئی غیر معمولی صورت حال درپیش ہو سکتی ہے۔
اب اگر پی ایس ایل کے میچز کسی دوسرے ملک میں منتقل کیے جاتے ہیں تو لامحالہ بیرونی دنیا تک یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان شاید کرکٹ کے لیے پھر غیر محفوظ ہوگیا ہے۔ اگر پی سی بی حکام کوئی خدشہ محسوس کر رہے ہیں تو پی ایس ایل کا شیڈول تبدیل کیا جا سکتا ہے جس کا عندیہ خود پی سی بی کے چیئرمین ستمبر کے دوران دے چکے ہیں۔ ہماری درخواست یہ ہے کہ پی ایس ایل کے تمام میچز ملک کے اندر ہی منعقد کرائے جائیں۔ کیوں ہم دنیا کو خود ہی یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے لیے غیر محفوظ بن رہا ہے؟ یوں بھی ہمارا امیج پہلے کون سے اچھا ہے۔ اب تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ملک کے تشخص کو کہاں پہنچا دیا ہے کہ کوئی ہماری بات پر کان دھرنے ہی کو تیارنہیں۔ پوری دنیا میں پاکستانی پاسپورٹ کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ یہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ مانگ تانگ کر کاروبارِ زندگی چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہر وقت ہاتھ میں کشکول تھاما جائے گا تو پھر دنیا ہمیں حقارت کی نظر ہی سے دیکھے گی اور دیکھ رہی ہے۔
اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اگر ایک بار پھر پی ایس ایل کو دیس نکالا دیا گیا تو اِس کی جلد واپسی شاید ممکن نہ ہو سکے۔ اِس وقت ہمارے ہاں کھیلوں کے حوالے سے صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ اب صرف کرکٹ کا کھیل ہی بچا ہے جس کے باعث عوام کو تھوڑی بہت تفریح کے مواقع مل جاتے ہیں۔ یہ درست کہ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن بہرحال ٹیم کی صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ اِس ورلڈ کپ میں ٹیم زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی مگر آگے چل کر اِس سے اچھی کارکردگی کی توقع ضرور رکھی جا سکتی ہے۔ اِس تناظر میں یہ دعا بھی ہے کہ اِس وقت ٹیم میں اُکھاڑ پچھاڑ کا جو سلسلہ جاری ہے اُس کا اختتام ٹیم کی بہتری پر ہو۔ خدا کرے کہ ٹیم سلیکشن کے حوالے سے سفارشی کلچر کا خاتمہ ہو جائے۔ اگرچہ ٹیم میں ہونے والی نئی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت سے سوالات بھی پیدا ہو رہے ہیں اور اِس تناظر میں لالہ کے کردار سمیت کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر یہ معاملات تو حل ہو ہی جائیں گے، فی الحال تو یہ فکر لاحق ہے کہ پی ایس ایل میچز کو الیکشن کے بعد کرانے کے بجائے اس کے بیرونِ ملک انعقاد پر کیوں زور دیا جا رہا ہے۔ حکومت سے بھی یہ اپیل ہے کہ وہ اِس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ ایک بار پھر یہی تجویز ہے کہ اگر کوئی سنجیدہ مسئلہ آڑے آ رہا ہے تو پی ایس ایل کا شیڈول تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن خدارا! پی ایس ایل کے تمام میچز ملک کے اندر ہی منعقد کرانے کو یقینی بنایا جائے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ ملک میں عام انتخابات بھی خیرخیریت سے ہو جائیں تاکہ چہار سو چھائی اس بے یقینی کا خاتمہ ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں