"FBC" (space) message & send to 7575

فاصلے ناقابلِ عبور ہو رہے ہیں

عجب ہے کہ جسے دیکھو وہ عوام کو سدھارنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حکومت اور اِس کے تمام اداروں کا زوراِسی ایک بات پر ہے کہ اگر کسی طرح عوام سدھر جائیں تو ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ عوام کے لیے چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں ہیں لیکن اہلِ اقتدار کے لیے تمام قانون و ضوابط بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں کہ جہاں طاقتوروں کے لیے الگ قانون ہے اور عام آدمی کے لیے الگ قانون۔ ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف حکومت اور بیوروکریسی کے اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ پچیس‘ تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا غریب شخص بھی لگ بھگ دوسو اسّی روپے لیٹر میں پٹرول خریدنے پر مجبور ہے لیکن اسی معاشرے میں لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے سرکاری افسران کو مفت پٹرول کی سہولت میسر ہے۔ دیہاڑی دار تو دنیا کی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہے اور افسران کی بڑی تعداد کو بجلی کے مفت یونٹس فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اِس صف میں بلا تخصیص سبھی شامل ہیں۔
انصاف کے ایک سابق علمبردار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی اپنے لیے اضافی مراعات کو یقینی بنا لیا تھا۔ ایک طرف یہ صاحب ڈیم کے لیے رقم اکٹھی کرنے کے مشن پر تھے اور قوم کو تلقین کر رہے تھے کہ اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنا پیٹ کاٹ کر نئے آبی ذخائر بنانا ہوں گے۔صاحبِ موصوف کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ ریٹائرہونے کے بعد میں اِس ڈیم کے کنارے جھونپڑی بنا کر رہوں گا اور اِس کی حفاظت کروں گا۔ مگر عملاً صورتحال یہ رہی کہ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی اِنہوں نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ اِنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی مراعات ملیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ ان کو 16ویں گریڈ کے ایک اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات مہیا کی گئیں۔ اپنی تنخواہ کا لگ بھگ پچاسی فیصد وہ بطور پنشن وصول کر رہے ہیں جو لگ بھگ دس لاکھ روپے ماہانہ بنتی ہے۔پنشن کی مد میں خطیر رقم حاصل کرنے کے باوجود بجلی کے دوہزار یونٹس‘ تین سو لیٹر ماہانہ پٹرول بھی انہیں مفت ملتا ہے اور نجانے کیا کیا مراعات ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی متواتر مل رہی ہیں۔ یہ تو صرف ایک ریٹائرڈ صاحب کی مراعات کی تفصیل ہے‘ اندازہ لگا لیجئے کہ اگر ایک ایک فرد کو دیکھا جائے تو بات کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ کس میں ہمت ہے کہ جو اِن سے پوچھے کہ جناب! آپ قوم کے بڑے خیرخواہ بنتے تھے‘ قوم کی خاطرہی سہی‘ ان اضافی مراعات کو ٹھوکر مار کر ایک مثال قائم کرتے۔ چیئرمین سینیٹ کی مثال دیکھ لیں کہ کس طرح جلد بازی میں اُن کی تاحیات مراعات کا بل منظور کیا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ آخر اتنی جلد بازی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اِس پر مستزاد یہ مضحکہ خیز موقف کہ اِن مراعات سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔
بیورو کریسی بھی اِس صف میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ رواں سال پنجاب میں بیورو کریسی کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے دو ارب روپے سے زائد رقم مختص کی گئی حالانکہ صوبے کے اعلیٰ افسران کے پاس پہلے سے بہترین گاڑیاں موجود تھیں۔ گویا حکومت کو یہ بھی گوارا نہ ہوا کہ اعلیٰ افسران دو‘چار سال پرانی گاڑیاں استعمال کریں۔ میں طویل عرصے تک رپورٹنگ میں بیورو کریسی کو کور کرتا رہاہوں اور خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ اِن افسران کے کیا ٹھاٹ باٹ ہوتے ہیں۔ کس طرح یہ حفاظتی اہلکاروں اور خدمت گاروں کے جلو میں رہتے ہیں اور کیسے اِن کے ایک اشارے پر بڑے بڑے کام ہوجایا کرتے ہیں۔ اِن کی ایک اپنی ہی سلطنت ہوتی ہے جس کے یہ بلاشرکت غیرے شہنشاہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی علاقے میں کوئی بدمزاج ڈپٹی کمشنر یا ایس پی تعینات ہوجائے تو وہاں کے باسیوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہ علاقے کے عوام کی قسمت پر منحصر ہوتا ہے کہ اُن کے نصیب میں کیسا افسرا ٓتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں پر قانون اور آئین پر عمل درآمد کرنے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ بیشتر صورتوں میں افسران کی اپنی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ سائلین کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھتے ہیں۔ اگر ایسے افسران کے بارے میں ہمیں دن رات یہ بتایا جائے کہ یہ عوام کے خدمتگار ہیں‘تو کیا یہ ان کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف نہیں؟ اس پر عوام سے یہ توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ حکومتی باتوں پر من و عن یقین کریں کہ یہ افسران، یہ حکام، ہمارے سیاستدان سچ میں عوام کے خدمتگار ہیں۔ عرض محض اتنی سی ہے کہ اب وہ زمانے لد گئے جب چیزوں کو چھپانا ممکن ہو پاتا تھا۔گو کہ کسی حد تک یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے لیکن ماضی کی نسبت اب صورتحال بہت بدل چکی ہے۔ آج تو کسی پھل فروش‘ کسی ریڑھی بان کے پاس بھی کھڑے ہوجائیں تو وہ ملکی صورتِ حال کی ٹھیک ٹھیک عکاسی کرتا نظر آئے گا۔ اِس کے باوجود ہمارے حکمران اپنی ہی دنیا میں مست ہیں۔ اِس صورتحال کو خود فریبی کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
دراصل طاقت کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے اصل صورتحال کو پرکھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اِن حالات کے باعث اب خواص اور عوام کے درمیان فاصلے اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ اِنہیں عبور کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خواص تو سرکاری خزانے سے لاتعداد مراعات حاصل کریں اور عوام اِن مراعات کو یقینی بنانے کے لیے اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں۔ اگرچہ اب تک یہی ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے لیکن آخر کب تک یہ استحصالی سلسلہ جاری رہ سکتا ہے؟ کیا یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ نہیں کہ آج بیشتر صورتوں میں عوام اپنے حکمرانوں کی کسی بات پر کان تک دھرنے کو تیار نہیں۔ آج اگر سب مل کر ایک سیاسی جماعت اور اُس کے رہنما کو زیربار کرنے کے درپے ہیں تو اُس کی مقبولیت میں اُتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ سب اُس سیاسی رہنما کے پرستار ہیں‘ دراصل عوام کا یہ رد عمل حکمرانوں کے خلاف نفرت کا ایک اظہار ہے۔ حکمران جو بات کہتے ہیں کہ عوام اس کا اُلٹ کر کے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔
وہ زمانے گزر گئے جب لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہو پاتا تھا۔ اب سب جانتے ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور کس کی ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہیں۔ کیسے اِس ملک میں حکومتیں بنتی اور کیسے رخصت ہوتی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مہنگائی کے باعث عوام کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا تک مشکل ہوچکا ہے مگر ہمارے کرتا دھرتاؤں کے انداز ہیں کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ اِس پر یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ ملک وقوم کے بہترین مفاد میں کیا جارہا ہے۔ ملکی مفاد میں کام کیا جاتا تو آج ملک کی یہ حالت ہوتی کہ پوری دنیا میں ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا؟ یہ سچ ہے کہ جبر کے ذریعے وقتی طور پر آوازوں کو دبایا جاسکتا ہے لیکن ایک نہ ایک دن کمزوروں کی آوازوں نے طاقتور ہونا ہی ہوتا ہے۔ اب تو شاید پاس اتنا وقت بھی نہیں بچا کہ حالات کو بہتر ہی بنا سکیں۔ ہنگامی صورتحال میں اشرافیہ کے پاس بیرونی ممالک میں موجود اپنے محلات میں جانے کی سہولت موجود ہے لیکن ہم جیسوں کا کیا ہوگا؟اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو مہلت بھی میسر ہے‘ اس کو غنیمت سمجھیں اور عوام کے حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں کریں ورنہ آج بازاروں‘ گلی محلوں میں لوگوں کا مزاج اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی وڈیوز میں عوامی غیظ و غضب کا جو اظہار ہو رہا ہے‘ وہ انتہائی خطرناک ہے۔ حکمران طبقہ اور عوام جیسے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں۔تمام وسائل ایک مخصوص گروہ کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بات نہیں بن رہی۔ طاقت کا استعمال کرکے بھی دیکھ لیا لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ کیا یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ نہیں کہ انتخابات جیسے آئینی تقاضے کو بھی مسلسل لٹکایا جا رہا ہے۔ اب ساری اشرافیہ ایک طرف اور عوام دوسری طرف کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ سب مل کر بھی عوام کا موڈ تبدیل کرنے میں ناکام ہیں۔ وجہ شاید وہی ہے کہ اب فاصلے اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ جنہیں عبور کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوچکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں