"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ ایساہے میرے ملک کا نظام

کیا کریں‘ کہاں چلے جائیں‘ کس سے فریاد کریں‘ کس کے سامنے دہائی دیں‘ کسے اپنے دکھڑے سنائیں کہ آؤ دیکھو! میرے پیارے دیس کاکیا حال کر دیاگیا ہے۔ آؤدیکھو! آج میرے ملک کے عوام کن حالات میں اپنی زندگی کے دن کاٹنے پر مجبور ہیں۔ آؤ دیکھو!یہاں ایک دھنیاچورتو سالوں جیل میں رہنے کے بعدبمشکل رہا ہو پاتا ہے لیکن بڑے بڑے جرائم میں سزائیں پانے والوں کے سامنے پورا نظام بچھ بچھ جاتا ہے۔ صبح درخواست دائرکی جاتی ہے اوراگلے چند گھنٹوں میں اس پر فیصلہ بھی آ جاتا ہے۔ ہزاروں‘ لاکھوں افراد بشمول خواتین جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں لیکن نجانے کیوں وہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ٹھہرتے۔ انصاف کے حصول کی خاطر لوگوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں مگر کیسز کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ ان کا قصور صرف یہ ہوتاہے کہ اُن کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہوتا۔
سرکاری اداروں کا جو حال ہے‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کسی بھی جائز اور قانونی کام کے لیے کسی سرکاری ادارے میں جانا ہو تو عوام ڈرتے ہیں‘ جھجکتے ہیں اور سفارش ڈھونڈتے ہیں۔ مریض کو دل کادورہ بھی پڑ جائے تولواحقین سفارش ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی مریض کے لیے خدا کے بعد سب سے بڑا سہار ا ڈاکٹر ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر خود ہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ایم ایس آفس سے فون کرا دیں تو آپ کے مریض کا جو ضروری آپریشن ہے‘ وہ اسی ہفتے ہو جائے گا وگرنہ یا تو کئی مہینے بعد کی تاریخ دی جائے گی یا پھر پرائیوٹ آپریشن کرا لیں۔ اسی طرح پولیس کانام سن کر ہی شریف شہری حواس باختہ ہوجاتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے‘ اس محکمے سے اس کا پالا نہ پڑے۔ عوام کی حفاظت کے لیے قائم کی گئی پولیس فورس سے اتنا خوف؟ اگر کوئی شخص بدقسمتی سے پولیس کے ہتھے چڑھ جائے تو اُس کی جان پر بن آتی ہے۔ کوئی بھی حکومتی حکم یا نئی پالیسی ہو‘ بیشتر صورتوں میں کمائی کا نیا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اب جیسے حکم آیا کہ کم عمر ڈرائیوروں کوگرفتار کیا جائے گا تو پولیس کی جیسے چاندی ہو گئی۔ صرف لاہور میں بے شمار ایسے مناظر دیکھنے میں آئے اور اب تک دیکھنے میں آ رہے کہ چند اہلکار کسی جگہ ناکہ لگا لیتے ہیں اور جیسے ہی کوئی کم عمر یا بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے ڈرائیور دیکھتے ہیں تو فوری اس پر لپکتے ہیں‘ اسے مقدمہ درج کرنے اور رات حوالات میں گزارنے کے حوالے سے ڈراتے ہیں اور پھر... آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔ یہ تک شکایات ملی ہیں کہ اپنی ڈیوٹی سے فری ہونے کے بعد اہلکارکہیں کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ ''شکار‘‘ ہاتھ لگ جائے۔عمومی طور پر اس مقصد کے لیے بڑی شاہراہوں سے ہٹ کر ناکہ لگایا جاتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ سبھی اہلکار ایسا نہیں کرتے لیکن اگر چند اہلکار بھی غیرقانونی کام کرتے پکڑے جائیں تو اِس سے پورا محکمہ بدنام ہوتا ہے۔ آج کل پولیس کا امیج بہتر بنانے کے لیے سوشل میڈیا کا خوب سہارا لیا جارہا ہے۔ آئی جی صاحب خود بھی کافی متحرک دکھائی دیتے ہیں اور دن رات عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ پولیس فورس اُن کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل ہے۔ ہم ان باتوں سے مشروط طور پر اتفاق کرتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اتنے ہی عوام دوست اقدامات کیے جا رہے ہیں تو یہ محکمہ عوامی سطح پر اپنا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوپا رہا؟ وجہ سیدھی اور صاف ہے کہ جو کچھ کہا جاتا ہے‘ وہ عوام کو زمینی سطح پر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جس دن عوام کو تھانوں میں یہ سب کچھ نظر آنے لگا اس دن سے امیج خود بخود بہتر ہوتا چلا جائے گا۔
اب تو جیسے سب کے سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک ایک ہی چلن دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا۔ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اِنہی چکروں میں اہلِ وطن کی زندگی تمام ہوئی جاتی ہے۔ افسوس تب ہوتا ہے جب ہم یہ سب کچھ اُس ملک میں ہوتا ہوا دیکھتے ہیں جو اِس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں ہم پوری آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی اقدار پر عمل پیرا ہو سکیں‘ جہاں غریبوں اور محتاجوں کی مدد ریاست کی ذمہ داری ہو‘ جسے ایک فلاحی مملکت بنانا تھا۔ افسوس تو تب بھی ہوتا ہے جب ہم سیاسی مخالفت میں بھی ہر حد پار کر جاتے ہیں‘ جب دوسروں کی پرائیویٹ لائف کو پبلک کرنے لگتے ہیں۔ آئے روز لیک ہونے والی آڈیوز؍ وڈیوز ہمارے کس اخلاق کی گواہی دے رہی ہیں؟حیرت یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہم کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ دہائیوں حکومت میں رہنے کے بعد پھر اِس وعدے پر انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار رہتے ہیں کہ اِس مرتبہ ہم عوام کی قسمت سنوار دیں گے‘ ملک کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ بنا دیں گے۔ کیا کریں کہ کچھ ایسا ہی ہے میرے ملک کا نظام۔ یہاں عدالتوں سے سزا پانے کے بعد طبی بنیادوں پر ایک ملزم کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ چار ہفتے چار سالوں پر محیط ہو جاتے ہیں مگر کسی کو بلا کر طلبی نہیں کی جاتی۔ پھر اس شخصیت کی واپسی سے قبل ہی اس کی درخواست ضمانت کیلئے منظور کر لی جاتی ہے حالانکہ بائیو میٹرک کے بغیر کوئی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہو سکتی۔ چار سال کے بعد وہ شخصیت واپس آتی ہے تو پورا نظام اُسکے سامنے ڈھیر ہوجاتا ہے۔ جنہیں نہیں بلایاجاتا‘وہ بن بلائے عدالت میں پہنچ کر بیان دیتے ہیں کہ یہ شخصیت ہمیں کسی مقدمے میں مطلوب نہیں۔ اثرورسوخ ہونا چاہیے‘ اس کے بعد کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا۔ یہاں کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ کب تیرہ‘ چودہ مختلف نظریات کی حامل جماعتوں کو جوڑ کر ایک اتحاد قائم کرکے اُسے حکومت سونپ دی جائے اور پھر یہ سب مل کر قومی مفاد کے نام پر ایسا اُدھم مچائیں کہ سب کچھ برباد کرکے رکھ دیں۔ وقت پڑنے پر چپڑاسیوں، پاپڑ فروش، گھریلو ملازمین اورایسے ہی دیگرافراد کے بینک اکائونٹس سے کروڑوں‘ اربوں روپوں کی ٹرانزیکشنز کا سراغ لگایا جاتا ہے مگر پھر سب کچھ ایک طرف کرکے پورے نظام کو اُن کے سامنے دست بستہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔
یہ شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں 1985ء سے کسی نہ کسی طور اقتدار کا حصہ رہنے والے آج بھی اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہے ہیں لیکن اب صورتحال بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ اِس بدلی ہوئی صورتحال کا کچھ اندازہ تو خود اُنہیں بھی ہونے لگا ہے۔ ویسے اگر پرانے چہرے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ اپنے جانشین تو پہلے ہی تیار کر رکھے ہیں۔ یہ اعزاز بھی میرے ملک کو ہی حاصل ہے کہ جہاں جمہوریت میں بھی آمریت کا چہرہ نظر آتا ہے۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے مشرقی ہمسایہ ملک میں ایک چائے بیچنے والا اپنے ملک کا وزیراعظم بن چکا ہے جس کے بڑوں کا سیاست سے دور دور کا بھی تعلق نہیں رہا۔ یہاں عالم یہ ہے کہ سوائے ایک‘ دو جماعتوں کے سب جماعتوں کی قیادت دہائیوں سے گنتی کے چند خاندانوں کے پاس ہے۔ وہ ہٹتے ہیں تو اُن کی اولادیں اقتدار پر براجمان ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب عوام کو ہرروز ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے‘ نئی باتوں سے اپنے جال میں پھانسا جاتا ہے اور اِنہی چکروں میں اب سب کچھ تلپٹ ہو چکا ہے۔ گلی‘ محلوں اور بازاروں میں جا کر دیکھیں۔ لوگ میڈیا سے بات کرتے ہوئے زار و قطار روتے ہیں کہ اُن کا جینا محال ہو چکا ہے‘ اُنہیں اس ملک کے نظام سے اب بہتری کی بھی کوئی توقع نہیں رہی اور اب یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ چکے ہیں۔ افسوس‘ صد افسوس کہ اربابِ اختیار کو اِن روتے بلکتے عوام کی رتی برابر بھی پروا نہیں ۔ایسے میں کیا کریں‘ کس سے فریاد کریں‘ کس کے سامنے جا کر اپنا رونا روئیں کہ آؤ دیکھو! میرے ملک کا کیا حال کر دیا گیا ہے۔ سائیں اختر حسین کی ایک نظم کے کچھ مصرعے ذہن میں گونج رہے ہیں لیکن خود کو یہ الفاظ لکھنے سے قاصر پاتا ہوں کہ کہیں اِس پر بھی کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے کہ کچھ ایسا ہی ہے میرے ملک کا نظام۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں