"FBC" (space) message & send to 7575

انسدادِ کرپشن کا عالمی دن

دنیا بھر میں 9 دسمبر کو انسدادِ کرپشن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی ہرسال اس دن کو بہت جوش وخروش اور بڑی شد و مد سے منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس عالمی دن کو منانے کا فیصلہ اکتوبر 2003ء میں کیا تھا ۔ ظاہری بات ہے کہ اِس دن کو عالمگیر سطح پر منانے کا مقصد دنیا کی توجہ رشوت اور کرپشن جیسی برائی کے پھیلاؤ کی طرف مبذول کرانا ہے۔ دنیا کو یہ بتانا ہے کہ اِس طرف کچھ توجہ دیں اور کرپشن کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کریں۔ اقوام متحدہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان نے بھی بھرپورطریقے سے اِس بات کی تائید کی کہ اِس پھلتی پھولتی برائی کے خاتمے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہیے۔اُس کے بعد سے ہرسال ہمارے ہاں ماہِ دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی سیمینارز اور تقاریب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کرپشن کے خلاف لمبی لمبی تقریریں کی جاتی ہیں۔ نیب اور اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران سامعین کو رشوت لینے اور دینے کے سماجی نقصانات سے آگا ہ کرتے ہیں۔ اُنہیں تلقین کرتے ہیں کہ رشوت بہت بری چیز ہے اور شریعت میں رشوت لینے اور دینے والوں کو جہنمی قراردیا گیا ہے اِس لیے براہِ کرم رشوت لینے اور دینے سے گریز کریں۔ا ِس کے ساتھ ساتھ اُن اقدامات پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے جو انسدادِ رشوت ستانی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ اور سن کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سب نے رشوت کا خاتمہ کرنے کے لیے کمر کس لی ہے۔ سب نے اِس بات کی قسم کھالی ہے کہ اب یا توبدعنوانی کا عفریت یہاں رہے گا یا ہم ۔ خوبصورت الفاظ سے مزین شاندار تقاریر! اِن پر سامعین بھی سر دھنتے ہیں لیکن ساتھ ہی زیرِلب تبصرے بھی کرتے رہتے ہیں۔ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ رسماً کیا جا رہا ہے‘ ورنہ جس طرح سے رشوت اور بدعنوانی نے ہمارے سینے میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ اُس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اِن برائیوں کا خاتمہ اولین قومی ترجیح ہونا چاہیے مگر یہ عزم ہمیشہ ایک خواب ہی محسوس ہوتا ہے۔ اعلیٰ افسران تقاریر کرتے ہیں‘ اور سننے والے سیمینارز اٹینڈ کرنے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے ہیں اور اُنہی معمولاتِ زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں جنہیں چھوڑ کر وہ تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب رشوت ستانی کوشاید لاینحل مسئلے کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔ اِس میں کسی قدر ہم حق بجانب بھی ہیں کہ اگر ہم واقعتاً اِس برائی کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو کیا آج ہمارا ملک دنیا میں بدعنوانی کی فہرست میں 180 میں سے 140ویں نمبر پر ہوتا؟ 2020ء میں اِس فہرست میں پاکستان کا نمبر 124تھا لیکن اب ہم اِس فہرست میں مزید تنزلی کا شکار ہوکر 140ویں درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ مطلب رشوت ستانی میں تنزلی کی منازل ہم کمال مہارت سے طے کر رہے ہیں ۔ ملک میں چاہے شر حِ نمو تنزلی کا شکار ہے لیکن کرپشن میں ''شاندار‘‘ نمو ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ انسدادِ کرپشن کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں‘ یا جو دعوے کیے جاتے ہیں‘ وہ کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں۔ سرکار کے دعووں کی حقیقت رشوت ستانی سے متعلق اداروں کی کارکردگی دیکھ کر ہی سامنے آ جاتی ہے۔ سرکاری ادارے رشوت کی فہرست میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ کا شکار نظر آتے ہیں۔ عوام کی حفاظت کے لیے قائم پولیس فورس اِس میدان میں سب سے آگے ہے۔ کئی سالوں سے وہ بلاشرکتِ غیرے پہلے نمبر پر براجمان ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس میں اصلاحات کے حوالے سے اعلیٰ حکام گاہے گاہے دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔ بلاشبہ عوام کے تحفظ کے لیے اِس فورس نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ایسے تمام اہلکاروں کو عوام دل سے سلام پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب عام آدمی کا اِس ادارے سے واسطہ پڑتا ہے تو پھر عوامی خدمت اور قربانی کا جذبہ کہاں گم ہو جاتا ہے؟ اِن دنوں کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف جو مہم جاری ہے‘ اُس سے ٹریفک کے معاملات میں بہتری آئی ہے یا نہیں‘ مگر پولیس اہلکاروں کے ''بھاگ‘‘ ضرور جاگ گئے ہیں۔ بیشتر اہلکار عوام کے ''تحفظ‘‘ کے جذبے سے سرشار ہو کر اِس مہم کی ''کامیابی‘‘ کے لیے کوشاں ہیں اور دن اور رات کی پروا کیے بغیر ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں جبکہ وہ وہاں وہاں بھی ناکے لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جہاں انہیں ادارے کی طرف سے ڈیپلائی بھی نہیں کیا جاتا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پولیس کے بعد محکمہ مال، عدلیہ اور تعلیم جیسے محکموں کو بدعنوان ترین قرار دیتا ہے۔ اگر قانون اور انصاف کے ادارے ہی بدعنوانی کے اعتبار سے اتنے بدنام ہو چکے ہوں تو ملک کا نظام کتنا بوسیدہ ہو چکا ہو گا‘ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ باقی سرکاری اداروں کا حال بھی چنداں مختلف نہیں اور دعوے ایسے کیے جاتے ہیں کہ جیسے شفافیت کا ایسا نظام یہاں پایا جاتا ہے جو دنیا کے سبھی ممالک کے لیے قابلِ تقلید ہو۔اب اُن اداروں کا بھی کچھ جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو انسدادِ کرپشن کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ انسدادِ کرپشن کے عالمی دن کے حوالے سے یہی محکمے سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ اِنہی اداروں کے اعلیٰ افسران اس عالمی دن کے حوالے سے لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں لیکن عملاً کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اب ہمیں اِس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ خالی خولی باتوں کا کوئی نتیجہ نکلے گا بھی نہیں۔ اِس لیے کہ ہم اِس برائی کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ ہی نہیں ہیں۔ انسدادِ بدعنوانی کے لیے قائم کیے اداروں کو کبھی اُن کے اصل فرائض سرانجام نہیں دینے دیا گیا۔ بیشتر صورتوں میں اِن اداروں کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کی بدترین مثالیں آئے روز منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ اگر کبھی اِن اداروں کے افسران سے بات چیت ہو تو وہ ہمہ وقت دفاعی انداز اپنائے یہی وضاحتیں دیتے نظر آتے ہیں کہ اُنہیں کیونکر یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ آف دی ریکارڈ گفتگو میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ بسا اوقات سیاست دانوں کے خلاف انہیں بلاجواز کارروائیاں بھی کرنا پڑتی ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر خود اُن کے لیے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اِن دنوں کثرت سے دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب ادارے اپنے اصل فرائض کی طرف توجہ نہیں دیں گے تو پھر اپنے اہداف کیسے حاصل کر سکیں گے؟ پھر تو ان کے قیام کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ اُس کو پکڑ لو‘ اُس کے خلاف مقدمہ درج کر لو‘ جب تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا‘ اس وقت تک اہلکار بھی اِس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بلکہ نہانے سے گریز نہیں کریں گے ۔ البتہ اس چاک چکر میں ہم سب گھن چکر بن کر رہ جائیں گے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
کہنے کو ہم ایک مرتبہ پھر انسدادِ کرپشن کا عالمی دن بلکہ عشرہ منا رہے ہیں لیکن عوام کے قلیل طبقے کو بھی یقین نہیں کہ ہم کرپشن کو ختم کرنے میں واقعتاً سنجیدہ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج اوپر سے لے کر نیچے تک یہ لعنت پوری شدت کے ساتھ پھیل چکی ہے۔ یہ ایسا ناسور ہے جس کے لیے اب کوئی علاج بھی کارگر دکھائی نہیں دیتا۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گاہ بہ گاہ اعلیٰ ترین سطح کی بدعنوانیوں کے قصے سامنے آتے رہتے ہیں مگر کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ جب عام آدمی بڑے بڑوں کی بدعنوانی کی کہانیاں سنتا ہے تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ وہ بھلا کیونکر پیچھے رہے۔ سو‘ ہوتے ہوتے اب یہ عالم ہو چلا ہے کہ دوائیاں تک جعلی بن رہی ہیں‘ مختلف کیمیکلز کو ملا کر دودھ تیار کرنے کا دھندہ عام ہو چکا ہے‘ ناپ تول میں کمی روز مرہ کا معمول بن چکی ہے‘ چھوٹے چھوٹے جائز کام کرانے کے لیے بھی جیب ڈھیلی کرنا پڑتی ہے۔ گویا آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ اِس حوالے سے اگر یہ کہا جائے کہ آج اگر ہمارے ہاں کرپشن جیسی بیماری نچلی سطح تک سرایت کر چکی ہے اور یہ سراسر ٹریکل ڈاؤن افیکٹ کی بدولت ہے تو قطعاً غلط نہ ہو گا۔ جب بڑے بڑے اِدھر اُدھر سے مال اکٹھا کرنے کی فکر میں غلطاں ہوں تو پھر چھوٹوں کو کیا پڑی ہے کہ اس گنگا میں اشنان نہ کریں۔ اگر اوپر کی سطح پر قانون کا ڈنڈا چلنا شروع ہو جائے تو عوام ٹریفک سگنل توڑنے کی بھی جرأت نہ کریں۔ انہیں پتا ہو گا کہ اگر اشرافیہ کو نہیں بخشا جاتا تو ہماری کیا اوقات۔ مگر جب بڑے ہی قانون کی دھجیاں اُڑائیں تو پھر عام آدمی سے قانون کی پابندی کی توقع کیونکر رکھی جا سکتی ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں