میں

گذشتہ چند برسوں میں ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنے والوں کی بہتات ہو گئی ہے اورگماں ہوتا ہے کہ اندھا دُھند بولنے والوں کے ناتواں کندھوں پر خوابِ غفلت کی شکار قوم کو جگانے کی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ بولنے والوں کی غالب اکثریت کو ' میں‘ کا عارضہ یا زُعم ہے۔ بولنے والوں کے برعکس سُننے والے محکوم ہیں،مجبور ہیں ،مظلوم ہیں اور اُن کے پاس آپشنز بھی محدود ہیں کہ بار بار چینل بدلنے سے چہرے بدلے جاسکتے ہیں content اور رویہ نہیں! جو کوئی جتنا علمی اورتخلیقی اعتبار سے بنجر ہے ویسا ہی باآوازِ بُلند اپنے ہونے کا احساس دلانے کا جتن کرتا نظرآئے گا۔ ہر کوئی 'میں‘ کا اسیر ہے اور سمجھتا ہے کہ جو کچھ اُس نے کہہ دیا وہ قریب قریب حرفِ آخر ہے اور اُس میں کسی ترمیم یا کمی بیشی کی کوئی صورت نہیں۔ اختلافِ رائے کی صورت میں آپ کا مذہب اور محب ِ وطنی مشکوک ہوسکتے ہیں اور آپ کو کافر یا غدار قرار دیے جانے کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے۔ نفسانفسی کے اِس دور میں 'میں ‘ 'میں ‘ کا شورو غوغا ہے اور قیامت کے اِس شور میںعجز و عقل وفراست خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ کہ اور کوئی چارہ نہیں۔ 
سماجی اور معاشرتی رویوں پر تحقیق کرنے والے افراد کے لئے یہ امر پریشانی کا باعث ہے کہ دُنیا کے عمومی خلفشار، مایوسی، افراتفری ، بے سکونی اور انتشا ر کی ایک بڑی وجہ 'میں‘ ہے۔ معاشرے کے اندر تیزی سے سرایت کرتی 'میں‘ معاشرتی بگاڑ کا 
بڑا سبب بنتی جا رہی ہے۔ دُنیا بھر میں ساس بہو کے معمولی جھگڑوں سے لے کر ریاستوں کے باہمی تنازعات ' میں ‘ کی وجہ سے ہیں۔ سارے جھگڑے 'میں ‘ سے پھوٹتے ہیں اور ہر قسم کے فساد کی جڑیں 'میں ‘ کی بدولت نشوونما پاتی اور پھلتی پھولتی ہیں۔ معاشرے کی سطح پر افراد اور افراد سے تشکیل پانے والے گروہ اور قبیلے 'میں‘ کی زد میں ہیں، ملکی سطح پر 'میں ‘ کے عنصر نے اداروں کے مابین ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا کی اور بین الاقوامی سطح پر ریاستوں کے درمیان جاری کشمکش بھی کسی طور' میں‘ کی جنگ ہے۔
'میں‘ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میںخطرناک حد تک در آئی ہے۔اور اِس کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ فرد کی 'میں ‘ اداروں اور ریاستوں کی 'میں‘ میں ڈھلتی جا رہی ہے۔فرد کی سطح پر ہر شخص اپنی حیثیت منوانے کے جتن کرتا ہو ا نظر آتا ہے۔ ہرشخص معاشرے میں اپنی حیثیت منوانے کے لئے ایک حلقہ ا ثر چاہتا ہے اور یہ بھی خواہش رکھتا ہے کہ اُس کا اثرو رسوخ اِس سطح کا ہو کہ دوسرا کوئی اُس کی معاشرتی و سماجی حیثیت کو چیلنج نہ کر سکے۔ یوں سمجھئے کہ ہر کوئی اپنے تئیں خداوند بننے کی لا شعوری خواہش پالتا ہے۔ ' سب سے بڑالیڈر‘ 'سب سے پہلے کا اعزاز ‘ 
'طاقتور شخص‘ ' طاقت ورادارہ‘ یہ سب تشبیہات 'میں‘ سے پھوٹتی ہیں۔ اور یہ صورتِ حال اُس وقت گمبھیر ہو جاتی ہے جب افراد کی دُنیااُن کے دماغ کی' میں‘ سے شروع ہوکردور کہیںاُن کے دِل کی 'میں‘ کے آس پاس ختم ہوجائے ۔ 
افراد کی طرح اداروں کی بھی' میں‘ ہوتی ہے یا افراد کی وجہ سے وجود میں آجاتی ہے اور یہ اِس لئے ہوتا ہے کہ کلیدی حیثیت رکھنے والے شخص کی 'میں‘ کسی نہ کسی سطح پر ادارے کی 'میں‘ میں ڈھل جاتی ہے اور یوں ایک ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں اداروں کی 'میں‘ کی وجہ سے اداروں کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ریاستی اُمور بھی متاثر ہوئے۔ اِس طرح کے ٹکراؤ ادارے کے لئے اندرونی خلفشار اور بیرونی سازشوں کا باعث بنتے ہیں۔ بعض اوقات یہ طُرفہ تماشا بھی دکھائی دیا کہ بعض افراد ادارے سے زیادہ قد آور اور طاقتور دکھائی دینے لگے اورتاثر یہ ملنا شروع ہوا کہ ادارہ تو کسی نہ کسی ضابطے کا پابند ہے لیکن ادارے میں کلیدی حیثیت کا حامل فرد کسی ضابطے کا پابند نہیں۔اِس کشمکش میں فرد کی' میں‘ ادارے کی' میں‘ سے زیادہ موثر ہو کر اُبھرتی ہے اور نتیجہ خلفشار اور ٹکراؤ...
بین الاقوامی سطح پر ریاستیں بھی اپنی 'میں ‘ کی عینک سے اپنے اُمور دیکھتی ہیں۔ دُنیا کے بڑے ممالک کے لئے اُن کے اپنے مفادات اولین ترجیح ہوتے ہیں۔ غربت کا خاتمہ، معاشی اور سماجی انصاف اور امن جیسے بین الاقوامی مسائل بھی اُن کے لئے ترجیح ہو سکتے ہیں اگرکسی طور اُن کی 'میں‘ کو زک نہیں پہنچ رہا۔ ریاستیں فرد کی مانند دُنیا میںاپنا حلقۂ اثر رکھنا چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ کوئی دوسری ریاست اُن کی اِس حیثیت کو چیلنج بھی نہ کرے۔ جیسے امریکہ دُنیا کی واحدسُپر پاور کی حیثیت قائم رکھنا چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ دُنیا کے کسی کونے میں کوئی اور ریاست اُس کی اِس حیثیت کو چیلنج کر کے اُس کی 'میں ‘ کے مقابل نہ آن ٹھہرے ۔ چین جلد از جلد اِس ہدف کو پہنچنا چاہتا ہے جہاں اُس کی 'میں‘ کو بھی تسلیم کیا جائے۔ بھارت اور روس بھی اپنی اپنی' میں‘ کے حصول یا بحالی کے لئے کوشاں ہیں ۔ تمام ریاستیں دوسری ریاستوں سے دفاعی اور معاشی معاہدے کرتی ہیں تاکہ اپنی حیثیت کو نہ صرف محفوظ بنایا جاسکے بلکہ ضرورت پڑنے پر طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جا سکے۔اداروں کی طرح فرد کی' میں‘ ریاستی سطح پر نہ صرف مؤثر ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات تاریخی تباہی کا سبب بھی بنتی ہے۔ ایڈولف ہٹلر ، مسولینی ، صدام حسین ، قذافی اور جارج بش حالیہ تاریخ سے چند مثالیں ہیں۔ 
قارئین کرام! اداروں اور ریاستوں کی 'میں‘ سے بڑامسئلہ فرد کی 'میں‘ ہے‘ اور اِس مسئلے کا حل بیک وقت آسان بھی ہے اور پیچیدہ بھی!آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑایے ۔جہاں جہاں ' میں‘ ہوتی ہے وہاں صرف 'میں‘ ہوتی ہے وہاں کوئی اور نہیں ہوتا!وہاں تنہائی ہوتی ہے!بے سکونی اورمایوسی کے سائے ہوتے ہیں۔ اور جہاں 'میں‘ نہیں ہوتی‘ وہاں سب ہوتے ہیں ! جہاں سب ہوتے ہیں وہاں سکون، خوشی اور اُمید کے ا مکانات روشن ہوتے ہیں۔ لوگ اچھے معاشرے کی خواہش کرتے ہیں لیکن اصلاح کے عمل کو خود سے شروع نہیں کرتے۔ لوگ انسانیت کو بڑا مقصد سمجھتے ہیںاور اِس کا برملا پرچار کرتے ہیں لیکن ہاتھی جیسی بڑی انا کو عمل کی راہ میں حائل کئے رکھتے ہیں۔میری رائے میں کوئی بھی شخص معاشرے میں مثبت تبدیلی کا نمائندہ ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں کوئی بھی آدمی معاشرے میں امن وآشتی کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص انسانی عظمت کی معراج کو پہنچ سکتا ہے لیکن پہلے قدم کے طور پر اُسے اپنا پاؤں... اپنی 'میں ‘ پر رکھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں