امریکی عوام کودرپیش مسائل اورانتخابی امیدواروں کے چیلنجز

لاہور : (اسما رفیع ) امریکی صدارتی انتخابات بس چند دن کی دوری پر ہیں ، سپر پاور کہلانے والے امریکا کو خود کئی مسائل کا سامنا ہے اور یہ مسائل انتخابات کے نتائج پر بھی اثر انداز ہونیوالے ہیں ۔

صدارتی انتخابات سے پہلے ووٹرز کا دھیان مکمل طور پر کملا ہیرس اور ٹرمپ کی پالیسیوں پر ہے جو امریکی عوام کے مسائل کے حل کی وجہ بنیں گے ، یہاں ہم کچھ ایسے مسائل پرنظر ڈالتے ہیں ۔

معیشت 

دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے حامل ملک کو اس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے ، امریکہ میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے ہونیوالے پولز سے ظاہر ہوتا ہے کہ 10 میں سے سات امریکیوں کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ معیشت کا ہے ، ایک ہی وقت میں بہت سے عوامل نے امریکا کی اقتصادی کارکردگی کو متاثر کیا ، روس کا یوکرین پر حملہ ہو یا کورونا وبائی مرض کا پھیلاؤ ، امریکہ کو چالیس سال میں بدترین معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ، جہاں اشیائے ضروریہ کی قیمیتں عروج پر پہنچ گئی اور عام آدمی کیلئے جینا انتہائی مشکل ہوا ۔

گزشتہ چند ہفتوں تک اقتصادی اشارے یہ بتا رہے تھے کہ امریکی معیشت کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے، تاہم اب چیزیں زیادہ مثبت نظرآ رہی ہیں لیکن زیادہ تر امریکی اس سے متفق نہیں ہیں، 52% افراد نے گیلپ سروے میں بتایا کہ وہ آج چار سال پہلے کے مقابلے میں بدتر محسوس کر رہے ہیں۔

امریکا بھر میں افراط زر جون 2022 کے 9.1فیصد سے کافی کم ہوکر 2.4% تین سال کی کم ترین سطح پر آچکی ہے لیکن آپ اب بھی کسی امریکی سے پوچھیں کہ کیا مہنگائی اب بھی زیادہ ہے تو جواب عام طور پر "ہاں" میں ہوتا ہے۔

امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے اور جاب مارکیٹ مضبوط ہونے کے باوجود، حالیہ مہینوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک وجہ فیڈ نے گزشتہ ماہ شرح میں کمی کا انتخاب کیا۔

مئی 2023 سے اجرتیں افراط زر کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، جس نے قیمتوں میں اضافے سے پیدا ہونے والے مالیاتی بحران سے کچھ اشیائے ضروریہ کو نکالا ہے، لیکن اس طرح کے اعدادوشمار ملازمین کو متاثرہ طویل مدتی مسائل کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرڈگری نہ لینے والےافراد گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران معاشی طورپر کمزور ہو چکے ہیں کیونکہ لیبر مارکیٹ اعلیٰ تعلیم اور ٹریننگ والے پیشوں کی طرف منتقل ہو گئی ہے۔

انتخابی امیدواروں کی پالیسی بارے بات کریں تو نائب صدر کملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں آخری لمحات میں ووٹروں کو قائل کرنے کیلئے بھرپور کوششیں کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ملک میں معاشی خوشحالی کویقینی بنانا بے حدضروری ہے۔

امیگریشن

معیشت کے بعد امریکی ووٹرز امیگریشن کو ایک اور اہم مسئلہ سمجھتے ہیں ، امریکہ میں جنوبی اور وسطی ایشیا ئی تارکین وطن کی آبادی پچھلے عشرے کے دوران نئی بلندیوں پر پہنچی ہے اور اس میں مسلسل تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

امریکی محکمہ مردم شماری کے مطابق ملک میں 10 فیصد تارکین وطن نیشنلائزڈ ہیں ۔  امریکی مردم شماری کا محکمہ ان لوگوں کو غیر ملکی نژاد امریکی شہری قرار دیتا ہے جو پیدائش کے وقت امریکی شہری نہ ہوں ،جن میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے قانونی کارروائی کے بعد امریکی شہریت اور قانونی طورپر مستقل شہریت حاصل کی ہو۔

امریکہ میں 11 ملین سے زیادہ غیر دستاویزی تارکین وطن ہیں، جن میں سے بہت سے لوگ میٹ پیکنگ پلانٹس، کھیتوں، تعمیراتی مقامات اور دیگر ملازمتوں پر کام کرتے ہیں جو ملک کی بہتری کے لیے اہم ہیں،  تارکین وطن کی سب سے زیادہ تعداد کا تعلق میکسیکو سے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت،  چین سے آنیوالے تیسرے اور فلپائنی چوتھے نمبر پر ہیں ۔

انتخابات کی بات کریں تو جو مسئلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی شناخت کی وضاحت کرتا ہے وہ امیگریشن ہے ، ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ملک اپنی سرحدوں پر کنٹرول کھو چکا ہے،انہوں نے 2016 کی انتخابی مہم نے امریکہ-میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کی انتظامیہ نے کراسنگ کو روکنے کیلئے متنازعہ اقدامات نافذ کیے تھے۔

2024 میں ریپبلکنز نے بائیڈن ہیرس کی انتظامیہ پر مسلسل تنقید کی کیونکہ  سنہ 2023 کی آخر میں میکسیکو سے اتنے لوگوں نے نقل مکانی کی کہ نیا ریکارڈ قائم ہو گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو ملک میں امیگریشن دستاویزات کے بغیر رہائش پذیر تارکین وطن کو امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد میں ملک بدر کریں گے۔

دوسری جانب کملا ہیرس نے اپنی مہم میں غیر قانونی طریقوں سے امریکہ آںے والوں کے خلاف سخت مؤقف اپنا لیا ہے۔

امریکی معاشی ماہرین امیگریشن کے مسئلے کو معیشت سے بھی جوڑتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنا بڑی اقتصادی مشکلات کا سبب بن سکتا ہے اور امریکی معیشت کے لیے جمود کا باعث ہو گا،اس سے کسادبازاری اور مہنگائی بڑھے گی ۔

صحت عامہ کی سہولیات

امریکا میں انتخابی نتائج صحت کی دیکھ بھال کی پالیسی پر نمایاں طور پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، دو تہائی امریکی عوام معیشت کے بعد صحت کے مسئلے کو زیادہ اہم تصور کرتی ہے خاص طور پر کورونا وبا کے بعد صحت کا نظام شدید متاثر ہوا، تولیدی حقوق ، افورڈایبل نگہداشت کا ایکٹ اور منشیات کی روک تھام خصوصی توجہ کے حامل مسائل ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ہیلتھ انشورنس اور میڈی کیئر میں 67.5 ملین امریکیوں نے اندراج کیا ہے ، جو 65 سال سے زائد اور کم عمر شدید بیماریاں یا معذوری کے حامل افراد کے لیے ہیلتھ انشورنس اور نسخے کی ادویات کی کوریج فراہم کرتی ہے۔

امریکہ میں 71 ملین سے زیادہ لوگوں نے 2023 میں ریٹائرڈ کارکنوں اور معذور افراد کی مدد سے متعلق سوشل سکیورٹی ایڈمنسٹریشن کے زیر انتظام پروگراموں سے فوائد حاصل کیے لیکن سوشل سکیورٹی ٹرسٹ فنڈ اور معمر افراد کے لیے فیڈرل ہیلتھ انشورنس پروگرام، میڈی کیئر کے فنڈز ختم ہو رہے ہیں، اور فنڈز کے کسی نئے ذریعے یا مراعات میں کٹوتیوں کے بغیر خدشہ ہے کہ وہ 2035 اور 2036 تک بالترتیب دیوالیہ ہو جائیں گے۔

دونوں امیدواروں، نائب صدر کاملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل سکیورٹی اور میڈی کیئر کے تحفظ کا عہد کیا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ میں اصلاحات

امریکی سپریم کورٹ میں اصلاحات بھی ایک اہم مسئلہ شمار کیا جارہا ہے کیونکہ عدالت کو کئی تنازعات کا سامنا ہے ، ان میں کچھ ایسے پاس ہونیوالے قوانین بھی ہیں جن کو عوام کی جانب سے زیادہ پسند نہیں کیا گیا ، علاوہ ازیں ڈیموکریٹس کی جانب سے عدالت میں ججوں کی تعداد بڑھانے کے مطالبہ بھی شامل ہے۔

اسقاط حمل

امریکہ میں نصف صدی پرانے رو بنام ویڈ فیصلے کی منسوخی کے بعد مختلف ریاستوں میں عائد پابندی کے باوجود اسقاط حمل کے رجحان میں اضافہ ہواہے اور یہ معاملہ امریکی صدارتی انتخابات میں بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

2022 میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا ، سپریم کورٹ نے 50 سال قبل دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں اسقاط حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔

خواتین کے اسقاط حمل (ابارشن) کا آئینی حق ختم کیے جانے کے بعد امریکہ کے مختلف مقامات پر احتجاج بھی کیا گیا،سرویز کے مطابق ہر 10 میں سے ایک امریکی یہ چاہتا ہے کہ اسقاط حمل کو ہر حال میں غیرقانونی ہونا چاہیے۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاوس میں واپسی کی صورت میں اسقاط حمل پر قومی سطح پر پابندی عائد کرنے کے ارادے کا اظہار تو نہیں کیا ہے تاہم اسقاط حمل کے حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ وہ انیسویں صدی کے ایک قانون کا استعمال کرکے اسقاط حمل کے خلاف کارروائیوں کو قانونی جواز فراہم کرسکتے ہیں۔

ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر وہ صدر منتخب ہوجاتی ہیں تو قومی سطح پر اسقاط حمل کے حق کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے نئے قوانین نافذ کریں گی۔

خارجہ پالیسی

روایتی طور پر امریکی انتخابات مہنگائی، اسقاط حمل اور امیگریشن جیسے مسائل کے گرد گھومتے ہیں لیکن اس مرتبہ غزہ میں جنگ اور اسرائیل کی حمایت ان انتخابات کا ایک اہم نکتہ بن چکے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے (منصفانہ) عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے کہ خارجہ پالیسی ووٹر کی اولین ترجیح نہیں ہے، لیکن اس وقت امریکی سیاسی منظر نامے اور بیلٹ باکس کو متاثر کرنے میں خارجہ پالیسی بے حد اہم حیثیت اختیار کرگئی ہے اور آنیوالے صدر کو کئی بین الاقوامی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا یوکرین سے پیچھے ہٹنے سے انکار اور امریکہ چین تجارتی تعلقات شامل ہیں۔

انتخابی امیدواروں کی بات کی جائے تو کملا ہیریس نے اب غزہ میں جنگ بندی اور دو ریاستی حل پر زیادہ واضح موقف اپنایا ہے جبکہ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ خود کو دنیا میں کسی بھی جگہ کے تنازعات سے دور رہے۔

یوکرین میں جنگ نے کانگریس کے ری پبلکنز کو تقسیم کر دیا ہے ، اگر ٹرمپ وائٹ ہاؤس واپس آتے ہیں، تو یوکرین اور اس کے اتحادی امریکہ کی حمایت میں کمی کے بارے میں فکر مند ہوں گے۔

ٹرمپ نے خود کو اسرائیل کا کٹر حامی قرار دیا ہے لیکن اس بارے میں بہت کم بیانات دیے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ کیسے ختم کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں