کیا بلوچستان کا کھیل آخری تھا ؟

کیا بلوچستان کا کھیل آخری تھا ؟

بلوچستان میں آنیوالا سیاسی بحران آخری نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ایسا ہونے والا ہے ۔

(کنور دلشاد ) چند دن قبل لاہور کی ایک اہم شخصیت جو صوبائی اسمبلی کے رکن بھی ہیں،نے مجھ سے دریافت کیا کہ اگر کسی جماعت کے 70 سے 80 ارکان فارورڈ بلاک بنا لیتے ہیں تو کیا ان پر آئین کے آرٹیکل 63کی شقF 1کا اطلاق ہو گایا نہیں ،اسی طرح کئی اوراہم شخصیات کی جانب سے بھی اس بات میں دلچسپی لینا ایک نئے سیاسی بحران کا پتہ دیتا ہے ۔2010میں جب پیپلز پارٹی پنجاب حکومت سے الگ ہو ئی تو شہبازشریف کو حکومت کرنے کے لئے 45 ارکان کی ضرورت تھی ،اس کمی کو مسلم لیگ ق کے عطامانیکا نے پارٹی کے اندر یونی فکیشن بلاک بنا کر پورا کیا ۔یوں شہباز شریف نے 4سال عطا مانیکا کے فارورڈ بلاک کے سہارے حکومت کی جس پر فلور کراسنگ کی بات سامنے نہیں آئی ۔اسی طرح بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے 21ارکان تھے جن میں سے 19 نے عبدالقدوس بزنجو پر اعتماد کا اظہار کر دیا ان کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں ہوا ۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)سرداررضا نے عائشہ گلا لئی کے بارے میں جو فیصلہ دیا ہے ،اس میں بھی یہی کہا گیا کہ اس پر آئین کے آرٹیکل 63 کی شق 1Fکا اطلاق نہیں ہوتا ،جو ممبر اسمبلی اس طرح اختلاف رائے کرے تو اس کے خلاف ایکشن نہیں ہوتا۔یہ بہت بڑا فیصلہ ہے ۔بلوچستان کے سیاسی بحران کے دوران حکومت نے اپنے حامی اخبارات میں باقاعدہ طور پر یہ چھپوایا کہ ان کے خلاف انحراف کی شق لاگو ہو گی ، تاہم میری رائے یہ تھی کہ ان پر یہ شق لاگو نہیں ہو گی۔اسی طرح اگر پنجاب یا قومی اسمبلی میں بھی ارکان کا بڑا گروپ ایسا کرتاہے تو ان پر بھی فلور کراسنگ کااطلاق نہیں ہو گا ۔ اس کے کچھ اشارے مل رہے ہیں ، کیونکہ چو دھری نثار ناراض ہیں وہ انتہائی سینئر رہنما ،کئی بار وزیر رہے ہیں، 1985 سے اب تک قومی اسمبلی کے ممبر ہیں،ان پر پرویز رشید کی تنقید سے کچھ اچھا تاثر نہیں ابھرا ۔چوہدری نثارکے لیول کا کوئی سینئراگر ایساکرتا تو وہ اور بات تھی ،قومی اسمبلی کے بعض اراکین نے اس کو اچھا نہیں سمجھااور اس پر اعتراض کیا ہے اور لگتا ایسے ہے کہ پرویز رشید کی وجہ سے قومی اسمبلی میں بھی ردعمل آنے والا ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں