اے حمید: خوشبوئوں کے اسیر

تحریر : محمد عرفان احسن پاشا


اے حمیدبرصغیر پاک و ہند کے وہ نامور ناول نگار، ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں جنھوں نے اردو کے ادبی خزانے میں اضافہ کیا۔گزشتہ روزان کی13 ویں برسی تھی اور علم و ادب کی متعدد محفلوں میں انہیں یاد کیا گیا۔

 وہ 22دسمبر 1924 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ بنیادی طور پر کال شہر کے رہنے والے تھے جس کا تمدن علم و ثقافت کی دولت سے مالا مال تھا۔1857 سے پہلے ان کے آباواجداد کشمیر سے ہجرت کر کے امرتسر آباد ہو گئے تھے۔ اے حمید کے والد خلیفہ عبد العزیز نے اپنے والد اور دادا کے کاروبار کو اپنی روزی کا زریعہ بنایا۔ اس کے علاوہ انھیں پہلوانی کا بھی بہت شوق تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار اس وقت کے مشہور پہلوانوں میں ہوتا تھا۔ وہ امرتسر کے اکھاڑے میںنہ تھا۔ وہ اپنی پہلوانی کاشو ق پہلوانی کیا کرتے تھے۔ تعلیم واجبی سی تھی اور ادب سے بھی کوئی لگاو اے حمید کو بھی منتقل کرنا چاہتے تھے۔ اے حمید کی والدہ سردار بیگم ادبی ذوق کی مالک تھیں۔

اے حمیدبچپن ہی سے بہت شرارتی اور پڑھائی سے بھاگنے والے تھے۔ وہ اپنی ابتدائی تعلیم اوراس دورکی شرارتوں کے متعلق کہتے ہیں: 

’’میں نے چوتھی جماعت محلہ کے مشن اسکول میں پاس کی تو مجھے ایم اے او ہائی سکول میںداخل کروایا گیا۔ اسکول کی چھٹی ہوئی کشادہ ڈیوڑھی میں داخل ہوتے ہی میرا دل اداس ہو گیا۔ اسکول بچپن ہی سے میرے ایسی چار دیواری ہوا کرتی تھی جس کے اندر مجھے ایک خاص وقت کے واسطے بند کر دیا جاتا اور جہاں ہر آدھ پونے گھنٹے کے بعد میری پٹائی شروع ہو جاتی۔ میں پڑھائی میں نکما نہیں تھا۔ پٹائی اس لیے ہوتی کہ میں شرارتیں بہت کرتا تھا‘‘۔

 میٹرک کے دوران وہ نصابی کتابوں کے ساتھ ہم نصابی کتابوں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ وہ اکثر لائبریری میں جا کر رسالے اور کتابیں پڑھتے تھے۔ میونسپلٹی کے ریڈنگ روم میں بیٹھ کر ادبی کتب و رسائل پڑھتے مگر ان کے والد خلیفہ عبد العزیز چونکہ خود پہلوان تھے، اس لیے لڑکپن کے زمانے میں اے حمید کو اپنے والد کے نادر شاہی حکم کی تعمیل میں روزانہ سردائی پی کر ورزش کرنے کے لیے تکیہ پیر شیخ چلی یا تکیہ سرو رکے اکھاڑے میں تو جاناہی پڑتا تھا۔ اے حمید کی طبیعت میں بچپن ہی سے بے چینی اور اضطراب کوٹ کوٹ کر بھراتھا۔ بے چین طبیعت انھیں متحرک رکھتی تھی۔ وہ ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے والے نہ تھے۔ ایسے ماحول سے اکتا جاتے تھے۔

 اے حمید کو بچپن میں فلمی ایکٹر بننے کا شوق بھی رکھتے تھے۔ انھیں فطری مناظر سے زیادہ دلچسپی تھی اور رومانوی ادیبوں کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ فطرت پسندی کی وجہ سے طبیعت بے چین رہتی۔ کرشن چندر ان کے پسندیدہ افسانہ نگار تھے۔ میٹرک کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ان کے والدصاحب نے انھیں ریلوے ہیڈ کوارٹر الہور میں کلرک بھرتی کروادیا۔ساتھ ہی ساتھ ایف اے میں داخلہ دلوادیا۔ پہلا سال مکمل ہونے کے بعد وہ ملازمت اور تعلیم سے تنگ آکر سری لنکا بھا گ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد رنگون چلے گئے۔ انتظار حسین لکھتے ہیں:‘‘اے حمید رنگون سے واپس ہوا تو تقسیم ہو چکی تھی۔امرتسر جل رہا تھا۔ اے حمید لاہورپہنچااور یہاں اسے ایک لڑکی نظر آگئی۔ اس مرتبہ اس نے ڈائری نہیں لکھی۔ افسانہ لکھا۔ ’’منزل منزل‘‘۔ اے حمید کا پہال افسانہ ہے جو چھپا اور مقبول ہوا‘‘۔تقسیِم ہند کے بعد لاہور میں مختلف شہروں کرشن نگر، شاہدرہ اور فیض آباد میں رہے لیکن آخر میں سمن آباد میں رہائش اختیار کی۔ یہاں انہوں نے باقاعدہ ملازمت نہیں کی لیکن ہ ریڈیو پاکستان لاہورسے وابستہ ہوئے۔ یہ ملازمت انھوں نے ‘‘تقریب کچھ تو بہتر ملاقات چاہئے’’ پروگرام کے ذریعے قبول کر لی تاکہ ان کا اپنے دوستوں کے ساتھ تعلق قائم رہے۔یہ اپنے وقت کامشہورپروگرام تھا۔ اے حمید لکھتے ہیں:‘‘ہم لوگ اس بات میں خوش تھے کہ روز شاعر، ادیب دوستوں سے ملاقات ہو جاتی۔کینٹین میں بیٹھ کر اکھٹے چائے پیتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، باغیچے میں کھلے ہوئے گلاب کے پھولوں کے قریب جا کر دیکھتے ‘‘۔  خوشبوئوں کے اسیر اورعاشق مزاج ہونے کی وجہ سے عشق و محبت کے کئی حادثے پیش آئے جواکثر ناکام رہے۔ عشق میں ناکامی کی وجہ سے بھی وہ کئی بار گھر سے بھاگے۔انہیں ریحانہ نام کی ایک لڑکی سے بھی عشق ہوا۔ جولاہورمیں رہتی تھی۔یہ خاتون اے حمید کے افسانے پڑھ کر ان پر عاشق ہو گئی تھی۔ احمد ندیم قاسمی کو اے حمید اور ریحانہ کے کئی سالوں کے عشق کا پتہ تھا۔ وہ ریحانہ کے والد صاحب کے پاس سفارش لے کر گئے کہ اے حمید اچھا لڑکا ہے۔ پیسے کماتا ہے۔ آخر کار بڑوں کی کوششوں سے ان دونوں کا  کارشتہ طے پا گیا۔ اس طرح 1954میں اے حمید کا آخری عشق کامیاب رہا ۔ ریحانہ سے ان کے دو بچے ہوئے۔ 

اے حمیدکا حافظہ بہت تیز تھا۔ انھوں نے گھر بیٹے بے شمار ناول، افسانے اور ڈرامے لکھے۔ ان کا تخیل کمال کا تھا۔ وہ قاری کو بیٹھے بیٹھے دنیا کی سیر کروا دیتے۔ان کو خوبصورت چیزیں پسندتھا۔ان کی فطرت پسندی کے بارے میں حکیم اختر کہتے ہیں :’’اے حمید کی ساری کتابیں رومان، حسرت، مسرت، ہجر ووصال، خوشی اور نامرادی سے عبارت ہیں۔ان سب میں ایک محبت کرنے والے کا دل دھڑکتا ہے جو پھولوں، بھنوروں، شہد کی مکھیوں، بہار، خزاں، چمکیلی دھوپ اور برف سے محبت کرتا ہے ۔‘‘

 اے حمید اپنے ادبی سفرکے آغاز کے بارے میں لکھتے ہیں:  ‘‘میں اصل میں پینٹر بننا چاہتا تھا یا خراد کا اکام سیکھنا چاہتا تھا جو مجھے بچپن میں ہی بڑا اچھا لگتا تھا۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ اپنی پہلی محبت کا زخم کھانے کے بعدمیں نے اس کا افسانہ بنا ڈالا اور اپنے دوست اور اس زمانے میں ‘‘ادب لطیف ‘‘کے ایڈیٹر عارف عبد المتین کے کہنے پر اسے ’’ادب لطیف ‘‘کے سالنامے میں چھپنے کے لیے دے دیا ‘‘۔1948 کے سالنامہ ادب لطیف میں ان کا پہلافسانہ شائع ہوا۔

 ناول نگاری کا آغاز بھی 1948سے کیا اور پہلا ناول ’’ڈربے ‘‘لکھا۔ اس کے بعدان کا قلم دوڑتا چلا گیا۔ اس طرح انہوں مختلف نثری اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر جگہ اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ اے حمید کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’منزل منزل ‘‘1950میں لاہور سے شائع ہوا جس میں دس افسانے شامل تھے۔دوسرا افسانوی مجموعہ ‘‘خزاں کا گیت‘‘  میں شائع ہوا جس میں آٹھ افسانے شامل تھے۔ تیسرا مجموعہ ‘‘کچھ یادیں، کچھ آنسو‘‘ تھا۔اس مجموعے میں نو افسانے شامل ہیں۔ چوتھا افسانوی مجموعہ ‘‘مٹی کی مونا لیزا’’ 1960میں چھپا۔ اس مجموعے میں محبت کے موضوع پر سترہ افسانے لکھے۔ پانچواں افسانوی مجموعہ ‘‘زرد گلاب’’1988میں شائع ہوا۔ جس میں سات افسانے ہیں۔ اس مجموعے میں زرد گلاب ایک ناولٹ ہے۔ باقی چھ افسانے ہیں۔ ان افسانوں کے موضوعات میں محبت، فطرت، بھوک، مزاح، ماضی کی یاد، غربت، مفلسی، حقیقت نگاری، فطرت اور شہری و دیہاتی زندگی کا موازنہ جیسے موضوعات شامل ہیں۔اے حمید ناول کے فن کو بھی ثروت مند بنانے میں اپنی زندگی صرف کر دی۔ انھوں نے 100سے زیادہ ناول لکھے ہیں جن میں زندگی کی سچی اور تلخ حقیقت کو مثبت انداز میں پیش کیاگیاہے۔

 قیام پاکستان کے بعد معاشرے میں جس قسم کے مسائل نے جنم لیا اور وہ مسلسل ابھر کر سامنے آئے۔ ان مسائل کو نہایت خوبصورتی سے اپنے ناولوں کے ذریعے پیش کیا۔ رومانی ناولوں میں خاص طور پر نوجوان طبقے کے جذبات و احساسات کی خوب ترجمانی کی ہے۔ان کے نمائندہ ناولوں میں ڈربے، جنگل روتے ہیں، جھیل اور کنول، یورپ کی ہوا، برف باری کی رات، جہاں برف گرتی ہے، گلاب کی ٹہنی، بارش میں جدائی، پھول گرتے ہیں، ناریل کا پھول، آدھی رات کا شہر، اندھیرے کا سورج، خوشبو کا خواب، بہار کا آخری پھول، میرا دوست میرا دشمن، پھول اداس ہیں، بادبان کھول دو، بھارتی دہشت گرد، را کی سازش، ضر ب مجاہد، جہاد مشن، کشمیر کے آتش فشاں، جہنم کے پجاری، شاہین، کمانڈو آپریشن، خفیہ مشن،خزاں کی بارش وغیرہ شامل ہیں۔

اے حمید کی بچوں کے لیے لکھی گئی کئی کتابیں مختلف سیریز کی شکل میں لکھی گئی ہیں۔ان میں عاطف سیریز، شرلک ہومز سیریز، ڈھاکہ ایڈونچر، خاتم طائی سیریز اور انسپکٹر شہر یارسیریز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے کچھ تاریخی کتابیں بھی لکھیں جن میں فاتح ہندوستان،فاتح سندھ، فاتح یروشلم، شیر بنگال، عادل بادشاہ، اور فاتح سومنات شامل ہیں۔ بچوں کے لیے سائنسی مہمات پر بھی کچھ ناول لکھے۔اس کے علاوہ اے حمید کے تین سفر نامے بھی منظرِ عام پر آئے ۔

ان کی تخلیقات میں ڈرامے بھی شامل ہیں جوبچوں کے لیے خاص طور پر لکھے گئے تھے اور ان کا موضوع جادو تھا۔ یہ ڈرامے پی ٹی وی

پرٹیلی کاسٹ کیے گئے۔ جن میں عینک والا جن، ماریو اور شمپک شو مشہور ہیں۔ ادبی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کا مجموعہ ‘‘چاند چہرے ’’ کے نام سے شائع ہوا۔اسی طرح طنز و مزاح پر لکھی گئی کتابوں میں، قصہ آخری درویش کا، مرزا غالب رائل پارک میں، خانہ بدوش کے خطوط اور داستان غریب حمزہ شامل ہیں۔ اردو ادب کا یہ درخشندہ ستارہ 29پریل 2011  کو 87سال کی عمر میں ہم سے جدا ہو گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گرینڈڈائیلاگ کی بازگشت!

ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کی باز گزشت سنائی دے رہی ہے ، جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

جماعتی قیادت میں تبدیلی

مسلم لیگ( ن) میں جماعتی قیادت کی تبدیلی کا عمل شروع ہے جس کیلئے 18مئی کو ایگزیکٹو کمیٹی اور 28مئی کو جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پارٹی صدارت سے یہ کہتے ہوئے استعفٰی دے دیا ہے کہ 2017ء میں نوازشریف سے غیر قانونی طور پر وزارت عظمیٰ اور ان کی پارٹی صدارت چھینی گئی تھی اور پارٹی صدارت نوازشریف نے امانتاً مجھے سونپی تھی،

مہنگائی،صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں

ملک بھر میں عوام کی زندگی ایک ہی چیز کے گرد گھوم رہی ہے، مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی۔بات چاہے بجلی یا گیس کی ہو یا پھر آٹا،دال، سبزیوں یا دیگر اشیائے خور و نوش کی۔

گورنر اور وزیراعلیٰ میں ٹھن گئی

پشاور میں صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ پرواقع دو بڑے گھروں کے مکینوں میں الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ یہ دو بڑے گھر وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس ہیں۔ جس طرح ان دونوں گھروں کے مکین ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اسی طرح وہ ایک دوسرے سے مختلف رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔

کوئٹہ اور چمن میں احتجاج،حکومت کیلئے چیلنج

ملکی تاریخ میں نومئی ایک سیاہ دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ قومی سلامتی کے اداروں کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔نومئی کووطنِ عزیز کی سیاسی اور قومی تاریخ کے جو افسوسناک واقعات پیش آئے انہیں ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان میں بھی مختلف تقاریب کا اہتمام کیا گیا

مطالبات منظور،بجلی اور آٹے پر ریلیف

آزاد جموں وکشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے سستے آٹے اور بجلی کیلئے گیارہ مئی کو احتجاج کی کال دی تھی، تاہم مقررہ تاریخ سے قبل ہی نو مئی کو ڈڈیال میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا جہاں ہنگامہ آرائی کے دوران مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کو زدوکوب کر دیا اور اس کی گاڑی کو بھی آگ لگادی۔ اس واقعہ کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے 11مئی کے بجائے 10 مئی کو شٹر ڈاون کی کال دے دی۔