اولاد کے حقوق

تحریر : مفتی ڈاکٹرمحمد کریم خان


جس طرح انسان کواللہ تعالیٰ کا نائب اور مخلوقات میں افضل ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح اس کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریاں بھی باقی مخلوقات سے جداگانہ ہیں۔ان ذمہ داریوں میں سے اولادکی تربیت اورحقوق بھی ہیں،جس کااداکرناانسان پرفرض ہے۔

جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے اولاد کے ساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور اولاد کی تربیت میں کوتاہی کے بداثرات سامنے آتے ہیں۔بچوں کے حقوق، معاشرتی، قانونی اور انسانی حقوق کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی حفاظت، تعلیم، صحت اور امن کا خصوصی خیال رکھنا ضروری ہے۔ ان کے حقوق کی تقریباً ہر معاشرہ میں قانونی و معاشرتی بنیادیں ہوتی ہیں جو بچوں کی بہتری اور ترقی کو یقینی بنانے کیلئے موجود ہوتی ہیں۔ بچوں  کے حقوق سے عہدہ برآ ہونا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ان کے حقوق کا ادراک نہ ہو۔کچھ حقوق کاتعلق ولادت کے قبل کی زندگی سے اورکچھ کاتعلق ولادت کے بعد ہے۔ذیل میں اولادکے اہم حقوق قرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں۔

بعدازپیدائش حقوق

بچے کی پیدائش کے بعدجو حقوق اسلام کی طرف سے ملتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

حق زندگی: قبل ازاسلام لوگ اپنی اولادکومعاشی تنگی اورمذہبی عقیدگی کی بناء پرمعبودوں کیلئے قربان کیاکرتے تھے۔قرآن وسنت نے اولاد کو حق زندگی عطاکرتے ہوئے قتل کو قانونی جرم قرار دیا۔ خواہ محرکات معاشی ہوں یامذہبی۔معاشی تنگدستی کی بناء پراولاد کے قتل کوروکتے ہوئے قرآن کریم ان الفاظ میں حکم دیتاہے: ’’تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے‘‘(بنی اسرائیل:31)۔ 

مشرکانہ ماحول میں مذہبی بنیادوں پر اولاد قربان کی جاتی تھی۔ ان غلط رسوم کی بیخ کنی اسلام نے بڑے احسن اندازسے کی۔قرآن کریم ان مشرکوں کی رسوم کوبیان کرتے ہوئے کہتاہے: ’’اسی طرح بہت سے مشرکوں کیلئے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کو مار ڈالنا (ان کی نگاہ میں) خوش نما کر دکھایا ہے تاکہ وہ انہیں برباد کر ڈالیں اور ان کے (بچے کھچے) دین کو (بھی) ان پر مشتبہ کر دیں، اور اگر ا (انہیں جبراً روکنا) چاہتا تو وہ ایسا نہ کر پاتے، پس آپ انہیں اور جو افترا پردازی وہ کر رہے ہیں (اسے نظرانداز کرتے ہوئے) چھوڑ دیجئے‘‘ (الانعام:137)۔قرآن پاک نے قتل اولاد(خواہ کوئی بھی صورت ہو)کو حرام قراردیاہے اور انسان کو اولاد کی نعمت پہچاننے کاسلیقہ سکھایا ہے۔

حق پرورش: ماں باپ کی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری بچوں کی پرورش کرنا ہے۔اس لیے کہ اپنی زندگی کے اوائل میں خطرات وحادثات سے اپنادفاع کرنے اور اپنے لیے خورونوش کا اہتمام کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کواپنے بچوں کی خوراک، بیماریوں سے بچاؤ اور حوادثات زمانہ سے محفوظ کرنے کا ذمہ دار بنایاہے۔ قرآن مجیدمیں ہے : ’’صاحب وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اْس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔  اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا‘‘(الطلاق:7)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا:تم میں سے ہر کوئی نگہبان ہے اورہرایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ حاکم بھی نگہبان ہے ،رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا اور غلام اپنے آقاکے مال کا نگہبان ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری: 2751)۔ 

 اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش،ضروریات زندگی،گرمی سردی سے بچاؤ، بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا اچھا اہتمام کریں۔ 

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں، رسول اکرمﷺ نے فرمایا : ’’جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ انہیں جوان ہونے تک کھلاتا پلاتا رہے تو وہ دونوں اسے جنت میں لے جائیں گی‘‘ (ابن ماجہ: 3670) ۔پرورش کے ضمن میں خوراک، لباس، صاف ستھراماحول، محبت وشفقت کارویہ سب شامل ہے۔

حق رضاعت

بچہ اپنی ابتدائی زندگی میں جس خوراک کامحتاج ہوتاہے اس کاانتظام اللہ تعالیٰ نے ماں کے دودھ کی صورت میں کیا۔قرآن مجیدمیں ہے:  ’’مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کیلئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے، اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہو گا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔ جبکہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے خوب دیکھنے والا ہے‘‘ (البقرہ: 233)۔

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہوتاہے کہ ماں کیلئے مناسب نہیں ہے کہ وہ بچے کواپنے دودھ سے محروم رکھے۔دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے اوردودھ پلانے والی ماں کے قیام وطعام اور لباس کا ذمہ دارباپ ہے۔والدین کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ رزق حلال سے اولادکی پرورش کرے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ:168)۔

غذا،لباس،رہن سہن میں بچوں کے مابین قانون مساوات کواختیارکرنااسلام کاتقاضاہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔ اس وقت ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد نبی اکرمﷺتشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کیلئے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔(صحیح بخاری: 5649)۔ پرورش میں تمام مادی ضروریات اورسہولتیں شامل ہیں جب تک بچے ضرورتمندہیں اس وقت تک وسائل اورتحفظ مہیا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

حق انتخاب ِنام

بچوں کا اچھا نام رکھنا ان کا بنیادی حق ہے۔ اسلام سے قبل اہل عرب اپنے بچوں کے عجیب و غریب نام رکھتے ،حضورﷺنے ایسے نام رکھنے کوناپسندکیااوراچھانام رکھنے کاحکم دیا۔ محمدبن احمدصالح طوسی بیان کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)(الطفل فی الشریعۃ الاسلامیہ، ص74) ۔

حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔( ابو داؤد: 4948)۔ حضرت ابو وہب جشمیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے عبداللہ اورعبدالرحمن زیادہ پسند ہیں۔ سب ناموں سے سچے نام حارث اورہمام ہیں جبکہ نا مناسب نام حرب اورمرہ ہیں(ابو داؤد: 4950)۔

حق تعلیم وتربیت

بچوں کی تعلیم و تربیت، انہیں اچھا، ذمہ دار، دوسروں کی خیر خواہی کرنے والا مثالی اور باکردار مسلمان بناناوالدین کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کے تربیت اولاد کے واقعہ کو بیان کیا، ان کی نصیحتیں تربیت اولادکیلئے اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

شرک سے اجتناب

حضرت لقمان نے اپنے بیٹوں کوشرک سے بچنے کی نصیحت کی۔قرآن مجیدمیں ہے: ’’(یاد کیجئے) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے فرزند! اللہ  تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے‘‘(سورہ لقمان:13)

نیکی اوربدی کاتصورواضح کرنا

آپ نے اپنی اولادکے سامنے نیکی اوربدی کا تصور واضح کیاتاکہ وہ نیک بن سکیں اورگناہوں سے بچ سکیں۔قرآن مجیدمیں ہے: (لقمان نے کہا): اے میرے فرزند! اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو، پھر خواہ وہ کسی چٹان میں (چھْپی) ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں (تب بھی) اللہ اسے (روزِ قیامت حساب کیلئے) موجود کر دے گا۔ بیشک اللہ باریک بین (بھی) ہے آگاہ و خبردار (بھی) ہے‘‘ (سورہ لقمان :16)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اولاد کو ہمیشہ نیکیوں کی ترغیب اور برائیوں سے ڈراتے رہناچاہیے۔

ہمت وعظمت والے کام

’’اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں‘‘(سورہ لقمان:17)۔اس آیت کریمہ میں کئی نصیحتوں کاایک ساتھ ذکرکیاہے۔سب سے پہلے اقامت نماز کاحکم دیایعنی اولادکو نمازکی پابندی کرواناوالدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بچہ جب سات سال کا ہو جائے تواسے نمازپڑھنے کاحکم دواورجب وہ دس سال کا ہوجائے (اورنمازنہ پڑھیں) تو اسے مارو، اور ان کے سونے کے بسترالگ کردو‘‘(ابو داؤد: 495)۔اسی طرح نیکی کاحکم،برائی سے منع کرنے کاشعوربھی اولادکے اندر بیدارکرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔

غروراوراکڑسے منع کرنا

لوگوں سے باہم میل ملاپ کے وقت غرور و تکبر کا اظہار کرتے ہوئے ان سے رخ نہ پھیرنا اور زمین پر متکبرانہ چال چلن سے روکتے ہوئے حضرت لقمان نے جواولادکونصیحت کی: لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اللہ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے‘‘ (سورہ لقمان :18)

تربیت

بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مختلف اندازسے حضور ﷺ نے احکامات صادر فرمائے۔ حضرت عمروبن شعیبؓ  بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اسے مارو، اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو‘‘ (ابو داؤد:495)

بچوں کے عزت واحترام کوبرقراررکھتے ہوئے ان کوآداب سکھلانے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’اپنی اولادکے ساتھ نیک سلوک کرواورانہیں ادب سکھلاؤ‘‘(ابن ماجہ:3671)۔بچوں کونظم وضبط ،اچھی عادات سکھانااوران میں اعلیٰ اخلاق پیداکرناوالدین کافرض ہے۔حضرت جابربن سمرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اگرتم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کوادب سکھاتاہے، یہ اس کیلئے اس کام سے بہترہے کہ وہ ہرروزایک صاع خیرات کرے(جامع ترمذی: 1951)۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:ہربچہ فطرت سلیمہ پرپیداہوتاہے اس کے والدین اسے یہودی،مجوسی یانصرانی بناتے ہیں‘‘(صحیح بخاری:4775)۔اس سے واضح ہواکہ بچوں کی تربیت کرتے ہوئے کھانے پینے،گفتگوکرنے،والدیناوربڑوں کی عزت وتکریم کرنے،پاکیزگی اورصفائی کاخیال رکھنے جیسے آداب سکھلاناوالدین کی ذمہ داری ہے۔

حق مساوات

بچوں کے بنیادی حقوق میں سے اولادکے مابین مساوات اورعدل قائم کرنابھی ہے۔حضرت نعمان بن بشیر ؓبیان کرتے ہیں کہ ان کے والد انہیں لے کر بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا : میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔ فرمایا : کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے؟ عرض کیا : نہیں۔ فرمایا : تو پھر اس سے واپس لے لو‘‘(صحیح بخاری:2446)۔حضرت نعمان بن بشیرؓبیان کرتے ہیں: میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کر دیا تو میری والدہ نے کہا : میں اس پر تب راضی ہوں گی جب تو رسولِ خداﷺ کو اس پر گواہ لائے۔ میرے والد  نبی کریمﷺ کے پاس گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی دیا ہے؟ میرے والد نے کہا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو، میرے والد نے وہ ہبہ واپس لے لیا(صحیح مسلم: 1632)۔

حق میراث

اسلام نے والدین کی جائیداد میں اولادکونہ صرف شریک کیابلکہ ان کے حصے بھی مقررکردیئے تاکہ ان پرظلم نہ ہوسکے۔قرآن کریم میں ہے: اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کیلئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کیلئے آدھا ہے، اور مورث کے ماں باپ کیلئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کیلئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعدہے جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ  تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے، بیشک اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (النساء :11)۔

حق نکاح

والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اولادکے بہترنکاح کیلئے مناسب اقدام کریں۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جس کے ہاں اولاد ہو تو اسے چاہیے کہ انہیں اچھے آداب سکھلائے،ان کا اچھانام رکھیں،جب وہ بالغ ہو جائیں توان کی شادی کریں،اگروہ بالغ ہوجائیں اوران کانکاح نہ کیااوراس نے کسی گناہ کاارتکاب کیاتواس کا گناہ باپ کے سر ہو گا (سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، ج2، ص163)، لہٰذاقرآن و سنت کی روشنی میں ہرانسان پرلازم ہے کہ وہ اولادکی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

میدان محشر میں نعمتوں کا سوال!

’’اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘ (سورہ ابراہیم :7) ’’اور اس نے تمہارے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر گزار بنو‘‘ (سورۃ النحل : 78)’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اُسی کی عبادت کرتے ہو‘‘ (البقرہ )’’اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

کامیاب انسان کون؟

’’وہ اہل ایمان کامیابی پائیں گے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں‘‘ (المومنون) قرآن و سنت کی روشنی میں صفاتِ مومناللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’جس نے خود کو گناہوں سے بچالیا حقیقتاً وہی کامیاب ہوا(سورۃ الیل)

صدقہ: اللہ کی رضا، رحمت اور مغفرت کا ذریعہ

’’صدقات کو اگر تم ظاہر کر کے دو تب بھی اچھی بات ہے، اور اگر تم اسے چھپا کر دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

’’اسے اپنے گھر لے جاو‘‘ کہنے سے طلاق نہیں ہوتی سوال :میں نے اپنی بیوی سے ایک موقع پرکہاتھاکہ میں تمہیں کبھی ناراض نہیں کروں گا،اگرکوئی ناراضی ہوئی توآپ کے کہنے پرطلاق بھی دے دوں گا۔

فیض حمید کی سزا،بعد کا منظر نامہ

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سزا سنا دی گئی ہے جو کئی حلقوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے۔ ریاست ملک میں عدم استحکام پھیلانے والے عناصر کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر چکی ہے۔

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے امکانات

چیف الیکشن کمشنر کا مؤقف ہے کہ الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہے،لیکن حکومتِ پنجاب نے10 جنوری تک کا وقت مانگا ہے۔ پنجاب حکومت نے انتخابی بندوبست کرنا ہے جبکہ شیڈول کا اعلان الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے۔