قیام امن،سب سے بڑا چیلنج
بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے بعد تمام تر وزرانے اپنے اپنے محکموں کے چارج سنبھالتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا شروع کر دی ہیں۔ صوبائی کابینہ کی تشکیل وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کیلئے یقینی طورپر ایک مشکل ٹاسک سمجھا جارہا تھا کیونکہ بلوچستان کی مخلوط صوبائی حکومت میں شامل جماعتوں کے بیشتر اراکین صوبائی کابینہ کا حصہ بننا چاہتے تھے ۔
ایسے میں کون کابینہ میں رہے گا اور کون اس کا حصہ نہیں بن پائے گا، معاملے کی تاخیر کی بھی شائد یہی سب سے بڑی وجہ تھی، تاہم اب بلوچستان کے عوام کو یہ دیکھنا ہے کہ صوبائی کابینہ کیلئے چُنے جانے والے وزرااپنے اپنے محکموں میں بہتری اور صوبے کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات میں کامیاب ہوتے ہیں یا ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات ذاتی مفادات ہی ہوں گے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق جن وزراکو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے وہ منجھی ہوئی سیاسی شخصیات ہیں اور اس سے پہلے بھی وہ مختلف ادوار میں حکومتوں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کی ایک بڑی وجہ ایک ایسا نظام ہے جس میں سیاسی شخصیات کی ترجیحات عوامی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات رہے ہیں اور اس کی وجہ سے عوام کو سوائے محرومیوں اور انتظار کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کے حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت صوبائی اپیکس کمیٹی کا 16 واں اجلاس کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں کور کمانڈر بلوچستان کور لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان، صوبائی وزیر داخلہ میر ضیالانگو، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ زاہد سلیم ،آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ اور چیف کلکٹر کسٹم بلوچستان عبدالقادر میمن سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں صوبے میں امن وامان کی بحالی اورسمگلنگ کی روک تھام اور مسافروں کی سکیورٹی کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے۔ اجلاس میں سی پیک کے منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیتے ہوئے مروجہ ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ سمگلنگ کی روک تھام کے لئے انتظامی اور قانونی سقم دور کرکے بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔اس کے علاوہ چینی ، کھاد، پٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ روکنے کیلئے نتیجہ خیز اقدامات کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں بارڈر ایریا سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی پاکستان سمگلنگ کے تدارک کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے پیش کردہ بریفنگ میں بلوچستان سے واپس بھجوائے جانے والے غیر قانونی تارکین وطن کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی گائیڈ لائن اور فیصلے کے مطابق مزید تارکین وطن کی واپسی کا عمل طے شدہ ٹائم لائن سے مشروط کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ پرامن بلوچستان مستحکم پاکستان کا ضامن ہے، دہشت گردی کے خلاف لڑائی فوج اور سرمچاروں کی نہیں ہم سب کی ہے جو ہم نے مشترکہ طور پر لڑنی ہے ،معصوم افراد کے قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، جس نے بندوق اٹھائی اس سے سختی سے نمٹیں گے، جو بلوچستانی ناراض ہے اس کے گھر جائیں گے اور تحفظات دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہتر طرزِ حکمرانی کیلئے مثبت سمت کا تعین کررہے ہیں ،گڈ گورننس کے ثمرات پانچ سے چھ ماہ میں عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے، صوبے کی بہتری کیلئے سب نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے تربت میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ بلوچستان کے حقوق کی جنگ طاقت سے جیتنا چاہتے ہیں انہیں میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ صوبہ کے حقوق کیلئے پارلیمان ہی ایک بہتر راستہ ہے۔ بلوچستان کو صوبے کا درجہ دینے سمیت تمام صوبائی معاملات پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کئے گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے جسے بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، کسی ایک شخص کے لاپتہ ہونے کی کوئی وضاحت نہیں ہو سکتی، لیکن لاپتہ اور جبری لاپتہ ہونے میں فرق ہے۔جس پر ایک مثبت بحث کی ضرورت ہے بلوچستان کے مسائل پر سیرحاصل بات چیت کیلئے ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلہ کا مستقل حل نکالا جاسکے۔دہشت گرد تنظیمیں بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرکے پرُتشدد راستے پر دھکیل رہی ہیں لیکن بلوچستان کے مسائل تشدد سے حل نہیں ہوسکتے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ دہشت گرد جو کہ بلوچوں اوریہاں آنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کا قتل عام کررہے ہیں، حکومت اور ریاست ان کے خلاف سخت ایکشن لے گی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نے صوبہ میں بینظیر سکالرشپ فنڈ زکے آغاز کا بھی اعلان کیا ہے جس سے دنیا بھر کی معروف جامعات میں بلوچستان کے طلباو طالبات کو تعلیم حاصل کرنے اور سیکھنے کا موقع ملے گا اور وہ بلوچستان بلکہ ملک کیلئے ہنر مند ثابت ہوں گے۔
بلوچستان میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری طوفانی بارشوں کے باعث ژالہ باری کے باعث صوبے میں معمولات زندگی بھی برُی طرح متاثر ہیں ۔ پی ڈی ایم اے کے اب تک کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق صوبے میں مختلف واقعات میں 21افراد جاں بحق جبکہ50سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے میں زراعت اور مواصلاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے کی جانب سے بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن جاری ہے جبکہ کوئٹہ میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں جن کا کام ایسے عوامل کی جانچ پڑتال کرنا ہے جن سے ہر سال بارشوں سے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں اربن فلڈنگ سے نقصانات ہوتے ہیں۔