سندھ حکومت کے جاگنے کا انتظار!

تحریر : طلحہ ہاشمی


سندھ سرکار کہاں ہے، یہ وہ سوال ہے جو آج کل سب پوچھ رہے ہیں۔ جب پنجاب کی طرف نظر جاتی ہے تو خوشی کے ساتھ رشک بھی ہوتا ہے کہ پنجاب میں کسی کی بھی حکومت ہو عوام کے لیے کچھ نہ کچھ بہتری میں لگی رہتی ہے، لیکن سندھ میں تو ایک دو وزراء ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں، باقی سب ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ صوبے کی بہتری کے لیے دعا کر رہے ہوں۔

پہلے صحت کی صورتحال کا کچھ ذکر ہوجائے، تازہ خبر ہے کہ ضلع میرپورخاص میں آٹھ اور سانگھڑ میں تین بچے خسرہ سے چل بسے اور متعدد ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔ محکمہ صحت کی ٹیمیں بھی متحرک ہیں، حکومت کو اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح سندھ میں بھی پولیو کا خطرہ سر اٹھا چکا ہے۔ پولیو مہم جاری ہے، عوام کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پولیو لاعلاج مرض ہے اور اس سے بچاؤ کا واحد حل ویکسی نیشن ہے، اس لیے عوام پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے لازمی پلوائیں۔اب کچھ بات سیاسی میدان کی جہاں پی ٹی آئی سرگرم نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی نے سندھ میں ٹرین مارچ کیا، شعیب شاہین اور حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ سندھ کے عوام کو مسلط ٹولے سے نجات دلائیں گے، پی ٹی آئی یہ الزام لگاتی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو مسلط کیا گیا ہے۔ حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ مقتدرہ سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی، دوسری طرف پی ٹی آئی کے  مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ مقتدرہ کے سوا کسی سے مذاکرات نہیں کریں گے، گویا اب بھی پہلے کی طرح مسلط ہونا چاہتے ہیں۔

کراچی کے عوام کو لگ رہا تھا کہ ان کا بڑا سیاسی نقصان ہوگیا ہے کیونکہ حافظ نعیم الرحمان اب کراچی کے نہیں رہے اور پورے پاکستان کی جماعت اسلامی کے امیر ہوگئے ہیں، شاید کراچی پر اب اُن کی نظر پہلے جیسی نہ رہے، لیکن کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو میں حافظ نعیم الرحمان نے کراچی کی بات کی اور ایک بار پھر کراچی پولیس میں مقامی افراد کی بھرتی کا مطالبہ کیا۔اب کراچی والوں کی کچھ تسلی ہوئی ہے کہ حافظ نعیم الرحمان انہیںنہیں بھولے اور آئندہ بھی یاد رکھیں گے۔ ایک اہم مسئلہ جس نے کراچی کے عوام کی نیندیں حرام کردی ہیں، وہ یہ ہے کہ اندرون سندھ ڈاکوؤں کی مدد کرنے والے درجنوں اہلکاروں کو کراچی لایا جاچکا ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ کیا انہیں کراچی میں تعینات کیا جائے گا اور اب کراچی کے باسیوں کو ڈکیتوں کے ساتھ ساتھ کچے کے ڈاکوؤں کا بھی سامنا ہوگا؟ لیکن اس بات کی صوبائی وزیرداخلہ ضیاالحسن لنجار اور آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے تردید کردی۔ ان کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لیے 78اہلکاروں کو لایا گیا ہے۔مگر کراچی والے پوچھتے ہیں کہ ان اہلکاروں کو کراچی لانے کی کیا ضرورت تھی، اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو جہاں تعیناتی تھی وہیں تحقیقات کی جاتیں، وہیں سزا دی جاتی۔ نیا کٹا کھولنے کی کیا ضرورت تھی؟ ضیاالحسن لنجار نے امن و امان کی صورتحال کو بھی تسلی بخش قرار دے دیا ہے ،کہا ہے کہ انہوں نے ہائی وے پر سفر کیا، کچھ بھی نہیں ہوا۔ جناب! اگر عوام کی ہر گاڑی کو وزیر داخلہ جتنا پروٹوکول ملے تو واقعی کچھ نہیں ہوگا۔ 

کراچی میں ڈاکوؤں کی وارداتیں جاری ہیں اور جنوری سے اب تک 68 افراد کو مزاحمت پر ڈاکوؤں نے شہید کردیا ہے، تاہم آئی جی سندھ کے مطابق یہ تعداد 45 ہے۔ لیکن عوام نے قانون ہاتھ میں لینا شروع کردیا ہے، مبینہ ڈاکوؤں پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کا واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ یہ بہت خطرناک رجحان ہے، حکومت کو مہم چلانی چاہیے کہ عوام قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ جیکب آباد کی بھی سن لیں کہ مغویوں کے اہل ِخانہ کو احتجاج مہنگا پڑگیا، کوئی 80 کے قریب افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا، جس میں دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل ہیں۔ پولیس کو چاہیے کہ پریشان حال عوام کے خلاف مقدمات درج کرنے کے بجائے ڈاکوؤں کی گرفتاری پر توجہ دے۔ 

حیدرآباد سے خبر ہے کہ انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کالعدم سندھ ریولیوشن آرمی کے کمانڈر منیر ابڑو کو 14 سال قید کی  سزا سنا دی۔ افغانستان میں بھارتی دہشت گرد ایجنسی’ را‘ سے تربیت یافتہ منیر ابڑو پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا الزام ثابت ہوگیا۔ منیر ابڑو کو فروری 2023ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔حیدرآباد سے ایک اچھی خبر بھی سُن لیجئے کہ ضلعی انتظامیہ نے بڑا جاندار قدم اٹھایا ہے اور نان کی قیمت کم کرادی ہے۔ شہر میں 120 گرام کا نان اب 25 روپے نہیں بلکہ 18 روپے میں مل رہا ہے۔ عوام نے خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن انتظامیہ کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا کہ کہیں کوئی بے ایمان روٹی کا وزن کم نہ کردے اور عوام منہ دیکھتے رہ جائیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں کراچی سمیت ملک بھر سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا اور کہا کہ کسی کو بھی عوام کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے تجاوزات ہٹانے سے صاف انکار تو نہیں کیا لیکن وہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ گلستانِ جوہر میں کسی جگہ پر تجاوزات ہٹانے کے لیے کارروائی کی گئی لیکن عملے کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر حکومت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔ بہتری کے لیے اگر ڈنڈا اٹھانے کی ضرورت ہے تو سندھ حکومت بھی ڈنڈا اٹھالے ،عوام کی اکثریت اس کے ساتھ کھڑی ہوگی!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

گرینڈڈائیلاگ کی بازگشت!

ملک میں گرینڈ ڈائیلاگ کی باز گزشت سنائی دے رہی ہے ، جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ملکی مسائل کے حل کیلئے سیاستدانوں کو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔

جماعتی قیادت میں تبدیلی

مسلم لیگ( ن) میں جماعتی قیادت کی تبدیلی کا عمل شروع ہے جس کیلئے 18مئی کو ایگزیکٹو کمیٹی اور 28مئی کو جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پارٹی صدارت سے یہ کہتے ہوئے استعفٰی دے دیا ہے کہ 2017ء میں نوازشریف سے غیر قانونی طور پر وزارت عظمیٰ اور ان کی پارٹی صدارت چھینی گئی تھی اور پارٹی صدارت نوازشریف نے امانتاً مجھے سونپی تھی،

مہنگائی،صرف کشمیر کا مسئلہ نہیں

ملک بھر میں عوام کی زندگی ایک ہی چیز کے گرد گھوم رہی ہے، مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی۔بات چاہے بجلی یا گیس کی ہو یا پھر آٹا،دال، سبزیوں یا دیگر اشیائے خور و نوش کی۔

گورنر اور وزیراعلیٰ میں ٹھن گئی

پشاور میں صاحبزادہ عبدالقیوم روڈ پرواقع دو بڑے گھروں کے مکینوں میں الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ یہ دو بڑے گھر وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس ہیں۔ جس طرح ان دونوں گھروں کے مکین ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اسی طرح وہ ایک دوسرے سے مختلف رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔

کوئٹہ اور چمن میں احتجاج،حکومت کیلئے چیلنج

ملکی تاریخ میں نومئی ایک سیاہ دن کی حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ قومی سلامتی کے اداروں کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔نومئی کووطنِ عزیز کی سیاسی اور قومی تاریخ کے جو افسوسناک واقعات پیش آئے انہیں ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے بلوچستان میں بھی مختلف تقاریب کا اہتمام کیا گیا

مطالبات منظور،بجلی اور آٹے پر ریلیف

آزاد جموں وکشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی نے سستے آٹے اور بجلی کیلئے گیارہ مئی کو احتجاج کی کال دی تھی، تاہم مقررہ تاریخ سے قبل ہی نو مئی کو ڈڈیال میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آ گیا جہاں ہنگامہ آرائی کے دوران مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کو زدوکوب کر دیا اور اس کی گاڑی کو بھی آگ لگادی۔ اس واقعہ کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے 11مئی کے بجائے 10 مئی کو شٹر ڈاون کی کال دے دی۔