مفاہمتی عمل کوششیں کارگر ہو پائیں گی ؟
پاکستان کا سیاسی اور معاشی بحران بڑھ رہا ہے ۔ شہباز شریف کی نئی حکومت کے باوجود سیاسی اور معاشی مسائل میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور اس کے بقول اگر پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرسکتی ہے تو اس کو ہمارے ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا چاہیے۔
رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کو ریلیف ملنا ہے تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے ،لیکن پی ٹی آئی کی قیادت بدستور حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار نہیں ۔ ان کے بقول ہم مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ پی ٹی آئی نے واضح کیا ہے کہ اگر انہوں نے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو وہ صرف مقتدرہ کے ساتھ ہوں گے۔پی ٹی آئی بدستور مقتدرہ کی طرف دیکھ رہی ہے اور حکمران جماعت سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ، اسی وجہ سے قومی سیاست میں ڈیڈ لاک کا ماحول ہے ۔تاہم مقتدرہ کسی بھی صورت میں پی ٹی آئی کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوگی ، وہ بھی یہی چاہے گی کہ پی ٹی آئی نے کوئی راستہ تلاش کرنا ہے تو اس کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں۔ پی ٹی آئی میں حکومت اورمقتدرہ کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں دو گروپس موجود ہیں، ایک گروپ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے تو دوسرا براہ راست طاقت کے مراکز سے۔
ایک طرف حکومت کی مشکل پی ٹی آئی اور اس کی قیادت و غیر سیاسی حکمت عملی ہے تو دوسری طرف جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کے خلاف میدان میں موجود ہیں اور ایک بڑی تحریک چلانے کا اعلان کرچکے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں مولانا کی تقریر کافی جارحانہ تھی ۔ انہوں نے حکومتی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر سیاسی سہاروں پر چلنے والا نظام جمہوری نہیں ہوسکتا ، اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنا ہی جمہوری سیاست ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی عزائم ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آسانی سے حکومت کو حکومت کرنے نہیں دیں گے۔ دوسری طرف حکومت کی ایک اور مشکل یہ ہے کہ اس صورتحال میں وہ تنہا کھڑی ہے ۔ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی پیپلزپارٹی خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ وہ حکومت کی کسی بھی مشکل میں ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) کی پریشانی بڑھ رہی ہے ۔ اس کو لگتا ہے کہ حکومت کا سارا بوجھ اس پر ڈا ل دیا گیا ہے ۔ اسی بنیاد پر ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف پارٹی معاملات میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور حکومت میں بھی نواز شریف کی صف بندی جاری ہے۔ نواز شریف پنجاب کے معاملات کو بھی دیکھ رہے ہیں ، اسحاق ڈار کی بطور ڈپٹی وزیراعظم تقرری اور اب رانا ثنا اللہ کی وزیر اعظم کے سیاسی مشیر کے طور پر تقرری ظاہر کرتی ہے کہ نواز شریف ان سیاسی حالات میں خاموشی سے بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ۔ نواز شریف نے ہی فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں موجودہ حالات میں پارٹی اور حکومتی عہدے مختلف ہونے چاہئیں ؛چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کو ایک بار پھر پارٹی صدر منتخب کروایا جائے گا تاکہ پارٹی اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کرسکے ۔ 8فروری کے انتخابات میں یہ بات ثابت ہوئی کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ۔ ساکھ کی بحالی کیلئے ا ن کو ایک مضبوط سیاسی بیانیہ درکار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف ایک ہی وقت میں حکومت اور دوسری طرف اپوزیشن کی سیاست کرسکیں گے؟ اور کیا اس عمل سے حکومت، جو پہلے ہی سیاسی دباؤ میں ہے، اپنی سیاسی پوزیشن کو بہتر بناسکے گی یا اس میں مزیدخرابیاں پیدا ہوں گی؟ مسلم لیگ (ن) کے سامنے اصل چیلنج حکومتی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے ۔اب تک عوام کو کوئی قابلِ ذکر ریلیف نہیں مل سکا جس سے حکومت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور اس پر عوامی سطح پر تنقید ہورہی ہے ۔ معاشی صورتحال کی بدحالی یوں ہی رہی تو اس سے حکمران اتحاد میں بھی مسائل جنم لیں گے اور عوام میں حکومت کے خلاف ردعمل بڑھے گا۔اگرچہ حکومت اور مقتدرہ مل کر معاشی ترقی کے نئے امکانات تلاش کررہی ہیں،حال ہی سعودی عرب کی جانب سے بڑی سرمایہ کاری کی خبریں بھی آرہی ہیں لیکن ان کے فوری معاشی نتائج نہیں مل سکیں گے جبکہ حکومت کے سامنے بڑا چیلنج فوری طور پر لوگوں کو معاشی ریلیف دینا ہے تاکہ حکومت پر اعتماد بڑھ سکے ۔
مسلم لیگ (ن) کو ایک طرف پارٹی کے اندر سے مسائل کا سامنا ہے تو دوسری طرف حکومت او رپارٹی سے باہر کی سیاست ہورہی ہے، وہ بھی ان کے حق میں نہیں ۔ حکومت کی خواہش تھی کے ہم سیاسی معاملات کو بھی پی ٹی آئی کو ساتھ ملا کر حل کریں اور ساری توجہ معاشی معاملات پر دے سکیں ، لیکن لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کسی ایسی مفاہمت کی سیاست کیلئے تیار نہیں جس کا فائدہ براہ راست حکومت کو ہو۔ پی ٹی آئی کی تو کوشش ہوگی کہ حکومت کو اس کی سیاسی اور معاشی کارکردگی کی بنیاد پر اور زیادہ دباؤ میں لایا جائے کیونکہ حکومت کی ناکامی ہی پی ٹی آئی کی کامیابی ہوگی ۔ یعنی ہم ریاستی مفاد سے زیادہ اپنے سیاسی مفاد کی طرف دیکھ رہے ہیں، اسی وجہ سے سیاسی اور معاشی بحران بڑھ رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ کیا گیا تو معاشی استحکام کیسے ممکن ہوگا؟ یہ جو باتیں ہوتی ہیں کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کیلئے چارٹر آف اکانومی کرنا ہوگا وہ بھی ممکن نہیں ہوسکے گا کیونکہ سیاسی بحران اور سیاسی کشیدگی کا بڑھتا ہوا ماحول ظاہر کرتا ہے کہ ہم مسائل کے حل کی طرف نہیں بڑھ رہے بلکہ مسائل میں اور زیادہ خرابی پیدا کرنے کا راستہ اختیار کرچکے ہیں ۔ سبھی کسی نہ کسی شکل میں اس بحران کے ذمہ دار ہیں ۔جب تک سیاسی قوتیں اپنا سیاسی مقدمہ مضبوط نہیں کرتیں او ر سیاسی اتفاق رائے پیدا نہیں کرتیں سیاسی بحران کسی صورت ختم نہیں ہوگا ۔ اس لیے گیند سیاسی قوتوں کی کورٹ میں ہے ، اگر انہوں نے سیاسی حکمت عملی کے تحت مسائل کا حل تلاش کیا تو بحران کم ہوسکتا ہے بصورت دیگر محاذ آرائی کا یہ کھیل مزید شدت اختیار کرکے ہماری مشکلات میں اضافہ کرتا رہے گا۔