عقیدہ ختم نبوت قرآن وحدیث کی روشنی میں

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


،’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب)’’بنی اسرائیل میں جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ (صحیح بخاری)

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور بطورآخری نبی حضرت محمد ﷺکی رسالت کی تصدیق کرنے والے کو مسلمان کہتے ہیں۔جب بندہ کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو اس میں وہ اللہ کی وحدانیت اور حضور نبی کریم ﷺکی رسالت پر ایمان لاتا ہے۔ اسی طرح حضوراکرم ﷺکے خاتم الانبیا ہونے پر جو شک کرتا ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا ایمان زائل ہو جاتا ہے۔عقیدہ ختم نبوت قران و حدیث سے ثابت ہے۔قران مجید کی 100 آیات مبارکہ اور رحمت دوعالمﷺ کی210 احادیث مبارکہ اس عقیدے کی وضاحت و گواہی دے رہی ہیں کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ حضرت محمد ﷺپر ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں، آپﷺ کے بعد کسی شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔

عقیدہ ختم نبوت کے متعلق اللہ نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا،’’محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) ہیں‘‘ (سورۃ الاحزاب: 40)۔ بہت سی دیگر آیات بھی موجود ہیں، جن سے اہلِ اسلام ختم نبوت پر استدلال کرتے ہیں۔اس آیت کریمہ کی متفقہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ خاتم النبیین کا مطلب آخر النبیین ہے اور اسی پرساری امت کا اجماع ہے اور تمام علما و مفسرین اور محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ’’خاتم النبیین‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کسی قسم کا کوئی رسول ہو گا۔

اس پر بھی اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل یا کوئی تخصیص نہیں،لہٰذا اس کا منکر یقینا اجماع امّت کا منکر ہے۔قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں، آپﷺ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول پیدا ہوگا اور نہ کوئی نبی پیدا ہوگا۔

 رحمت دو عالم حضرت محمدﷺتمام نبیوں اور رسولوں کے آخر میں تشریف لائے۔ نبوت و رسالت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہو گیا۔گزشتہ انبیا علیہم السلام کی تبلیغ و ہدایت اور نبوت و رسالت ایک علاقے یا ملک تک محدود رہی۔ انہوں نے کبھی عالمگیر دعوت و پیغامِ حق کا دعویٰ نہیں کیا لیکن آپﷺ کاپیغام عالمگیر تھا اور آپﷺ کی مخاطب پوری دنیا تھی۔ آپﷺ پوری کائنات کیلئے ’بشیر‘ اور ’نذیر‘ بن کر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ کا پیغام مکمل اورمحفوظ شکل میں تمام دُنیا کے انسانوں کی ہدایت کیلئے باقی چھوڑا اورکسی نئے نبی یا رسول کے آنے کی ضرورت کو ختم کر دیا۔ اس لیے قرآنِ حکیم نے آپ ﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ کہا۔ عربی زبان میں ’’خاتم‘‘ کا معنی اس مہر کے ہیں جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے تاکہ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی جا سکے۔ اس لیے آپ ﷺکے آنے سے نبوت و رسالت کا سلسلہ سر بہ مہر ہو گیا اور آپ ﷺکے بعد اب کوئی نبی نہ آئے گا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی گواہی خود حضوراکرم ﷺنے یہ کہہ کر دی فرمایا کہ ’’میری اور تمام انبیا علیہ السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمدہ اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکر لگا کر کہنے لگے ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ (کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں‘‘ (صحیح مسلم:5959)

حضور نبی کریم ﷺ نے متواتر احادیث میں اپنے خاتم النبیین ہونے کا اعلان فرمایا اور ختم نبوت کی ایسی تشریح فرمائی کہ اس کے بعد آپﷺ کے آخری نبی ہونے میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی۔نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’بنی اسرائیل میں جب ایک نبی وفات پا جاتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ (صحیح بخاری)

ایک اور حدیث مبارکہ ہے ’’اب رسالت ونبوت منقطع ہو چکی ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں (صحیح بخاری)۔

نبی کریم ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: ’’تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 633)

حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریم ﷺکا ارشاد نقل کرتی ہیں ’’میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد میں آخری مسجد ہے‘‘۔

حضرت عقبہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں‘‘(ابو دائود، جلد 2، صفحہ 127)، (صحیح ترمذی ، جلد 2، صفحہ 45)۔ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ابوذر! نبیوں میں سب سے پہلے نبی آدمؑ اور سب سے آخری نبی محمدؐ ہیں‘‘۔ حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپﷺ خاتم النبیین ہیں‘‘ (جامع ترمذی)۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’رسالت اور نبوت تو ختم ہو چکی ہے میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔ یہ بات صحابہ پر شاق گزری تو آپﷺ نے فرمایا ’’مبشرات باقی ہیں‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’مبشرات کیا ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’سچے خواب اور وہ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہیں‘‘ (جامع ترمذی)۔

رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’میں اللہ کے نزدیک اس وقت خاتم النبیین مقرر ہو چکا تھا جب آدمؑ ابھی گارے ہی کی شکل میں تھے‘‘ (صحیح ترمذی)۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:مجھے چھ چیزوں کے ذریعہ دیگر انبیا پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات عطا ہوئے، دشمنوں کے دل میں میرا رعب ڈال کر مجھے فتح و نصرت عطا فرمائی گئی،مالِ غنیمت میرے لیے حلال قرار دیا گیا، ساری زمین کو میرے لیے سجدہ کی جگہ اور پاک کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا، ساری مخلوق کیلئے مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیااور نبوت و رسالت کا سلسلہ مجھ پر ختم کر دیا گیا‘‘(صحیح مسلم ، جلد 1، صفحہ 199)۔

تمام اُمت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ختم نبوت کا تحفظ صحابہ کرامؓ کا شیوہ رہا ہے ۔اسی لیے حضرت ابوبکرؓ نے صحابہ کرامؓ کا ایک لشکر اس نبوت کے جھوٹے دعویدار کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا۔جنگ یمامہ کذاب کے دعویٰ نبوت کے نتیجے میں لڑی گئی جس میں بہت سے صحابہ کرامؓ شہید ہوئے لیکن اس فتنے کو مکمل مٹا ڈالا گیا۔ خلیفہ اوّل سیدّنا ابو بکر صدیقؓ خطبہ دے رہے تھے: ’’لوگو! مدینہ میں کوئی مرد نہ رہے، اہل بدر ہوں یا اہلِ احد، یمامہ کا رخ کرو‘‘۔ بھیگتی آنکھوں سے وہ دوبارہ بولے: ’’مدینہ میں کوئی نہ رہے حتیٰ کہ جنگل کے درندے آئیں اور ابوبکر کو گھسیٹ کر لے جائیں‘‘۔صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ اگر حضرت علی المرتضیٰ، سیدّنا صدیقِ اکبرؓ کو نہ روکتے تو وہ خود تلوار اٹھا کر یمامہ کا رخ کرتے۔ 

ہزار کے مقابل بنو حنفیہ کے جنگجو اسلحہ سے لیس کھڑے تھے۔ جنگِ یمامہ وہ جنگ تھی جس کے متعلق اہلِ مدینہ کہتے تھے بخدا ہم نے ایسی جنگ نہ پہلے کبھی لڑی نہ بعد میں لڑی۔ ختمِ نبوت کے دفاع میں صحابہ کرامؓ کٹے جسموں کے ساتھ مقتل میں پڑے تھے۔انصار کا وہ سردار ثابت بن قیس جس کی بہادری کے قصّے عرب و عجم میں مشہور تھے اس کی زبان سے جملہ ادا ہوا: اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برات کا اظہار کرتا ہوں۔ چشمِ فلک نے وہ منظر دیکھا جب وہ اکیلا ہزار کے لشکر میں گھس گیا اور اس وقت تک لڑتا رہا جب تک اس کے جسم پر کوئی ایسی جگہ نہ بچی جہاں شمشیرو سناں کا زخم نہ لگا ہو۔ عمر بن خطابؓ کے بھائی زید بن خطابؓ جو اسلام لانے والوں کی صفِ اوّل میں شامل تھے انہوں نے مسلمانوں میں آخری خطبہ دیا ’’واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک انہیں شکست نہ دے دوں یا شہید نہ ہو جاؤں‘‘۔ بنو حنفیہ کا باغ حدیقتہ الرحمان میں اتنا خون بہا کہ اسے حدیقتہ الموت کہا جانے لگا، اس باغ کی دیواریں مثل قلعہ کی تھیں۔ کیا عقل یہ سوچ سکتی ہے کہ ہزاروں کا لشکر ہو اورحضرت برابن مالکؓ کہیں: ’’اے مسلمانو! اب ایک ہی راستہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر قلعے میں پھینک دو، میں تمہارے لیے دروازہ کھولوں گا‘‘۔ انہوں نے دیوار پر کھڑے ہوکر منکرین ختم نبوت کے اس لشکر کو دیکھا اور پھر تن تنہا اس قلعے میں چھلانگ لگا دی قیامت تک جو بھی بہادری کا دعویٰ کرے گا یہاں وہ بھی سر پکڑ لے گا! ایک اکیلاشخص ہزاروں سے لڑرہا تھا۔ اس نے دروازہ بھی کھول دیا اور پھر مسلمانوں نے منکرین ختم نبوت کو کاٹ کر رکھ دیا۔ 

 خاتم الانبیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا آئے لیکن دنیا آج ان میں سے اکثر کے ناموں سے بھی آگاہ نہیں۔ قرآن مجید سے پہلے بہت سی کتابیں نازل ہوئیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں۔ جبکہ نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والا قرآن اور اس کا ایک ایک حرف محفوظ ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ آپ ﷺ کی شریعت کو محفوظ رکھا گیا جبکہ آپﷺ سے پہلے انبیا کی شریعت یا تو مٹ گئیں یا ان میں اس قدر ردّ و بدل ہو گیا کہ وہ اپنی اصل صورت میں موجود نہیں۔ آپﷺ کی سیرتِ مطہرہ کا ایک ایک پہلو روزِ روشن کی طرح واضح ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضور نبی کریم ﷺہی سے قیامت تک لوگ ہدایت پائیں گے اس پر نبی کریم ﷺکا درج ذیل فرمان مہرِ تصدیق ثبت کرتا ہے:ترجمہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(صحیح بخاری ، صفحہ633)

قادیانیت ایک بہت بڑے فتنے کی صورت میں نمودار ہے۔ پس ہر صاحب ایمان کے ذمہ ہے کہ و ہ اس کے سدباب کی کوششوں میں شریک ہو۔ عقیدہ ختمِ نبوت پر ثابت قدم رہیں بلکہ اس کے تحفظ کیلئے بھی سرتوڑ کوششیں کریں ۔اللہ تمام مسلمانوں کو عقیدہ ختم نبوت پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور نبی کریم ﷺ کی روز محشر شفاعت عطا فرمائے۔ (آمین)

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دَورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔