سوء ادب

تحریر : ظفر اقبال


پاگل خانہ :انسان ایک ایسی عجیب الطبع مخلوق ہے جو انتہائے غم سے بھی پاگل ہو جاتی ہے اور انتہائے خوشی سے بھی، اِس لیے پاگلوں کی سہولت کیلئے حکومت نے بڑے شہروں میں پاگل خانے قائم کر رکھے ہیں جہاں اِن کی خاطر تواضع کی جاتی ہے ۔

ایک بار برطانیہ کے وزیرِ اعظم سرونسٹن چرچل نے ایک پاگل خانے کا دورہ کیا جنہیں ایک پاگل سے ملایا گیا تو چرچل نے اُ س سے پوچھا ،تمہارا کیا نام ہے ؟جس پر پاگل بولا پہلے تم اپنا نام بتائو، جس پر چرچل نے کہا میرا نام ونسٹن چرچل ہے اورمیں برطانیہ کا وزیرِ اعظم ہوں جس پر پاگل بولا  ’’میں جب پہلی بار یہاں آیا تھا تو میں نے بھی اپنا تعارف اسی طرح کروایا تھا !‘‘

اُس کے بعد مسٹر چرچل کو مختلف پاگلوں کے کمروں کے سامنے لایا گیا ۔چرچل نے دیکھا کہ ایک پاگل بلند آواز سے آہ و بُکاکر رہا ہے اور ساتھ ساتھ غلیظ گالیاں بھی دے رہا ہے، چر چل نے اِس کے بارے تفصیل چاہی تو اُنہیں بتایا گیا کہ اِس کو ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھا جس کے ساتھ اِس کی شادی نہ ہو سکی تو یہ پاگل ہو گیا۔ اُس سے اگلے کمرے کے سامنے جب وہ پہنچے تو چرچل نے دیکھا کہ وہ پاگل زور زور سے رو رہا ہے او ر دیوار سے ٹکریں بھی مار رہا ہے ۔چرچل نے جب اِ س کے بارے میں پوچھا تو اُنہیں بتایا گیا کہ اُس لڑکی سے اِس کی شادی ہو گئی تھی !

صحافی کی خدمت 

ایک صحافی کسی کام کے سلسلے میں پاگل خانے آیا تو اُس نے دیکھا کہ بہت سارے پاگل موٹر سائیکل چلانے کا ایکشن بناتے ہوئے اور پھٹ پھٹ پھٹاہ ،پھٹ پھٹ پھٹاہ اور پھٹ پھٹ پھٹاہ کر تے ہوئے دائرے میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔صحافی نے وہاں کھڑے ایک اہلکار سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہیں تو اُس نے بتایا کہ یہ اِن کی تفریح کا وقفہ ہے اور یہ دل پشوری کر رہے ہیں ۔کوئی آدھ گھنٹے کے بعد وہ صحافی جب واپس آیا تو وہاں کوئی پاگل نہیں تھا او ر گیٹ پر ایک شخص کھڑا تھا جس نے صحافی سے پوچھا، تمہارے پاس سواری نہیں ہے ؟تو صحافی نے جواب دیا کہ نہیں جس پر وہ شخص بولا اتنی تیز دھوپ میں تم پیدل کیسے جائو گے ؟جس پر صحافی بولا کوئی بات نہیں میرا دفتر زیادہ دور نہیں ہے میں چلا جائوں گا جس پر وہ شخص بولا  ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ہمارے ہوتے ہوئے تم اتنی تیز دھوپ میں پیدل کیسے جا سکتے ہو ،آئو میرے پیچھے بیٹھو پھٹ پھٹ پھٹ پھٹاہ،پھٹ پھٹ پھٹ پھٹاہ،پھٹ پھٹ پھٹ پھٹاہ!!!

سہ ماہی معاصر انٹرنیشنل 

مُدیرِاعلیٰ نام ور مزاح نگار اور شاعر عطا الحق قاسمی کا یہ جریدہ چند برس آرام کرنے کے بعد ایک بار پھر شائع ہونا شروع ہو گیا ہے ۔معیار کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اِس کیلئے عطاالحق قاسمی کا نام ہی کافی ہے جبکہ شریک مدیر ،ڈاکٹر عائشہ عظیم اورمودیرکے طور پرجیّدادیب او ر شاعر اقتدار جاوید بھی اِن کے ساتھ شامل ہو گیا ہیں جس کا مطلب ہے سونے پر سہاگا۔اِس شمارے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اِس میں نام ور شُعرء  کے گوشے شامل کیے گئے ہیں جن میں اُن کا مختصر تعارف اور کم و بیش دس دس غزلیں شائع کی گئی ہیں اور جن میں خاکسار کے علاوہ فیصل عجمی ،نذیر قیصر اور قمر رضا شہزاد شامل ہیں اِس کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اِس میںانتساب بھی شامل ہے جو اجمل شاہ دین کے نام ہے اور جو بہت اچھا لگا ہے ۔علاوہ ازیں اِس شمارے میں حمد و نعت، سلام ،مقالے ،افسانے ،تحقیق ، آپ بیتی تراجم اور مزاح شامل ہیں اِس کے لکھنے والوں میں فیصل عجمی ،گلزار بخاری ،عطا الحق قاسمی ،احمد جاوید ،ڈاکٹر انوار احمد ،اصغر ندیم سید ،محمد حمید شاہد ،ناصر عباس نیر ،ڈاکٹر ضیا الحسن ،یونس جاوید، آغا گُل ،خالد فتح محمد ،عرفان جاوید ،عنبرین حسیب عنبر ،ڈاکٹر نجیب جمال ،محمد اظہار الحق ،علی محمد فرشی ،فرخ یار، علی اصغر عباس ،غافر شہزاد ،علی تنہا ،وجاہت مسعود ،شہاب صفدر ،سحر انصاری، انور شعور ،خورشید رضوی ،عرفان صدیقی،ڈاکٹر انعام الحق جاوید ، طارق نعیم، ناصرہ زبیری ،افضال نوید ،حمیدہ شاہین ،نیلما ناہید دُرّانی ، رستم نامی ،قمر ریاض ،گُلِ نوخیز اختر اور دیگران شامل ہیں گیٹ اپ عمدہ، صفحات 488اورقیمت 1200 روپے ہے ۔

اور اب آخر میں اسی شمارے میں شامل فیصل عجمی کی یہ خوبصورت غزل !

یہ وہم یہ گمان کسی دوسرے کاہے 

تیرا نہیں ہے دھیان کسی دوسر ے کا ہے 

آوارگاں کے خیمہ ٔ  نابود کے سوا 

یہ سارا خاک دان کسی دوسرے کا ہے 

میرا قیام اِس میں ہے مہمان کی طرح 

یہ جسم کا مکان کسی دوسر ے کا ہے

جائے گی کس طرف کو کسی کو خبر نہیں 

کشتی میں باد بان کسی دوسر ے کا ہے 

اوپر کے سب مرے ہیں جو آتے نہیں نظر 

یہ پہلا آسمان کسی دوسر ے کا ہے 

رہنے کو رہتا ہے سگِ درویش میرے ساتھ 

ویسے یہ مہربان کسی دوسر ے کا ہے 

بڑھتا ہی جار ہا ہے مرا مجھ سے فاصلہ 

اب ہاتھ درمیان کسی دوسر ے کا ہے 

آج کا مطلع 

خدا کا حکم ہے اور یہ عبادت کر رہا ہوں 

جو اُس کے ایک بندے سے محبت کر رہا ہوں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔

پہلیلیاں

نازک نازک سی اِک گڑیاکاغذ کے سب کپڑے پہنےدھاگے کے سب زیور گہنےسیدھی جائے، مڑتی جائےپری نہیں، پر اڑتی جائے(پتنگ)