نرمی :انتہائی پسندیدہ اخلاقی وصف

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان


’’(اے حبیب) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ﷺ ان کیلئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ ﷺ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپﷺ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘(آل عمران:159) رسول اللہ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اور آپﷺ سے معاملہ کرنا بڑا آسان ہوتا تھا (حدیث)

نرمی اسلام میں نہایت پسندیدہ اخلاقی وصف ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس وصف کو مومنوں کے ساتھ خاص کیا ہے، احادیث نبویﷺمیں اس صفت کو ابھارا گیا ہے، کیونکہ یہ مسلمان کی انفرادی زندگی کو بھی مزیّن بناتی ہے اور اجتماعی زندگی پر بہت مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ جس کو نرم خوئی حاصل ہوئی اسے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت مل گئی، جو اس کی دنیا اور آخرت دونوں کیلئے بہت فائدہ مند ہے۔

نرمی ایک قلبی وصف ہے جو تمام انسانوں کو میسر نہیں آتابلکہ یہ انسانوں کے فرق کے لحاظ سے مختلف درجوں میں پایا جاتا ہے۔جن لوگوں کو نرمی کی صفت ملی انہیں بہت خوبصورت عطائے ربانی حاصل ہوئی۔ نرم دل انسان صرف انسانوں سے ہی نرمی نہیں برتتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کیلئے نرم دل ہوتا ہے۔سخت روی، سنگ دلی اور قساوت، یہ صفت لوگوں کے دلوں میں دوری پیدا کرتی ہے اوریہ تعمیر کی بجائے تخریب اوراصلاح کی بجائے فساد کی راہ ہموار کرتی ہے۔انسانوں میں تند خو،سخت گیر اور متکبر لوگ جن کا دل قساوت اور شدت سے بھرا ہوتا ہے، تباہی،بربادی اور مسمار کرنے کا سبب بنتے ہیں، قرآن میں ان کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے: ’’جب انہیں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسلِ انسانی کو تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا‘‘(البقرہ:5)۔

اسلام باہمی معاملات میں نرم رویہ اختیار کرنے کولازم قراردیتاہے، اس صفت کا ذکر اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی کیا صفت تھی جس نے مومنوں کے دلوں کو ان سے جوڑ دیا: ’’(اے حبیبِ ﷺ) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپﷺ ان کیلئے نرم طبع ہیں اور اگر آپﷺ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپﷺ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘(آل عمران)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کئی حقائق کی جانب اشارہ فرماتے ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق میں پیدا کی اور یہ ان میں نرم دلی، آسانی اور رحیمانہ صفات ہیں،جن کی بنا پر دل ان کی جانب لپکتے ہیں اور لوگ ان سے الفت برتتے ہیں۔

اسی نرمی اور شفقت کی صفت کا ذکر سورۃ التوبہ میں فرمایا: ’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (ﷺ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کیلئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں‘‘(التوبہ:128)۔ یعنی جہاد جیسے مشکل کام کیلئے اس کا تمہیں بلانا بھی اس کی تم پر مہربانی اور شفقت ہے کیونکہ تمہارا ذلت اور پستی میں پڑنا اسے گوارا نہیں، اور وہ اس بڑے عمل کے ذریعے تمہاری مغفرت اور گناہوں کی معافی چاہتا ہے۔

سورۃ الشعراء میں رسول اللہﷺ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ‘‘(الشعراء : 215)  یعنی ان سے نرمی برتیے اور اپنی بانہوں کو ان کی جانب جھکا دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ تمام عمر اپنے اصحاب کے ساتھ اسی طرح رہے۔

 نرم اور سہل کلام وہ ہوتا ہے جو احترام سے پر، جس میں فحش کلامی یا تکبر نہ ہو، اس میں سختی اور شدّت نہ ہو کیونکہ انسان نرم کلام سُننے پر زیادہ آمادہ ہوتا ہے اور سخت کلام مخاطب کو فرار کا راستہ دکھا دیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپﷺ سے کہا: السام علیکم، تو حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا: اور تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ آپﷺنے فرمایا: رک جاؤ عائشہؓ، نرمی اختیار کرو اور سختی اور فحش کلامی سے گریز کرو، وہ بولیں: آپﷺنے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ آپﷺ نے فرمایا: تم نے سنا نہیں کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا، میں نے جو انہیں جواب دیا وہ ان کے حق میں قبول ہو گیا اور جو انہوں نے میرے بارے میں کہا وہ قبول نہ ہو گا‘‘ (صحیح بخاری:2935)۔

حضرت جریر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم ہو گیا‘‘ (صحیح مسلم:2592)۔جو شخص اپنے نفس پر نرمی نہیں برتتا وہ دوسروں کے ساتھ بھی نرم خوئی سے پیش نہیں آتا، لہٰذا وہ بہت سی خیر سے محروم رہتا ہے، آدمی کی سختی اور ترش روی اسے دوسرے انسانوں سے دور کر دیتی ہے اور وہ خیر سے محروم ہو جاتے ہیں، جبکہ نرمی حلیمی اور وسعت ِ دل آدمی کیلئے خیر کی راہیں کھول دیتے ہیں، اس لئے جو شخص خیر کا طالب ہے اسے اپنے اندر نرمی پیدا کرنی چاہئے، تاکہ وہ خیر حاصل کر سکے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ’’اے اللہ، جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا پھر اس نے ان پر سختی کی تو، تو بھی اس سے سختی برت اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ولی (ذمہ دار یا صاحبِ امر) بنا ،پھر اس نے ان سے نرمی برتی تو، تو بھی اس سے نرمی برت‘‘ (صحیح مسلم،حدیث1828)۔

اللہ رب العزت کا عظیم احسان ہے کہ اس نے حضور نبی اکرمﷺ کی ذات کی صورت میں اپنی رحمت کا عظیم عکس عطافرمایا کہ آپﷺ سراپا رحمت ہیں اور آپ ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپ ﷺ کی طبیعت نرم تھی اور برتاؤ میں سختی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ ﷺ کی طرف رغبت اور شوق رکھتے اور جو آپ ﷺ کے حلقہ میں آجاتا تھا، پھر وہ آپ ﷺ سے بھاگ کر دور نہیں جاتا تھا ۔

 اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’کسی بھی طرزِ عمل، رویے یا معاملے میں اگر نرمی آجائے تویہ نرمی اُس عمل کو نہایت خوبصورت اور مزین بنا دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عمل اور رویے سے نرمی نکل جائے اور اس کی جگہ سختی آجائے تو وہ اچھے سے اچھے عمل کو بھی بدصورت اور کم درجہ بنا دیتی ہے۔ (صحیح مسلم: 254)۔ گویا نرمی، عمل کو حسین کر دیتی ہے اور سختی عمل کا حُسن چھین لیتی ہے۔

حضرت ابو درداءؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو اُس کی طبیعت اور مزاج میں نرمی کا جتنا حصہ عطا ہو جائے، اُس قدر اُسے خیر کا حصہ مل جاتا ہے اور جس شخص کی طبیعت اور مزاج سے جتنی نرمی کم ہوتی چلی جائے، اْس بندے کی زندگی اور شخصیت سے اُتنی ہی خیر کم ہوتی چلی جاتی ہے (جامع ترمذی:2013)

ہمارے ہاں عمومی طور پر دو طبقات پائے جاتے ہیں ،ایک طبقہ وہ ہے جو دین، اطاعت اور عبادت سے دور ہے، دوسرا طبقہ وہ ہے جو دین پر عمل کرتا ہے، مذہبی مزاج رکھتا ہے، دین کے اعمال، عبادات اور اطاعات بجالاتا ہے مگر اس کا پورا زور دین کی ظاہری و رسمی شکل و صورت پر رہتا ہے۔طبیعت کے اندر نرمی و شفقت اس کے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم عبادت و اطاعت کے عمل کے ساتھ حقوق العباد کے درجے میں کس قدر شفقت اور نرمی کے ساتھ عمل کرتے ہیں؟ عشقِ رسول ﷺ اور اطاعت و اتباعِ رسول ﷺ کا دم بھرنے والوں کی گفتگو میں کتنی نرمی، ملاطفت، دلجوئی، محبت اور شفقت ہوتی ہے؟۔ ہم عبادت کرتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں اور دیگر دینی اعمال اور اطاعات بجائے لاتے ہیں مگر افسوس کہ مزاج میں سختی اور زبان میں کرختگی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے لفظ دوسروں کو دکھ دینے والے، ہمارے رویّے دل جلانے والے اور دوسروں کی طبیعت کو مایوس کرنے والے ہوتے ہیں۔

ہم نے نبی کریمﷺ کے مذکورہ فرمان پر غور ہی نہیں کیا کہ جس شخص کی طبیعت اور مزاج میں جتنی نرمی، شفقت اور محبت بڑھتی چلی جائے، اُس کی زندگی میں خیر کا اتنا حصہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور جتنی نرمی کم ہوتی چلی جائے یعنی لب و لہجہ، اندازِ گفتگو اور رویّہ جتنا سخت ہوتا چلا جائے، اُتنی خیر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ 

نبی کریمﷺکے نرمی وشفقت کے مظاہر

ذیل میں حضور نبی اکرمﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور شخصیتِ مقدسہ کے تناظر میں کچھ بنیادی اخلاقی اصول ذکر کیے جارہے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم دین کی اصل روح تک پہنچ سکتے ہیں۔

 چہرے پربشاشت وکشادگی:امام ترمذی ؒ حضورنبی کریمﷺکی سیرت مبارکہ کوبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے چہرہ اَقدس پر ہمیشہ کْشادگی اور بشاشت رہتی تھی۔ آپ ﷺ کے اَخلاق اور برتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی، اور آپﷺ سے معاملہ کرنا بڑا آسان ہوتا تھا (شمائل محمدیہ:352)۔

 دوسروں کی مدد کرنا:آپﷺ کی ذات مبارکہ میں نرمی و شفقت دوسروں کی مدد کے تناظر میں بھی ہمیشہ عروج پر رہتی۔ آپ ﷺ کے صحابہ اور غلاموں میں سے اگر کوئی کسی مشکل یا مصیبت میں آپ ﷺ کو مدد کیلئے پکارتا تو آپﷺ پکارنے والے کو جواباً لبیک کہتے۔ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓروایت کرتی ہیں، رسول اللہﷺ سے زیادہ حسنِ اخلاق والا کوئی نہیں تھا، صحابہ کرامؓ میں سے یا اہلِ بیت میں سے جب بھی کوئی آپ ﷺ کو پُکارتا تو آپﷺ فرماتے: میں موجود ہوں، اِسی لیے اللہ رب العزت نے یہ آیت نازل فرمائی ’’آپﷺ خُلقِ عظیم کے بلند مرتبے پر فائز ہیں‘‘ (دلائل النبویہ:119)۔

دوسروں کو شرمندگی سے بچانا: حضورنبی اکرم ﷺدوسروں کے احساسات کا بھی خیال کرتے۔حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ اگر کسی سے کوئی نامناسب کام ہو جاتا تو آپﷺ اُس کام کرنے والے کو موردِالزام نہیں ٹھہراتے تھے۔ یہ نہیں کہتے تھے کہ تم نے یہ کیا کر دیا، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ فرماتے تھے ، اللہ کو ایسا ہی منظور تھا(اخلاق النبی وآدابہ ، 1/192)۔

 دوسروں کی دلجوئی کرنا: ہمارے د ین میں دلجوئی کی بڑی اہمیت ہے۔ کسی انسان کی دلجوئی کرنا بڑے اجر کا باعث ہے۔ ایسا کرنے سے جہاں آخرت اچھی ہوتی ہے وہیں معاشرے میں بھی بہترین فضا قائم ہوتی ہے۔ رسول کریمﷺنے فرمایا: ’’اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرنا ہے‘‘ (معجم الکبیر: 11079)۔

سائل کوکبھی انکارنہ کیا:آپﷺ کی پوری حیات طیبہ میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا کہ کسی سائل نے نبی کریم ﷺسے کچھ مانگا ہو اور آپ ﷺ نے جواب میں انکار فرما دیا ہو۔ آپ ﷺ کا غرباء و مساکین پرشفقت کاعالم یہ تھاکہ جس نے جو کچھ مانگا حضورﷺ نے اُسے عطا کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : 3699)

گناہگاروں پر شفقت و نرمی: جو لوگ کسی گناہ یامعصیت کی وجہ سے سزا کے مستحق ہوتے تو اُن لوگوں پر اللہ کی حد نافذ کرتے ہوئے بھی نبی کریمﷺ کا رویہ نرمی اور شفقت پر مبنی تھا۔ حضرت بریدہ ؓسے ہی مروی ہے کہ ایک غامدیہ عورت نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کر دیجئے۔ آپﷺ نے اْسے واپس بھیج دیا۔ دوسرے دن آ کراُ س نے پھر عرض کیا،خدا کی قسم! میں زنا سے حاملہ ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:اچھا، اگر ایسا ہے تو پھر ابھی نہیں، واپس جاؤ اور بچہ پیدا ہونے کے بعد آنا۔بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ عورت اُس بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اورعرض کیا: لیجئے، یہ میرا بچہ پیدا ہو گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: جاؤ جا کر اِسے دودھ پلاؤ، حتیٰ کہ اِس کی مدتِ رضاعت ختم ہو جائے۔ جب بچے کی مدتِ رضاعت ختم ہو گئی تو وہ اُسے اِس حال میں لے کر آئی کہ اُس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس نے عرض کیا: لیجئے! یا نبی اللہﷺ! اِس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپﷺ نے وہ بچہ ایک مسلمان شخص کے حوالے کیا اور پھر اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ دورانِ رجم حضرت خالد بن ولید ؓ نے اْس عورت کو برا بھلا کہا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے خالد! ایسا نہ کہو، اِس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر (ظلماً) خراج لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اُسے بخش دیا جاتا۔ پھر آپ ﷺ نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اُسے دفن کر دیا گیا (صحیح مسلم، حدیث1695)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح یاب

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کے بعد شاہینوں نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ انگلش شیروں کو بے بس کر دیا۔

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔