پاکستان انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح یاب

تحریر : محمد ارشد لئیق


تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کے بعد شاہینوں نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ انگلش شیروں کو بے بس کر دیا۔

 ملتان میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ کے بعد پنڈی ٹیسٹ بھی جیت کر پاکستان نے سیریز 2-1 سے اپنے نام کر لی۔ دونوں ہی میچوں میں سپنر نے ایسا جادو کیا کہ انگلش بلے باز بیٹنگ کرنا ہی بھول گئے۔ 

پاکستان نے انگلینڈ کو راولپنڈی ٹیسٹ میں 9 وکٹوں سے شکست دے کر انگلینڈ کے خلاف 9 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیتی جبکہ قومی ٹیم کو ساڑھے 3 سال بعد ہوم سیریز میں کامیابی ملی، پاکستان نے آخری ہوم سیریز 2021ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف جیتی تھی۔ قومی ٹیم نے جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر 2 میچز کی سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔پاکستان کو انگلینڈ کے خلاف آخری بار 2015 میں متحدہ عرب امارات کے میدان میں مصباح الحق کی قیادت میں کامیابی ملی تھی۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے ملک سے باہر آخری ٹیسٹ سیریز گزشتہ سال سری لنکا کے خلاف جیتی تھی، اس سے پہلے بنگلہ دیش کو بھی ان کے گھر میں 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں آؤٹ کلاس کیا تھا جبکہ اپریل اور مئی 2021ء میں بیرون ملک سیریز میں زمبابوے کو بھی دونوں میچز میں زیر کیا تھا۔

اب راولپنڈی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔ انگلینڈ نے پہلی اننگز میں 267 رنز بنائے جس کے جواب میں قومی ٹیم نے 344 رنز بناکر 77 رنز کی برتری حاصل کی تاہم دوسری اننگز میں انگلش بیٹنگ لائن لڑکھڑا گئی اور 112 رنز پر پوری ٹیم پویلین لوٹ گئی، میزبان ٹیم کو تیسرا ٹیسٹ اور سیریز جیتنے کیلئے 36 رنز کا ہدف ملا جو ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کیا۔ پاکستان کی جانب سے دوسری اننگز کا آغاز صائم ایوب اور عبداللہ شفیق نے کیا، صائم دوسرے ہی اوور میں 8 رنز بنانے کے بعد جیک لیچ کا شکار بن گئے تاہم کپتان شان مسعود نے 6 گیندوں پر 23 رنز کی جارحانہ اننگز کھیل کر مزید کوئی وکٹ گنوائے بغیر میچ اور سیریز میں کامیابی حاصل کر لی۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 3 ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کے تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں سعود شکیل کی 134 رنز کی اننگز، اسپنر ساجد خان کی 10 اور نعمان علی کی 9 وکٹوں نے پاکستان کی پوزیشن مستحکم کی۔

یاد رہے کہ انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں ساجد علی اور نعمان علی تمام 20 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو فتح سے ہمکنار کروایا تھا جبکہ راولپنڈی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں بھی دونوں نے 19 وکٹیں حاصل کیں اور ایک وکٹ لیگ اسپنر زاہد محمود کے حصے میں آئی، یوں دونوں ٹیسٹ میچز میں اسپنرز نے 20،20 وکٹیں اڑائی۔

کھیل کے تیسرے روز انگلینڈ نے 24 رنز پر 3 کھلاڑی آؤٹ سے اپنی نامکمل اننگز کا آغاز کیا، مہمان ٹیم کا دوسری اننگز کا آغاز انتہائی مایوس کن رہا، زیک کرالے 2، بین ڈکٹ 12 اور اولی پوپ صرف ایک رن بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔ہیری بروک نے کچھ مزاحمت دکھائی لیکن وہ بھی 26 رنز پر اپنی وکٹ گنوا بیٹھے، کپتان بین اسٹوکس صرف 3 رنز کے مہمان ثابت ہوئے، تجربہ کار انگلش بلے باز جو روٹ کی ہمت بھی 33 رنز پر جواب دے گئی۔پہلی اننگز میں 89 رنز کی اننگز کھیلنے والے جیمی اسمتھ صرف 3 رنز بناکر پویلین واپس لوٹ گئے، ریحان احمد 7، گس ایٹکنسن 10 رنز بناکر آؤٹ ہوئے۔ قومی ٹیم کی جانب سے نعمان علی نے 6 اور ساجد خان نے 4 وکٹیں حاصل کی۔

کپتان شان مسعود نے کہا سیریز جیتنے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میری کپتانی میں مسلسل 6 میچز ہارنے کے بعد طویل عرصے بعد سیریز میں جیت پر خوشی ہوئی جس کا کریڈٹ پاکستانیوں کو دینا چاہتا ہوں۔ ماضی میں اس طرح کی پچز نہیں بنائی گئیں لیکن ہمیں ہر قسم کی کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ ٹاپ ٹیسٹ ٹیم بننے کیلئے صرف اسپن نہیں بلکہ ہر قسم کی کنڈیشنز پر 20 وکٹیں بھی لینا ہوں گی اور رنز بھی اسکور کرنا ہوں گے کیوں کہ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں 3 ٹیسٹ سیریز ہوم اور 3 اوے ہوتی ہیں تو ہمیں اس کیلئے تیار رہنا ہوگا۔سیریز کے دوران کپتان، صائم ایوب اور عبداللہ شفیق کی ناقص کارکردگی سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اگر جیت کے باوجود آپ منفی باتیں کریں گے تو اس کا کیا جواب دیا جائے، یہ کسی ذاتی کھلاڑی کا گیم نہیں بلکہ یہ ایک ٹیم گیم ہوتا ہے۔

شان مسعود نے کہا کہ بنگلہ دیش کے خلاف فاسٹ باؤلنگ وکٹیں اور یہاں اسپن وکٹیں بناکر ہمارے بلے بازوں نے قربانی دی کہ ہمارا اسکور نہ بنے لیکن ہم 20 وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔یہ کہنا بہت آسان ہوتا ہے کہ فلاں نے کچھ نہیں کیا اور فلاں ناکام رہا لیکن ہم ایسا نہیں دیکھتے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے ٹیم کیلئے کتنا اہم کردار ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب سے ٹیسٹ چیمپئن شپ کا آغاز ہوا ہے، سب سے کم رنز اوپنرز کے بن رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے جب کہ صائم ایوب اور عبداللہ شفیق ہمارا مستقبل ہے اگر ہم اپنے کھلاڑیوں کی سپورٹ نہیں کریں گے تو پھر مسلسل تبدیلیاں ہوتی رہیں گی۔ساجد خان اور نعمان علی کو ٹیم میں واپس لانے سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں قومی کپتان نے کہا کہ پہلے میچ کی شکست کے بعد کوچنگ اسٹاف، سلیکٹرز سب ساتھ بیٹھے اور یہ فیصلہ ہوا لیکن اس میں زیادہ کریڈٹ نئی سلیکشن کمیٹی کو جاتا ہے۔ وہ پہلے بھی ٹیم کا

سعود شکیل پنڈی ٹیسٹ کا مرد بحران

راولپنڈی ٹیسٹ میچ میں جب قومی ٹیم لڑکھڑائی اور ایک کے بعد ایک کھلاڑی پویلین لوٹنے لگا تو ایسے میں  بائیں ہاتھ  سے بلے بازی کرنے والے سعود شکیل انگلش بائولر کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ دوسرے اینڈ پر بدلتے کھلاڑیوں کے ساتھ انہوں نے مختلف پارٹنرشپ قائم کیں اور اپنے سکور کو آہستہ آہستہ آگے بڑھاتے چلے گئے ۔ سعود شکیل نے 26 رنز پر ڈراپ ہونے والے کیچ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور شاندار سنچری مکمل کی۔سعود شکیل نے 5 چوکوں کی مدد سے 134 رنز کی شاندار اننگز کھیلی اور گس ایٹکنسن کی گیند پر وہ آسان کیچ دے بیٹھے۔

 5ستمبر1995ء کو کراچی میں پیدا  ہونیوالے سعود شکیل بائیں ہاتھ سے بیٹنگ اور بائولنگ کرنے والے آل رائونڈر کھلاڑی ہیں۔ وہ 15 ٹیسٹ اور 15 ایک روزہ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ انڈر 19 میں بھی پاکستان کی طرف سے کھیل چکے ہیں جبکہ پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی طرف سے کھیلتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔

پہلیلیاں

نازک نازک سی اِک گڑیاکاغذ کے سب کپڑے پہنےدھاگے کے سب زیور گہنےسیدھی جائے، مڑتی جائےپری نہیں، پر اڑتی جائے(پتنگ)