یادرفتگاں: کرنل(ر) محمد خان

تحریر : پروفیسرصابر علی


تعارف: پاکستان کے نامور مزاح نگاروں میں شامل کرنل محمد خان 5 اگست 1910ء کو ضلع چکوال کے قصبے بلکسر میں پیدا ہوئے۔ 1927ء میں میٹرک فرسٹ ڈویژن میں کی اور رول آف آنر حاصل کیا۔ 1929ء میں ایف ایس سی ،1931ء میں بی اے بھی نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ اس کے بعد فارسی میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ غالباً یہ وہ وقت تھا جب ان کی زبان دانی کو جِلا ملی ۔

 لیکن ابھی قسمت نے ان کیلئے تعلیمی میدان کی حدود کا تعین نہیں کیا تھا کیونکہ فوج میں کمیشن اور آئی سی ایس کے امتحان کیلئے عمر کی قید آڑے آ رہی تھی۔ پھر انھوں نے سوچا کہ اپنی طلبِ علم کی پیاس کو بجھائیں۔ سو انہوں نے پنجاب یونیوسٹی میں ایم اے (اقتصادیات) میں داخلہ لے لیا جس کی ڈگری انہوں نے1934ء میں حاصل کی۔1940ء میں فوج میں تعینات ہوئے اور1957 میں ڈارئریکٹر آرمی ایجوکیشن کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1969ء میں سبکدوش ہوئے۔ان کی اہم تصانیف میں بجنگ آمد (1966)، بسلامت روی (1975)، بزم آرائیاں (1980) اور بدیسی مزاح شامل ہیں۔ ان کا انتقال23 اکتوبر1999ء کو ہوا۔

ضلع جہلم کے سنگلاخ، نیلے بھورے کوہستانوں میں سمٹتی اور پھیلتی ہوئی وادی، جس میں کرنل محمد خان پیدا ہو کر پروان چڑھے ایک خاص وضع و انداز کے ’’ محمد خانوں‘‘ کی سرزمین ہے۔ بقول سید ضمیر جعفری یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ محمد خان اوّل نے کس زمانے میں اس دھرتی پر قدم رکھا تھا، البتہ گردش ایام کی رکاب تھام کر جتنی دور بھی پیچھے کی طرف دوڑ سکا ہوں، ہر پشت کا پیشہ سپہ گری نظر آتا ہے۔ زراعت میں ملی ہوئی سپہ گری، اپنی مخصوص روایات میں دَھن کا یہ دَھنوان خطہ، جیالے سپاہی، جی دار کاشتکار اور جہان گندم و جَو کے تابدقار شگوفے پیدا کرنے کیلئے صدیوں سے مشہور و ممتاز چلا آتا ہے۔ آج بھی یہاں کا ہر محمد خان، قریب قریب محمد خان اوّل ہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا نظر آتا ہے۔ وہی تندرست و توانا محمد خان جس کا ایک ہاتھ ہل کی ہتھی پر رہتا ہے اور دوسرا قبضہ، شمشیر پر، جو گبھرو ہونے پر نعرہ لگا کر پہلے عموماً ’’پڑ کوڈی‘‘ کے لمبے چوڑے’’پڑوں‘‘ اکھاڑوں میں دھومیں مچاتا ہے اور پھر وردی پہن کر ’’ڈھول سپاہی‘‘ کے روپ میں وطن عزیز کے مقدس پرچم کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں سنبھال لیتا ہے۔ بانکا، جری، جیالا، سخت جان و سخت کوش۔ اگر گھروں کی پیشانی پر ’’ماٹو‘‘ لکھنے کا رواج ہوتا تو اس وادی کے اونچے نیچے، کچے پکے ہر گھر کے دروازے پر نظیری کا یہ مصرع مرقوم ہوتا :

 کسے کہ کُشتہ نہ شُد از قبیلۂ مَا نیست!

 مگر یہ شیر دل لوگ ’’ماٹو‘‘ لکھنے کے بجائے اپنے خون سے زندگی کی تاریخ لکھنے کے قائل ہیں۔ شعر و ادب کا اُفق یہاں ہمیشہ ہی سے کچھ دُھند لاسا رہا ہے۔قبائے علم و ہنر یہ لوگ کم ہی پہنتے ہیں۔ پہنتے بھی ہیں تو جسم کے اُوپر نہیں پہنتے، روح کے اندر پہنتے ہیں۔ کرنل محمد خان انہیں میں سے تھے۔ ماحول یا ورثے کے اعتبار سے ان کے ادیب بننے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، مگر وہ جو علامہ اقبال ؒ نے کہا ہے : ’’کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی!‘‘تو محمد خان کی شخصیت کی تشکیل کو فطرت ہی کی ’’ حنا بندی‘‘ کا معجزہ سمجھنا چاہیے۔

چنانچہ ان کی ذات میں دو الگ الگ، لیکن اپنی اپنی جگہ پر بھرپور شخصیتیں کار فرما نظر آتی ہیں۔ ایک تو وہی ہل اور تلوار والا محمد خان! کم سُخن و کم آمیز!۔ نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش آذرانہ! ۔ کھیت میں جُت جائے تو چٹانوں سے جُوئے شیر کھینچ لائے، تلوار اُٹھائے تو نہنگوں کے نشیمن تہ و بالا کرکے رکھ دے۔ وطن کا مان، ملت کی آبرو!۔

دوسرا محمد خان وہ ہے کہ اس ساد مرادے دیہاتی نام سے اس کے ذہن و فکر کی شادابی اور بُراقی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ادیب اور انشا پرواز محمد خان ہے۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو! چمن مشرب، بہار ایجاد!۔ خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں!

 مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں محمد خان ایک دوسرے کی نفی نہیں، تائید کرتے ہیں، ایک دوسرے کو کمک پہنچاتے ہیں، کیونکہ دونوں کی جڑیں ایک ہی مٹی میں پیوستہ ہیں۔ محمد خان سپاہی ہو، کاشتکار ہو، ادیب ہو، دوست داری اور مہرو محبت میں دونوں یکساں گرمجوش ہیں۔

دوسری جنگ عالمگیر شروع ہوئی تو علاقہ دھنی کا یہ نیم لفٹین، اپنی روایات کے مطابق فوج کی صفوں میں شامل ہو گیا، لیکن یونیورسٹی کی اپنی تمام تر تعلیم کے باوجود وہ ہنوز ہل اور تلوار والا محمد خان ہی تھا۔ ایک مدت تک بصرہ اور شائبہ، بغداد اور موصل، قاہرہ اور طبروق میں گھومنے کے بعد جب وہ اپنے وطن میں واپس آیا تو ایک محمد خان کے جسم پر میدان جنگ کے تمغوں کی قطار سجی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر سپاہیانہ صلابت کا وقار اور بانکپن روشن تھا لیکن اس عرصے میں اس کے اندر ادیب محمد خان بھی بیدار ہو کر بالغ ہو چکا تھا۔ ادیب محمد خاں الف لیلیٰ کی گلیوں اور مصر کے بازاروں اور شام گیارہ کے صحرائوں سے ، ایک بھرپور سانولی سلونی اجنبی زندگی کے موتی رول لایا تھا۔ خواب، رنگ، روشنیاں ستارے اور مسکراہٹیں! ایک سیلاب بہار۔ ان کی کتاب ’’ بجنگ آمد‘‘  (جو زمانہ جنگ میں گزری ان کی داستان حیات ہے) میں انہیں خوابوں، رنگوں، ستاروں اور مسکراہٹوں کی بارات فروزاں نظر آتی ہے۔

’’بجنگ آمد‘‘ نے اُردو ادب کو مزاح کے ایک بالکل نئے اُفق کی تازہ ہوا اور کشادہ فضا سے آشنا کیا ہے۔ یہ کتاب زندگی کیلئے بیش بہا مسرتوں کا خزینہ اپنے دامن میں رکھتی ہے۔ کرنل محمد خان کو ظرافت تک پہنچنے کیلئے کسی تمہید کا ’’پُل‘‘ نہیں باندھنا پڑتا۔ نہ وہ قہقہوں کے ’’ جزیرے‘‘ آباد کرتے ہیں۔ واقعات کی گردن میں لطائف کی بجتی ہوئی گھنٹیاں بھی وہ آویزاں نہیں کرتے۔ اُن کا لطیف اور لچکیلا مزاج ان کے اسلوب تحریر کا جزو ہے، ان کے نقطۂ نظر کی پیداوار ہے۔ ان کی ظرافت کسی دلآویز خیابان میں ہنستی مسکراتی، گنگناتی ہوئی ندی کی طرح بہتی چلی جاتی ہے اور اپنے بہائو کے طلسم میں کناروں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔

 ان کی دوسری کتاب’’ بسلامت روی‘‘ 1975  میں کیے گئے ایک سفر کا احوال ہے جو کرنل محمد خان نے اپنے روایتی مزاحیہ انداز میں لکھا ہے۔ کتاب کا آغاز ابتدائے احوال سفر سے قبل پاکستان میں پیش آنے والی سرکاری رکاوٹوں سے ہوتا ہے اور سرکاری ایئر لائن کی ہوائی میزبانوں کا نہایت جامع اور دل آویز احاطہ کرتا ہوا کراچی پہنچتا ہے۔ وہاں سے پھر لبنان کی دو روزہ سیاحت، جنیوا کا دو روزہ قیام اور بالآخر برطانیہ کی سہ ماہی مصروفیات تک جا کر دم لیتا ہے تاہم برطانیہ کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ پیرس، فرینکفرٹ، استنبول اور تہران کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

  ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کرنل محمد خان کے بارے میں کہتے ہیں: ’’اردو مزاح کو کرنل محمد خان نے ایک نیا بانکپن اور اندازِ دلبری بخشا ہے، جو صرف انہی کا حصہ ہے‘‘۔ظہیر فتح پوری ا ن کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ مستنصر حسین تارڑ کے بعد کرنل محمدخان ہیں جنہیں ہر جگہ ہر مقام پر کسی نہ کسی حسینہ نے صرف سلام نہیں کیا، سلامِ محبت بھی کیا ہے‘‘۔رشید نثار اپنے ایک تنقیدی مضمون میں ان کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’کرنل محمد خان ہمارے عہد کے ذہین مزاح نگار تھے۔ انہوں نے اپنی ذہانت کو صیغہ راز میں رکھا۔ ایک دن اچانک ان کے قلم نے شاہکار مزاحیہ ادب تخلیق کیا اور یہ باور کرایا کہ فوجی انسان جس کے ذہن میں جنگ اور امن دونوں ساتھ ساتھ آغاز کرتے ہیں، انسانی یک جہتی اور تحفظ کا احساس اوردائمی مفاہمت اور خلوص کی تائید کیلئے تخلیقی مزاح لکھتا ہے۔مزاح کرنل محمد خان کیلئے حسنِ فطرت کا درجہ رکھتا ہے۔

اقتباس: ’’کار بکاؤ ہے‘‘ 

ہم سے پہلے بھی کوئی صاحب گزرے ہیں جنہوں نے بیٹھے بٹھائے بکری پال لی تھی اور پھر عمر بھر اس کے زانو پر سر رکھ کرمنمناتے رہتے تھے۔ ہمیں غیب سے یہ سوجھی کہ اتفاق سے ولایت جارہے ہیں، کیوں نہ وہاں سے نئی کارلائی جائے؟ یعنی کیوں نہ جانے سے پہلے پرانی کار بیچ دی جائے؟ اور یہ سوچنا تھا کہ جملہ اندیشہ? شہر کو لپیٹ کرایک کونے میں رکھ دیا اور کار بیچنا شروع کردی۔ بوٹی بوٹی کرکے نہیں، سالم۔ 

ہمارے کارفروشی کے فعل کو سمجھنے کے لئے کار سے تعارف لازم ہے۔ یہ کاران کاروں میں سے نہ تھی جو خود بک جاتی ہیں۔ اس متاعِ ہنرکے ساتھ ہمارا اپنا بکنا بھی لازم تھا۔ یعنی اس کار کے بیچنے کے لے ایک پنچ سالہ منصوبے کی ضرورت تھی لیکن ہمارے پاس صرف تین دن تھے کہ چوتھے روز ہم نے فرنگ کوپرواز کرجانا تھا۔ سوہم نیاز راہِ مجبوری ایک سہ روزہ کریش پروگرام بنایا،جس کا مختصراورمقفی لبِ لباب یہ تھا۔ آج اشتہار، کل خریدار، پرسوں تیس ہزار! سو ہم نے اشتہاردے دیا۔۔۔  ’’کار بکاؤ ہے۔‘‘ 

’’ایک کار، خوش رفتار، آزمودہ کار، قبول صورت، فقط ایک مالک کی داشتہ، مالک سمندر پارجارہا ہے۔ فون نمبر 62209 سے رابطہ قائم کریں۔‘‘ 

یہ سب کچھ صحیح تھا لیکن جو اس سے بھی صحیح تر تھا۔۔۔ اور جسے ہم اشتہار میں بالکل گول کر گئے تھے۔۔۔ وہ موصوفہ کی عمر تھی جس کا صحیح اندازہ حضرت خضر کے سوا کسی کو نہ تھا۔ وہ طویل مسافت تھی جو محترمہ طے کرتے کرتے لڑکھڑانے لگی تھی اور اس کے اندرونی اعضاء￿  کی وہ باہمی شکر رنجیاں تھیں جنہیں شیر وشکر کرنے میں ممدوحہ کے مالک اور گرد و نواح کے جملہ مستری بے بس تھے۔ 

بی ٹی نامہ

ہم نوا کون سی امید پہ خاموش رہوں 

کس لیے شاہد بی ٹی کی میں پاپوش رہوں 

چیز کیا ہے سگ کالج کہ میں خرگوش رہوں 

کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں 

آج میں بی ٹی لیے دست و گریباں ہوں گا 

ناصحا پاس نہ آنا کہ میں ناداں ہوں گا 

میں تو سمجھا تھا کہ بی ٹی ہے کوئی کار ثواب 

دیکھی اندر سے مگر آ کے جو یہ خانہ خراب 

دل انساں کی نزاکت اسے ملحوظ نہیں 

ہاں شریفوں کی شرافت بھی تو محفوظ نہیں 

ظلم بی ٹی سے خدا جانتا ہے چور ہیں ہم 

جو کہ کیکر پہ چڑھایا تھا وہ انگور ہیں ہم 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دوست وہ جو مشکل میں کام آئے!

کسی جنگل میں ایک درخت پر دو کبوتر نر اور مادہ رہتے تھے۔وہ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزاررہے تھے،کچھ دن پہلے مادہ نے انڈے دئیے تھے اور اب وہ ان پر بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ چند دن تک ان میں سے بچے نکلنے والے تھے۔

قاضی صاحب کا فیصلہ

ایک گائوں میں ارمان نامی آدمی رہتاتھا اُس کے پاس کوئی نوکری نہیں تھی۔ ایک دن اُس نے سوچا کہ وہ نوکری ڈھونڈنے شہر جائے گا۔ اُس کے پاس صرف تین اشرفیاں تھیں۔ وہ اپنے سفر پر نکل گیا۔

مجلس کے آداب

مجلس میں کسی بیٹھے ہوئے آدمی کو اُٹھا کراس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کریں یہ انتہائی بُری عادت ہے۔

سنہری حروف

٭… آپ کا پل پل بدلتا رویہ، آپ سے وابستہ لوگوں کو پل پل اذیت میں مبتلا رکھتا ہے۔

زرا مسکرائیے

ایک لڑکا روتا ہوا گھر آیا،ماں نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ استاد نے مارا ہے۔

پہلیلیاں

نازک نازک سی اِک گڑیاکاغذ کے سب کپڑے پہنےدھاگے کے سب زیور گہنےسیدھی جائے، مڑتی جائےپری نہیں، پر اڑتی جائے(پتنگ)