دیر آیددرست آید
پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی ٹیم میں اسد قیصر اور عمر ایوب اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور بھی شامل ہیں۔ علی امین گنڈاپور اس وقت پارٹی میں سب سے مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں۔ اگرچہ ان کی پارٹی میں مخالفت بھی ہے اور ان کی اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے بیشتر ارکانِ اسمبلی ان پر مکمل اعتبار کرنے کو تیار نہیں لیکن پارٹی کے صوبائی صدر اور ایک صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کی حیثیت سے ان کی بات پارٹی اجلاسوں میں وزن رکھتی ہے۔ اب تک پنجاب اور اسلام آباد میں جتنے بھی احتجاج ہوئے ان کو پارٹی چیئرمین کے بجائے علی امین گنڈاپور ہی لیڈ کرتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا مقتدرہ کیلئے بھی قابلِ قبول ہیں۔ سٹیج پر وہ جو بھی کہیں، پارٹی اجلاسوں میں بھی سخت زبان کا استعمال کریں لیکن وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی سمیت ہر ایک کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ ہفتے پشاور میں ہونے والے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کی ہے جس میں وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے بھی خصوصی طورپر شرکت کی۔ ماضی میں پی ٹی آئی کا اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کے حوالے سے رویہ کافی سخت رہا ، یہی وہ سخت رویہ ہے جس کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھی ہیں۔ مذاکراتی عمل میں یقینا علی امین گنڈاپور کی رائے کو پارٹی اہمیت دے گی۔ اگرچہ پیر کے روز ہونے والی بیٹھک میں وہ شریک نہیں ہوسکے لیکن امید کی جارہی ہے کہ دو جنوری کے اجلاس میں ضرور شریک ہوں گے۔ اسد قیصر کے مطابق مذاکراتی کمیٹی کے بیشتر ارکان عدالتی اور دیگر مصروفیات کی بنا پر شرکت نہیں کرسکے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس مذاکراتی عمل میں دو چیزیں سب سے پہلی چاہتی ہے ،ایک بانی پی ٹی آئی کو ریلیف اور دوسرا نومئی کی تحقیقات سمیت گرفتار ورکروں کی رہائی۔ اگرچہ یہ دونوں مطالبات اتنے سادہ نہیں لیکن ابتدا یہیں سے کی جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے اندر ایک بڑا دھڑا مذاکرات چاہتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلسل احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کے نتائج سب نے دیکھ لئے، اب ارکانِ اسمبلی کی خواہش ہے کہ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھایاجائے۔ بار بار اسلام آباد اور پنجاب کی طرف مارچ کرنے سے پارٹی رہنماؤں کو مالی دباؤ کا بھی سامنا کرناپڑا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر بھی دباؤ تھا کہ مزید احتجاج کی سیاست سے گریز کیاجائے۔ طویل عرصے بعد وزیراعلی خیبرپختونخوا کو بھی اب کہیں جاکر موقع ملاہے کہ اپنے صوبے کے مسائل کی طرف توجہ دیں۔ فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ ضلع کرم کاہے جہاں ہونے والے فسادات نے بربریت کی نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ اس حوالے سے اپیکس کمیٹی میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں جن میں ان علاقوں میں بنکرز کاخاتمہ اور لوگوں سے اسلحہ واپس لینا بھی شامل ہے۔ اگرچہ ان فیصلوں پر عملدرآمد انتہائی مشکل ہے لیکن جب تک ان علاقوں میں متحارب قبائل کی جانب سے بنائے گئے بنکرز کاخاتمہ نہیں کیاجاتا اور علاقے کو اسلحے سے پاک نہیں کیاجاتا یہاں امن ممکن نہیں۔اس سے بھی زیادہ ضروری چیز ضلع کرم میں بیرونی مداخلت ہے جسے بہرصورت روکنا ہوگا۔ اسی طرح اراضی تنازعات کا بھی فوری حل نکالاجانا چاہیے۔ اگر وزیرستان سمیت دیگر قبائلی اضلاع میں اراضی تنازعات حل کئے جاسکتے ہیں تو اس علاقے میں کون سا امر مانع ہے؟ضلع کرم میں حکومتی رٹ قائم کرنا ہی ہوگی۔ جس قسم کی اطلاعات وہاں سے اب بھی آرہی ہیں وہ کسی طرح خوشگوار نہیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی حکومت کوممکنہ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ قبائل کو بنکرز کے خاتمے اور اسلحہ جمع کرانے کی ڈیڈ لائن بھی دی گئی ہے تاہم ضلع کرم کے جو معروضی حالات ہیں انہیں دیکھتے ہوئے مشکل لگ رہاہے کہ رضاکارانہ طورپر ان فیصلوں پر عملدرآمد ہوسکے۔حکومتی رٹ قائم کرنے کیلئے بہرحال کارروائی کرنا ہی ہوگی اورصوبائی حکومت کو امن وامان کے قیام کیلئے تمام وسائل بروئے کار لانے ہوں گے۔
بدقسمتی سے گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے کے جنوبی اضلاع میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہوگئی ہے۔ جن مسائل کا حل سیاسی بنیاد پر بات چیت کے ذریعے بآسانی نکالاجاسکتا تھا انہیں نظرانداز کیاگیا،نتیجہ یہ نکلا کہ ان علاقوں میں بدامنی پھیل گئی۔ بنوں اور لکی مروت میں حالات اتنے خراب ہوئے کہ مقتدر حلقوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ ضلع کرم میں بھی یہی ہوا۔ اگرحکومت کی جانب سے فوری ایکشن لیاجاتا تو حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ پی ٹی آئی کو صوبے میں کرپشن کے حوالے سے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ نیب کے پرکاٹنے اور اینٹی کرپشن کے پاس اختیارات نہ ہونے کے باعث مختلف محکموں میں کرپشن کے نت نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ادویات سکینڈل اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انسدادِ رشوت ستانی کے اختیارات میں اضافے کیلئے قانون سازی کافیصلہ کیاگیا ہے۔ اس سے قبل پرویزخٹک دور میں احتساب کمیشن بنایاگیاتھا جس کو پہلے وسیع اختیارات دیئے گئے بعدازاں اس کمیشن کے بھی پر کاٹ دیئے گئے اور کچھ عرصہ بعد اسے تحلیل کردیاگیا۔ موجودہ حالات میں محکمہ اینٹی کرپشن کی جانب سے کچھ کارروائیاں تو کی گئی ہیں لیکن انہیں دیکھ کر لگتاہے کہ یہ سیاسی بنیاد پر ہوئی ہیں،جیسا کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما عاطف خان کو اس محکمے کی جانب سے بھیجے گئے دو نوٹسز ہیں۔اس محکمے کے ریڈار پر زیادہ تر وہ ارکان اسمبلی ہیں جن کی موجودقیادت یا علی امین گنڈاپور کے ساتھ نہیں بنتی۔
پی ٹی آئی کے ورکروں کیلئے ایک خوش آئند بات جو سامنے آئی ہے وہ علی امین گنڈاپور اورعاطف خان کے مابین رابطے بحال کرنے کی کوشش ہے۔ اسد قیصر اور شہرام ترکئی کی کوشش ہے کہ کسی طرح دونوں رہنماؤں کے مابین صلح صفائی ہوجائے۔اس وقت پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات عروج پرہیں، جس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔پارٹی قیادت سول نافرمانی کے اعلان پر بھی تقسیم ہے۔ ذرائع کے مطابق بیشتر مرکزی رہنما اس قسم کے کسی بھی فیصلے کے حق میں نہیں کہ ایسی کسی بھی تحریک کے منفی اثرات ہوں گے۔ ملک کے موجودہ حالات بھی ایسے نہیں کہ سول نافرمانی جیسی تحریک چلائی جائے اور اسے کامیاب کروایاجائے، البتہ پی ٹی آئی اس اعلان کو مذاکرات کے دوران دباؤ بڑھانے اور بارگیننگ چِپ کے طورپر ضرور استعمال کرتی رہے گی۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کے ان کی حکومت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور کہیں یہ تحریک پی ٹی آئی کے سیاسی تابوت کی آخری کیل نہ بن جائے۔