سیاسی بحران ٹل گیا

تحریر : محمد اسلم میر


آزاد جموں و کشمیر میں تین ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بالآخر ختم ہو گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کی مداخلت سے دونوں جماعتوں نے چوہدری انوار الحق کی حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یوں چوہدری انوار الحق فارورڈ بلاک کے 22 ارکان قانون ساز اسمبلی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔آزاد جموں و کشمیر میں اس سیاسی بحران کے پیچھے وہ سیاسی کردار تھے جن کے وظائف وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے اقتدار میں آنے کے بعد بند ہو چکے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے ایسا سیاسی کلچرپروان چڑھا ہے جس میں اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعیناتیاں اور تقرریاں میرٹ کے بجائے سیاسی وابستگی اور قبائل کے اثر و رسوخ پر عمل میں لائی جاتی تھیں۔ ہر دور میں آزاد جموں و کشمیر کے سیاستدان مقبوضہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی آڑ میںوفاقی حکومت سے فنڈز وصول کرتے تھے اور ان پیسوں کو عوام پر خرچ کرنے کے بجائے تعمیراتی کمپنیوں کی صورت میں اپنے چہیتوں میں مختلف ٹھیکوں کے ذریعے بانٹ دیتے تھے۔ آزاد جموں و کشمیر کے سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس علاقے کے بجٹ کا 10 فیصد سے زائد تر قیاتی جبکہ بقیہ90 فیصد غیر ترقیاتی اخراجات کے ساتھ ساتھ سیاسی اور افسر شاہی پر خرچ کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ 20 ماہ کے دوران چوہدری انوار الحق کی حکومت میں تمام سرکاری بھرتیاں پبلک سروس کمیشن اور این ٹی ایس کے ذریعے میرٹ پر عمل میں لائی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے ستر سال سے آزاد جموں و کشمیر کے سرکاری وسائل پر قابض سیاسی لوگ اور ان کے چہیتے افسران بے روزگاری کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں کک بیکس اور کمیشن خوری کا کلچر ختم کر کے موجودہ حکومت نے اربوں روپے کے سرکاری ٹھیکے ای ٹینڈرنگ کے ذریعے دینے شروع کر دیے ہیں۔

آزاد جموں و کشمیر کا یہ سیاسی گروہ اس وقت متحرک ہوا جب تاجروں کی مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ حکومت نے کامیاب مذاکرات کئے اور تاجروں کے مطالبات تسلیم کر کے صدارتی آرڈیننس واپس لے لیا۔ ایک طرف عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کے باعث علاقے کے حالات نارمل ہو رہے تھے تو دوسری جانب اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے مل کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سینئر ارکانِ قانون ساز اسمبلی کے دستخطوں سے اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرا دی، لیکن اپوزیشن اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلزپارٹی اور جموں و کشمیر پیپلزپارٹی کو اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا جب اسمبلی اجلاس بلانے کیلئے وہ مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد پوری نہ کر سکے۔ یوں اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا۔ اگر چہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا اس ریکوزیشن کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ اسمبلی اجلاس میں سیاسی بحران پر بحث کرنا چاہتے تھے جس کیلئے انہوں نے ریکوزیشن جمع کرا ئی تھی۔

ادھر سوموار کی شام وزیر اعظم آزاد جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے سترہ وزرا کے ہمراہ وزیر اعظم ہاؤس میں ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے وزرا بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ آزاد جموں و کشمیر کی موجودہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔ مینڈیٹ صرف قانون ساز اسمبلی کے ارکان اور بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے کہا کہ ان کے ساتھ جو 22 ارکان اسمبلی فارورڈ بلاک کی صورت میں ہیں وہ کسی بھی وقت نئی سیاسی جماعت بنا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی طرف سے آزاد جموں و کشمیر میں نئی سیاسی جماعت کے قیام کے اعلان کے بعد آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی دوبارہ بحالی کی افواہیں بھی دم توڑ گیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے آزاد جموں و کشمیر کے بعض حلقوں میں علاقے کی سب سے پرانی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بحالی کی باتیں ہو رہی تھیں، جس کی چوٹی کے سیاستدانوں نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ سیاسی تجزیہ کاروں نے کھل کر کہا کہ اسی جماعت کی وجہ سے آزاد جموں و کشمیر میں خود مختار نظریات کے حامی افراد کی تعداد میں پچاس سال سے اضافہ ہوتا رہا ہے، جس کی وجہ سے آزاد جموں و کشمیر میں پاکستان کے خلاف نظریاتی تخریب کاری بڑھ گی۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے ان کی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کے پاس ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت آزاد جموں و کشمیر میں بد امنی پھیلا کر دہشت گردی کر وا سکتا ہے، جس کے توڑ کیلئے آزاد جموں و کشمیر کے عوام ، حکومت اور 740 کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول پر پاک فوج تیار ہے۔حکومت کے پاس بہت کم وقت ہے اور اس دوران وہ ویژن 2025 ء کے تحت نوجوانوں کیلئے بلاسود پانچ سے بیس لاکھ روپے قرضہ سکیم شروع کرے گی تاکہ نوجوان سرکاری نوکریوں کے بجائے اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔

 ملک کے دیگر علاقوں کی طرح آزاد جموں و کشمیر میں بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم ولادت انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ دار الحکومت مظفرآباد سمیت آزاد جموں و کشمیر کے دس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز میں بابائے قوم کے یوم ولادت کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔مرکزی تقریب یاد گار شہدا چھتر چوک مظفر آباد میں ہوئی جہاں پاک فوج کے چاک و چو بند دستے نے سلامی دی اور یاد گارِ شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ آزاد جموں کشمیر کے تمام سرکاری کالجز ، سکولز اور یونیورسٹیز میں بھی قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے حوالے سے خصوصی مذاکرے اور تقریری مقابلے بھی ہوئے۔ طلبہ و طالبات نے بر صغیر اور جنوبی ایشیا کے عظیم لیڈر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام کو قائد اعظم کی سیاسی فکر اور بصیرت کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ قومی وحدت اور یکجہتی کو گوادر سے کشمیر تک فروغ مل سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مغربی قوتیں اور پاکستانی سیاسست

نئی امریکی انتظامیہ اور اس کے عہدیداروں کے پاکستانی سیاست میں چرچے ہیں۔ نو منتخب امریکی صدر کے نمائندہ برائے خصوصی مشن رچرڈ گرینیل کے یکے بعد دیگرے ٹویٹس ملکی سیاسی صورتحال میں ہلچل پیدا کر رہے ہیں۔

مذاکراتی عمل سے وزیراعظم پر امید کیوں؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز سے قومی سیاست میں کسی حد تک ٹھہرائو آیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ جب سیاسی قیادتیں میز پر آ بیٹھیں تو مسائل کے حل کا امکان پیدا ہو جاتا ہے اور سیاسی معاملات آگے بڑھتے نظر آتے ہیں۔

کراچی میں پانی کا بحران ،احتجاج اور مقدمے

پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) میں اختلاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور پی پی رہنما گاہے بگاہے بالواسطہ یا بلاواسطہ تنقید کررہے ہیں۔ یہ تنقید بظاہر حکومت کی پالیسیوں پر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اندرون خانہ کوئی اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔

دیر آیددرست آید

پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے جس کا پہلا دور پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اگرچہ باضابطہ مذاکرات دو جنوری کو ہونے جارہے ہیں لیکن یہ سلسلہ شروع تو ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا کوئی حل نکالاجاسکتا ہے۔

خونی سال رخصت ہوا

2024ء بلوچستان کیلئے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ عام انتخابات کے بعد 24فروری کو صوبے میں پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اور بلوچستان عوامی پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے صوبے میں اقتدار سنبھالا۔

یوم وفات ابوبکر صدیق ؓ، صدیق ؓکیلئے ہے خدا کا رسول ﷺ بس

آپؓ نے پوری زندگی میں کوئی ایسا فعل نہیں کیا جو نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو