زبان کی حفاظت،جنت کی ضمانت

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’’ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک نگران موجود نہ ہو‘‘(ق: 18)

’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘ (ق: 16 تا 18)۔ 

بلاشبہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت قوت ِ گویائی ہے۔ انسانی جسم میں زبان کا ٹکڑا دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ اگر انسان اس کا درست استعمال کرے اور اسے شریعت کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق استعمال میں لائے تو یہ عملی طور پر اس نعمت کی شکر گزاری ہے۔ اگر انسان نے اپنے الفاظ سے انسانوں کی دل آزاری کی اور شریعت کی بتائی ہوئی حدود میں اس زبان کا استعمال نہ کیا تو یہ زبان انسان کیلئے شرمندگی اور رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ابو سعید خدریؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضا زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر، ہم تجھ سے متعلق ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے(جامع ترمذی:2407)۔

 زبان یا تو انسان کیلئے باعث سعادت ہوتی ہے یا پھر اس کیلئے باعث مصیبت۔ اگر وہ اسے اللہ کی اطاعت میں لگا دے تو وہ اس کیلئے دنیا و آخرت کی سعادت بن جاتی ہے اور اگر اسے ایسے کام میں لگا دے جس میں اللہ کی رضا نہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں اس کیلئے باعث حسرت بن جائے گی۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کے درست استعمال کی تلقین کی گئی ہے تاکہ انسان زبان کے غلط استعمال پر خدا کی پکڑ سے محفوظ رہے۔ 

جنت کی ضمانت 

سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مجھ سے اپنی دونوں داڑھوں اور دونوں ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو میں اس کیلئے جنت کا ضامن ہوں(جامع ترمذ ی : 2408) ۔اس حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ نے زبان کی حفاظت کی ذمہ داری مانگی ہے اور اس کے بدلے جنت کی بشارت دی ہے۔ صرف بشارت نہیں بلکہ جنت کی ضمانت دی ہے۔ اس لیے کہ زبان کا استعمال سب سے آسان ہوتا ہے انسان کے دل میں جو اچھا یا برا ہوتا ہے فوراً اس کا اظہار کردیتا ہے۔  اب اگر برائی کو انسان بیان کرنے سے رک جائے اور اپنی زبان سے اچھائی نکالے تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ اسی لیے ایک اور حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اللہ نے اس کی ٹانگوں اور داڑھوں کے درمیان کی چیز کے شر و فساد سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہو گا(ترمذی: 2409)۔

زبان پر قابو پانے کی تلقین

زبان کی حساسیت اور اس کے دیرپا اثرات کی بناپر نبی کریمﷺ بھی اپنے صحابہ ؓ کو زبان اپنے قابو میں رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کے پوچھنے پر نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد کے متعلق تفصیلاً بتایا اور پھر آخر میں فرمایا: کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ ! تو آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا ’’ اس کو روک کے رکھ‘‘۔ انہوں نے عرض کیا، ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں کیا اس پر بھی ہماری گرفت ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے! (ترمذی: 2616)۔ اس سے معلوم ہوتا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کی عبادات (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد) وغیرہ کو برباد کر سکتا ہے اور جنت کے بجاے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہے۔اسی طرح حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفیؒ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ مجھ سے ایسی بات بیان فرمائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں، آپﷺ نے فرمایا:کہو، میرا رب اللہ ہے پھر اسی عہد پر قائم رہو، میں نے پھر عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ کو مجھ سے کس چیز کا زیادہ خوف ہے؟ آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: اس کا زیادہ خوف ہے۔ ( ترمذی: 2410)۔ عقبہ بن عامرؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسولﷺ نجات کس چیز میں ہے؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور اپنے گناہوں پر رویا کرو( شعب الایمان: 784)۔

الفاظ کی اہمیت 

انسان کے منہ سے جو الفاظ بھی نکلتے ہیں وہ ہواؤں میں تحلیل نہیں ہوجاتے بلکہ ان کا اثر ہوتا ہے اور وہ خدا کے رجسٹر میں لکھے بھی جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک نگران موجود نہ ہو‘‘ (ق: 18)۔اسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے، اس میں غور وفکر نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے(مسلم:  2988 )۔ ایک دوسری روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے، اور ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی والی بات کرتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے‘‘ (شعب الایمان: 4604) ۔ بلال بن حارث مزنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی بات کرتا ہے، اس کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گی، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کیلئے قیامت کے دن تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے ۔ کبھی آدمی اللہ کی ناراضی کا ایسا کلمہ بولتا ہے، اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گا، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کیلئے اپنی ملاقات کے دن تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے(المؤطا، 2072)۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں ان تمام باتوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو اور انسان اللہ کی رحمت سے دور ہوجائے۔ مثلا: طعنے، طنز، گالم گلوچ، غیبت، برے القاب، جھوٹی قسم، دوسروں کا مذاق اڑانا وغیرہ ۔

طعنے اور طنز کی ممانعت 

 قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’تباہی ہے ہر اس شخص کیلئے جو لوگوں پر طعن اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے کا خوگر ہے (الھمزہ: 1)۔ سیدہ عائشہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریمﷺ سے حضرت صفیہ ؓ کے بارے میں کہا کہ : ’’آپﷺ کیلئے صفیہ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تو نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے۔ (ابو دائود: 4875) 

برے القاب کی ممانعت

 ایک دوسرے کو برے ناموں اور برے القاب سے پکارنے سے خود قرآن مجید نے منع کیا ہے۔ سورہ الحجرات اسلامی معاشرت کے بنیادی خدوخال اور اصولوں کو بیان کرنے والی سورت ہے۔ اس سورت کاہر فرد کو مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔ (الحجرات: 11)۔ کسی مسلمان کو منافق کہنا، کسی کو فاسق کہنا، کسی کو اس کے سابقہ مذہب کی بنیاد پر پکارنا وغیرہ یہ سب برے القاب میں شامل ہے۔ اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جس طرح سود، ناجائز مال کھانا حرام ہے اسی طرح کسی کو برے ناموں سے پکارنا بھی حرام ہے۔ 

گالم گلوچ کی ممانعت 

زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لوگوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے‘‘ (ابن ماجہ : 69)۔ اس حدیث مبارک میں رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کی عزت کی حرمت بیان کی ہے اور اسے گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کونسا مسلمان افضل ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مسند احمد:  6792)

معاشر تی اصلاح کی ضرورت 

بحیثیت مسلمان آج اس قوم کی صورتحال نہایت سنگین ہوچکی ہے۔ اس قوم کا عام فرد ہو یا قوم کے رہنما سب زبان کے استعمال میں جری ہوچکے ہیں۔آپس میں اختلاف ہو جانے کے بعد ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ پڑتے ہیں۔ الزام تراشیاں، جھوٹ، بہتان، مسخرہ پن، مذاق اڑانا، تمسخر کرنا، طعنے دینا، برے القاب سے ایک دوسرے کو پکارنا، غیبت کرنا ایک کلچر بن چکا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں یہ بھول جاتے ہیں کہ بڑوں کا یہ طرزِ عمل نئی نسل پر کیسے اثرات مرتب کر رہا ہے اور وہ کیسی زبان سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ضرور ت ہے کہ ہر فرد اپنی اصلاح کرے ، رہنما اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں، شائستگی سے اختلاف راے کا اظہار کریں تاکہ ہماری نئی نسل اخلاقیات میں کچھ اچھا سیکھ سکیں۔

 حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندے کا ایمان اس وقت تک ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کا دل ٹھیک نہ ہوجائے اور اس کا دل اس وقت ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان ٹھیک نہ ہو جائے۔(مسند احمد: 13071)

پس وہ شخص عقلمند ہے جو زبان جیسی عظیم نعمت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال میں لائے۔ اسے لوگوں کے درمیان اصلاح، سچائی کے فروغ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، دعوتِ دین، بھلی بات کہنے کیلئے استعمال کرے اور رب کی ناراضی، انسانوں کی دل آزاری، جھوٹ ، تمسخر وغیرہ سے اس کی حفاظت کرے۔ جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے۔ (ابن ماجہ: 3672)۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

متوازن غذا ضروری ہے!

’’مما! آج کیا پکایا ہے؟‘‘ عائشہ سکول سے واپس آئی تو آتے ہی بے تابی سے پوچھا، اسے شدید بھوک لگی تھی۔

مغرور اونٹ کی کہانی

کسی جنگل میں ایک مغرور اونٹ رہتا تھا۔ اسے اپنے لمبے قد اور چال ڈھال پر بڑا ناز تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں۔ اس کا جہاں جی چاہتا منہ اْٹھا کر چلا جاتا اور سب جانوروں سے بدتمیزی کرتا رہتا۔ کوئی جانور اگر اسے چھیڑتا تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتا۔ اس کے گھر کے قریب چوہے کا بل تھا اور اونٹ کو اس چوہے سے سب سے زیادہ نفرت تھی۔ وہ اس چوہے کو نہ جانے کیا کیا القابات دیتا رہتا لیکن چوہا ہنس کے ٹال دیتا تھا۔ جنگل کے سب جانور ہی اونٹ سے اس کے تکبر کی وجہ سے تنگ تھے اور چاہتے تھے کہ اسے اس کے کیے کی سزا ملے مگر ابھی تک اونٹ کو کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔

پہیلیاں

ہو اگر بخار کا مارا کیوں نہ چڑھے پھر اُس کا پارہ (تھرما میٹر)

بکری میری بھولی بھالی

بکری میری بھولی بھالی بکری میری بھولی بھالی کچھ تھی بھوری کچھ تھی کالی

ذرامسکرایئے

ماں : گڈو ! میں نے پلیٹ میں کیک رکھا تھا ، وہ کہاں گیا؟ گڈو : امی مجھے ڈر تھا کہ کیک کہیں بلی نہ کھا جائے ، اس لیے میں نے کھا لیا۔ ٭٭٭

کیا آ پ جانتے ہیں؟

٭:صرف کولاس (koalas) اور انسان ہی دنیا کے وہ جاندار ہیں جن کے فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ ٭:آکٹوپس(octupus) کے تین دل ہوتے ہیں۔