عارف شفیق عوامی غزل کی بنیاد میں پہلا پتھر رکھنے والا شاعر
عارف شفیق جب نے عوام کیلئے عوامی شاعری شروع کی تو ان پہ الزام لگایا کہ وہ شعر و ادب کو محلوں سے نکال کر فٹ پاتھ اور بازاروں میں لا رہے ہیں
یہ درست ہے کہ ادب میں اصل چیز تخلیقی قوت ہے کہ کوئی جینوئن شاعر کسی حادثے یا واقعہ سے فوری متاثر ہو کر شعر لکھے یا سو سال بعد، اس کی شاعری میں تخلیقی جوہر موجود ہوگا۔ میر، غالب، اقبال سب نے اپنے عہد کا جو منظر نامہ لکھا ۔اس میں عصری حسیت اپنی تخلیقی قوت کے ساتھ نمایاں ہے جب کہ تخلیقی اعتبار سے بانجھ شاعر فوری ردعمل میں شعر لکھے یا سو سال بعد سچا شعر نہیں لکھ سکتا، ہمارا وہ نقاد جو مراعات یافتہ طبقے کا ایجنٹ ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ظلم و جبر، جہالت مفلسی کو اس وقت شعر کا موضوع نہ بنایا جائے جب وہ موجود ہوں۔ یہ ادب کا بہت عجیب فلسفہ ہے۔ یہ طبقہ ادب کے اس فارمولے کو اس لئے معیار بنائے ہوئے ہے کہ جس وقت سچ بولنے یا لکھنے کی ضرورت ہو اس وقت قلمکاروں کو خاموش رکھنے کا جواز پیدا کیا جا سکے لیکن یہ تو بالکل ایسی بات ہوئی کہ رات کو چراغ جلانے پر پابندی لگا دی جائے اور دن نکلتے ہی چراغاں کرنے والوں کو اعزازت بخشے جائیں۔ عارف شفیق نے ادب کی اس پابندی کو توڑا ۔وہ اس لئے شعر لکھتے رہے کہ شاید ان کا ایک شعر یا مصرع ہی اس ناہموار معاشرے میں انقلابی تبدیلی کی سمت نمائی کر سکے اور فکری انقلاب کیلئے راہ ہموار ہو ۔وہ اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ اس کا اندازہ اس ایک شعرسے لگایا جا سکتا ہے۔
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی
عارف شفیق کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں 31اکتوبر1956ء کو پیدا ہوئے اور زندگی کا بیشتر حصہ اسی علاقے میں گزارا ،اس لئے اس شہر کے اہم سیاسی سماجی اورطبقاتی مسائل سے ان کا براہ راست الجھائو رہا۔اسی علاقے کی گلیوں میں انہوں نے سچ بولنا سیکھا، ظلم کے خلاف احتجاج کرنا سیکھا، اس علاقے میں ان تحریکوں کو جنم لیتے ہوئے دیکھا جنہوں نے آگے چل کر ملکی سیاست پرانقلابی تبدیلیوں کی پہلی دستک دی اور سیاسی منظر ناموں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ان کے والد شفیق بریلوی بھی صاحب قلم تھے۔عارف شفیق نے اپنے گھر پر جن ادیب و شعراء کو قریب سے دیکھا اور ان کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا ان میں جمال میاں فرنگی محلی، عبدالقدوس ہاشمی، حسن مثنی ندوی، محمد صلاح الدین، نثار احمد زبیری، اقبال احمد صدیقی، رفیق خاور، مولانا شاہ حسن عطا، شفیع عقیل، حکیم محمود احمد برکاتی، جوش ملیح آبادی، احسان دانش، حفیظ جالندھری، بہزاد لکھنوی، ماہر القادری ،کموڈور آصف علوی اور عبرت ریلوی جیسے اہم اور معتبر لوگ شامل تھے۔وہ اپنے گھر کی محفلوں میں ان سب اہم لوگوں کی گفتگو سن کر بچپن میں سوچا کرتے تھے کہ اس معاشرے میں اتنے دانشور موجود ہیں لیکن پھر بھی کوئی انقلاب کیوں رونما نہیں ہو سکا۔
جب عارف شفیق نے عوام کیلئے عوامی شاعری شروع کی تو مراعات یافتہ طبقے نے بہت شدید مخالفت کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ شعر و ادب کو محلوں سے نکال کر فٹ پاتھ اور بازاروں میں لا رہے ہیں۔ ان کی شاعری کے موضوعات اور زبان و بیان پر ہر سمت سے تنقید کے نشتر چلنے لگے۔ اس وقت کراچی کے اکثر شعراء استاد قمر جلالوی کے انداز میں شاعری کر رہے تھے جبکہ عارف جن لوگوں سے متاثر تھے ان میں شکیب جلالی، منیر نیازی، ظفر اقبال اور انور شعورتھے لیکن انہوں نے اپنی شاعری کا لہجہ اپنے ان چاروں پسندیدہ شعراء سے بھی الگ رکھا۔ انہوں نے کسی مخالفت کی پروانہیں کی، ایسے نازک وقت میں کچھ عوام دوست لوگوں نے ان کاساتھ دیا جن میں پہلے شخص ابن صفی تھے جنہوں نے سب سے پہلے ان کی شاعری کی حمایت میں ایک مضمون ’’عوامی غزل کی بنیاد میں پہلا پتھر رکھنے والا شاعر‘‘ لکھ کر انہیں عوام میں متعارف کرایا۔
پھر عارف شفیق کی حمایت کرنے والوں میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اطہر نفیس، شفیع عقیل ، فضل صدیقی اور زاہد قریشی جیسے لوگوں نے اخبارات میں ان کی شاعری باقاعدہ شائع کرنا شروع کی تو عوامی شاعری کے مخالف مراعات یافتہ طبقے کے ایجنٹوں نے انہیں اس کام سے روکنے کی بہت کوشش کیں لیکن ان میں سے کوئی بھی فرد کسی دبائو میں نہیں آیا۔ ریاض صدیقی نے ان کی شاعری پر کئی مضامین لکھے۔ان کی شاعری کو سراہنے والوں میں حمایت علی شاعر، سحر انصاری، رئیس امروہوی، احمد ہمدانی، محسن بھوپالی، قمر ہاشمی، ڈاکٹر مبارک علی، سلطانہ مہر، ایم اے راحت، مشتاق قریشی عارف ہوشیار پوری اور کئی نامور شعراء ادیب شامل تھے۔
عارف شفیق کے کچھ دوست احباب ایسے بھی تھے جنہوں نے احساس دلانا چاہا کہ تم اپنی زندگی اورمحسوسات کو شاعری کا حصہ کیوں نہیں بناتے تو انہوں نے یہ کہہ کر اس بات کو رد کر دیا کہ اگر ہم مظلوم طبقے کیلئے شاعری نہیںکریں گے توسب بے سود ہے۔دوستوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح مراعات یافتہ طبقہ ہمیں ریڈیو، ٹی وی اور بڑے مشاعروں میں کبھی موقع نہیں دے گا اور ہم شہرت حاصل نہیں کر سکیں گے جبکہ عارف شفیق کی خواہش تھی کہ اگر ان کے ہم عصر اور بعد آنے والے ایسے شعراء جو اوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے شہرت حاصل کرنے کی خواہش کو دبا کر عوامی شاعری پر توجہ دیں تو ادبی رجحانات میں ایک انقلابی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ تاہم مراعات یافتہ طبقہ انہیںگمنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہو کر عوام میں مقبول ہو گئے۔
عارف کو اس بات کا رنج رہا کہ نوجوان شعرا عوامی شاعری کی طرف آتے آتے آدھے راستے سے واپس لوٹ جاتے ہیں۔وہ لغت سے مشکل مشکل الفاظ ڈھونڈ کر ایسے مہمل شعر لکھتے رہے جو وہ خود ہی لکھتے اور خود ہی سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ کہتے ہیں ’’ فارسی تراکیب کا غیر تخلیقی استعمال کرکے خود کو میر و غالب سمجھ رہے ہیں اور دوسروں کو چونکانے کیلئے ایسے غیر منطقی خیال شعروں میں لکھے رہے ہیں کہ خدا ہے یا نہیں وہ خود بھی ہیں یا نہیں اپنے بیمار ذہن کی سوچوں کے اظہار کو وہ معاشرے میں پھیلا کر اس طبقے کو خوش کر رہے ہیں جو اس زمین پر فکری انقلاب سے خوفزدہ ہے ،مجھے یقین ہے کہ اس زمین کا نظام بدلتے ہی یہ نوجوان شعراء بھی اپنے طبقے کی نمائندگی کریں گے۔ میرا یقین میرا ایمان ہے میری چاروں سمت اعتماد اور یقین کے دھنک رنگ رقصاں ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ نئے دور کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور یہ نوجوان شعراء چاند چہرہ ستارو آنکھوں کی طلسماتی فضا سے نکل کر زندگی کی تلخ حقیقتوں کو اپنی شاعری کا محور بنائیں گے۔
عارف شفیق نے شاعری کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’’اندھی سوچیں گونگے لفظ‘‘، ’’سیپ کے دیپ‘‘، ’’جب زمیں پر کوئی دیوار نہ تھی‘‘، ’’احتجاج‘‘، ’’سرپھری ہوا‘‘، ’’میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا‘‘، ’’میرا شہر جل رہا ہے‘‘، ’’یقین‘‘ اور ’’میری دھرتی میرے لوگ‘‘ وغیرہ۔عارف شفیق کا انتقال پانچ سال پہلے15 دسمبر 2019 کو کراچی میں ہوا۔
نمونہ ٔ کلام
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
٭٭٭٭٭
تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی
٭٭٭٭٭
اپنے دروازے پہ خود ہی دستکیں دیتا ہے وہ
اجنبی لہجے میں پھر وہ پوچھتا ہے کون ہے
٭٭٭٭٭
کیسا ماتم کیسا رونا مٹی کا؟
ٹوٹ گیا ہے ایک کھلونا مٹی کا
٭٭٭٭٭
اندھے عدم وجود کے گرداب سے نکل
یہ زندگی بھی خواب ہے تو خواب سے نکل
٭٭٭٭٭
ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے
تجھے تیری مجھے میری ضرورت کھینچ لاتی ہے
٭٭٭٭٭
جو اپنا گھر کسی کے عشق میں برباد کرتے ہیں
انہیں صحرا میں ان کے دل کی وحشت کھینچ لاتی ہے