صلہ رحمی کا حکم

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


قرآن و حدیث میں رشتوں کا پاس رکھنے اور رشتے جوڑے رکھنے کی تلقین بار بار کی گئی ہے۔جو لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں ان کیلئے باغات، اچھا انجام اور سلامتی کی خوشخبری ہے اور جو رشتوں کو توڑتے ہیں، قطع رحمی کرتے ہیں ان کیلئے دنیا اور آخرت دونوں میں رسوائی ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’رشتے داروں کو ان کا حق دو، اور مساکین و مسافروں کو بھی ان کا حق دو، یہ بہترہے ان لوگوں کیلئے جو خدا کی رضا چاہتے ہیں، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘(سورۃ الروم: 38)۔

 صلہ رحمی کا مفہوم 

 صلہ رحمی سے مراد یہ ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا، ایک دوسرے کے دکھ، درد، خوشی اور غمی میں شریک ہونا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔ صلہ رحمی کیلئے ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے بلکہ جس بھی طریقے سے انسان اپنے رشتے داروں کے کام آ سکتا ہے مثلاً ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا، مشورہ دینا، کسی مشکل سے نکلنے کیلئے سہولت فراہم کرنا۔ یعنی ہر وہ طریقہ جس سے رشتے کو اچھے سے نبھایا جائے، ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کیے جائیں اسے اختیار کرنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ 

صلہ رحمی کب کی جائے؟

 عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ صلہ رحمی برابری کے ساتھ ہونی چاہیے۔اگر کوئی رشتے دار اچھا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے اور جس کا سلوک اچھا نہ ہو تو اس سے تعلق رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ حالانکہ صلہ رحمی کا تصور یہ نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ جو قطع رحمی کرے اس کے ساتھ بنا کر رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ 

عبداللہ بن عمرو ؓروایت کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو صرف صلہ رحمی کرنے والوں ہی سے بنا کر رکھے، صلہ رحمی تو وہ کرتا ہے کہ جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (بخاری:5991) ۔

اسی طرح ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہﷺکے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہوں، وہ میرے ساتھ برا رویہ رکھتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسا کہ تم نے بیان کیا تو تم ان کے پیٹ میں گرم ریت ڈال رہے ہو، جب تک تم ان کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرتے رہو گے اللہ کی طرف سے تمہارے لیے ایک مددگار مقرر رہے گا۔ (مسلم،2558)

صلہ رحمی کا اجر اور فضائل 

 قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر صلہ رحمی کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جو لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں ان کیلئے اجر رکھا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’وہ لوگ جو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں، اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے، اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے، یہ لوگ انہیں جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اور حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر صبر سے کام لیا، اور نماز قائم کی، اور ہم نے انہیں جو رزق عطا کیا اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا، اور برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں، انہی لوگوں کیلئے انجام کا گھر ہو گا، ہمیشہ رہنے کے باغات، جن میں یہ خود بھی داخل ہوں گے اور ان کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی، اور فرشتے ان پر ہر دروازے سے داخل ہوں گے یہ کہتے ہوئے کہ سلام ہو تم پر تمہارے صبر کرنے پر، سو کیا ہی خوب ہے آخرت کا گھر (الرعد 20 تا 24)۔ اس آیت مبارکہ میں جن لوگوں کیلئے اچھے انجام اورہمیشہ رہنے والے باغات کا وعدہ کیا گیا ہے ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو رشتوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ 

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کا رزق کشادہ کیا جائے اوراس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے‘‘ (صحیح بخاری: 5958)۔

ایک اور حدیث مبارک جس کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالیٰ اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ کن (صفات والوں) کو؟ تو آپﷺ نے فرمایا: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کر، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کر، اور جو تجھ سے (رشتہ داری اور تعلق) توڑے تو اس سے جوڑ۔ایک صحابی ؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اگر میں یہ کام کر لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: تجھ سے آسان حساب لیا جائے گا اور تجھے ا للہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے گا (المستدرک للحاکم:3912)۔ ایک حدیث مبارک میں تو لفظ رحم کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لفظ اللہ کے اسم صفت ’’الرحمن‘‘ سے ماخوذ ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اس پر رب کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور جو قطع رحمی کرتا ہے تو وہ ان رحمتوں سے محروم کردیا جاتا ہے۔

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ  تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’میں اللہ ہوں، میں رحمان ہوں اور رحم (یعنی رشتہ ناتا) ہی ہے جس کا نام میں نے اپنے نام (یعنی رحمٰن) سے نکالا ہے، لہٰذا جو اسے(رحم) کو جوڑے گا تو میں بھی اس کو (اپنی رحمتِ خاص کے ساتھ) جوڑوں گا اور جو شخص اسے (یعنی رحم) کو کاٹے گا تو میں اس کو (اپنی رحمت خاص سے) کاٹوں گا۔ (سنن ابو دائود: 1694)

قطع رحمی پر وعید

جس طرح صلہ رحمی کے بے شمار فضائل اور اس کا اجر ہے، اس کے برعکس قطع رحمی پر بہت سخت وعیدیں سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’جو لوگ اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‘‘(البقرہ: 27)۔ 

اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا‘‘ (صحیح بخاری: 5984)، ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا ’’اس قوم پر رحمت نہیں اترے گی جس میں کوئی رشتوں کو توڑنے والا موجود ہو‘‘ (الادب المفرد: 63)۔ اسی لیے ایک بار عبداللہ بن مسعودؓ جب فجر کے بعد اپنے حلقہ درس میں بیٹھے تو انہوں نے کہا کہ میں اس شخص کو قسم دیتا ہو جو قطع رحمی کرنے والا ہے کہ وہ مجلس سے اٹھ کر چلا جائے اس لیے کہ ہم اپنے رب سے دعا کرنا چاہتے ہیں اور آسمان کے دروازے رشتوں کو توڑنے والے پر بند ہے۔ (مصنَف عبدالرزاق: 20242)

عمر بن عبدالعزیزؒ نے میمون بن مہران سے کہا کہ رشتوں کو توڑنے والے کی ہمارے سامنے تعریف مت کرو کیوں کہ اللہ نے ایسے شخص پر دو مرتبہ لعنت کی ہے ’’اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے توڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور برا ٹھکانا ہے‘‘(سورہ رعد:25) اور دوسری آیت سورہ محمد کی ہے جہاں فرمایا: اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کرو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو،یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور انہیں بہرا اور اندھا بھی کر دیا ہے(سورۃ محمد :22-23)۔

قطع رحمی کی سزا توانسان کو دنیا میں بھی بھگتنا پڑتی ہے جب مشکل وقت میں اپنے ساتھ نہیں دیتے۔ ایک دوسرے کی شکل تک د یکھنے کے روادار نہیں ہوتے، تب رشتوں کے یہ فاصلے عذاب بن جاتے ہیں اور انسان کو مصنوعی سہارے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ حالات جیسے بھی ہوں صلہ رحمی کرتے رہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں، سماجی حیثیت کو نہ دیکھیں کہ ہمارا فلاں رشتے دار غریب ہے تو اس سے تعلقات ختم کر لیں۔ ا یسے کئی واقعات ہوئے بھی ہیں جب کوئی رشتے دار اپنے کم حیثیت رشتے دار کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ رشتہ توڑنا اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کرنا اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے وہ کہتی ہے کہ جو مجھے ملائے گا اللہ اسے ملائے گا اور جو مجھے کاٹے گا اللہ اسے کاٹے گا‘‘ (مسلم:  2555)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا!

’’میں محمد ہوں، احمد ہوں اور آخر میں آنے والا ہوں، حاشر ہوں اور نبی التوبہ ہوں( یعنی آپ کی وجہ سے کثیر خلقت توبہ کرے گی) اور نبی الرحمہ ہوں(یعنی آپ کی وجہ سے انسان بہت سی رحمتوں سے نوازے گئے اور نوازے جائیں گے) ‘‘( صحیح مسلم) ’’اللہ اس بندے پر رحم فرمائے جو بیچتے وقت نرمی کرتا ہے، خریدتے وقت نرمی کرتا ہے اور جب تقاضا کرتا ہے تو نرمی کرتا ہے‘‘(ابن ماجہ) آپ ﷺ نے اپنے موثر انداز تعلیم سے دنیا والوں کی کایا پلٹ دی، راہزنوں کو رہبر بنا دیا اور شرک کے پجاریوں کو توحید کی دولت سے مالامال کر دیا

تم میں سے ہر ایک جوا بدہ ہے!

’’ ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولادکی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘(صحیح بخاری )

ایفائے عہد ایمان کی نشانی

’’اور تم عہد کو پورا کیا کرو بیشک عہد کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘(سورہ بنی اسرائیل)

مسائل اور ان کا حل

بیوی کو آزاد اور چھوڑنے کا لفظ کہنے سے طلاق کا معاملہ سوال: شوہر نے بیوی کو کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو اور کچھ دنوں بعد اس نے جھگڑے کے دوران کہا میں نے تمہیں چھوڑ دیا۔ ان الفاظ سے شرعی طور پر طلاق ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ بتا دیں (محمد ابراہیم، کراچی)

سرطان کے دوران اور علاج کے بعد مفید پھل

یہ امر راز نہیں رہا کہ غذا سرطان کے امکان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی درست ہے کہ سرطان کے علاج کے بعد بحالی میں صحت مند غذا کا اہم کردار ہوتا ہے۔ پھلوں سمیت بعض غذاؤں سے ٹیومر کی نمو سست پڑ جاتی ہے اور سرطان کے علاج سے پیدا ہونے والے ذیلی اثرات کم کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے بحالی کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔

پیٹ کے سرطان کی 5 پیشگی علامتیں

سرطان کی کوئی قسم اچانک منٹوں میں رونما نہیںہوتی،اس کی کئی علامتیں وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فرد ان علامتوں کو پہچانے کیسے؟ کیونکہ بخار، پیٹ درد، قے، پیٹ میں جلن وغیرہ ایک نہیں کئی امراض کی علامتیں ہو سکتی ہیں۔