سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی
ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔
سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے صوبے کی خراب صورتحال کی ذمہ داری کرپشن پر ڈال دی، بولے کہ اربوں کی کرپشن ہورہی ہے، کرپشن کو صنعت کا درجہ دے دیا گیاہے اور کرپشن کا سوچیں تو پیپلز پارٹی کا نام ذہن میں آتا ہے، ایسے میں کرپشن کے خلاف صدر مملکت کا بیان مضحکہ خیز ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے بھی ترکی با ترکی جواب دیا گیا۔ ترجمان سعدیہ جاوید بولیں کہ ایم کیو ایم دور میں ہونے والی کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کراچی میٹرو پولیٹن کی دیواریں اس کی گواہ ہیں۔ بد انتظامی اپنی انتہا پر تھی، جسے اب تک درست کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔واٹر بورڈ کی حالت ِزار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ریلی کے اعلان ریلی نے سیاسی گرما گرمی میں مزید اضافہ کردیا۔ ایڈیشنل آئی جی کی درخواست پر گزشتہ پیر اور منگل کو ڈسٹرکٹ سنٹرل میں دفعہ 144نافذ کردی گئی۔ جیسے ہی ریلی کے شرکا عزیز آباد میں جمع ہونا شروع ہوئے دو درجن کے قریب افراد کو دھر لیا گیا۔
کراچی کی سیاست میں گرمی پیدا کرنے کے لیے جماعت اسلامی بھی پیچھے نہیں رہی البتہ یہ گرمی کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے۔ بقول منعم ظفر خان جماعت اسلامی کے 9ٹاؤن چیئرمینوں نے ایک سال کے مختصر عرصے میں 32سکولوں کو از سر نو آباد کیا گیا، 120 پارکوں کا افتتاح ہوا اور 44ہزار سٹریٹ لائٹس نصب کی گئیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم پر بھی تنقید کی اور الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم نے کھیل کے میدانوں کو چائنا کٹنگ کی نظر کردیا جبکہ جماعت اسلامی میدانوں کو بحال کر رہی ہے۔ یقینی طور پر اعداد و شمار درست ہوں گے، پیپلز پارٹی کے بلدیاتی نمائندوں نے بھی لازمی طور پر اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کرائے ہوں گے، انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی ایک سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں تاکہ عوام کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ وہ کون سی جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالیں۔ لوگ ایم کیو ایم کی جانب سے بھی جواب کے منتظر ہیں کیونکہ کراچی سے سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی کا مینڈیٹ اب ایم کیو ایم کے پاس ہے۔
دوسری طرف سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کراچی میں بلٹ ٹرین چلانے کی خوشخبری سنا دی۔ بلٹ ٹرین کا منصوبہ دو حصوں میں شروع کرنے پر غور ہورہا ہے۔ یہ ٹرین کراچی سے سکھر کے درمیان چلے گی۔مزید کہا کہ سرکلر ریلوے بھی ترجیحات میں شامل ہے۔ شرجیل میمن نے کراچی میں میڈیکل سٹی بنانے کا اعلان بھی کردیا۔ ویسے جہاں تک اس شہر کے زمینی حالات بتاتے ہیں سرکلر ریلوے کی بحالی لوہے کا چنا بن چکی ہے۔ ٹریک کی بحالی، ریلوے سٹیشنوں کی خستہ حال عمارتوں کی مرمت، زمینوں پر قبضہ واگزار کرانا آسان نہیں ہوگا، البتہ بلٹ ٹرین والی بات سچ ہوگئی تو کمال ہوجائے گا۔
جرائم کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو دو روز قبل نماز فجر کے وقت مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما امان اللہ آفریدی کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق حملہ آور پیچھے سے آیا، گولیاں ماری اور فرار ہو گیا۔ امان اللہ آفریدی عام انتخابات میں شہباز شریف کے متبادل امیدوار تھے۔ قتل کے اس واقعے کو پولیس نے تاحال ٹارگٹ یا ذاتی دشمنی کا نتیجہ قرار نہیں دیا تاہم کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقات کر رہی ہے۔کراچی ہی میں ڈکیتی کی ایک فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہے، موٹرسائیکل سوار تین ڈاکو مصروف سڑک پر کار سوار کو لوٹتے ہیں اور اطمینان سے چلے جاتے ہیں۔ اس فوٹیج کو بنیاد بنا کر پولیس پر بڑی تنقید کی جارہی ہے۔ حادثات میں بھی روزانہ کی بنیاد پر اموات ہورہی ہیں۔ ٹریفک پولیس بھی نشانے پر ہے۔ نہ جانے شہر کے ذمہ داروں کو کب ہوش آئے گا اور وہ کب قانون پر سختی سے عمل کرائیں گے۔سندھ میں نیب بھی سرگرم ہے جس کا کہنا ہے کہ کراچی میں پارکوں کے ترقیاتی کاموں کے نام پر کروڑوں روپے ٹھکانے لگا دیے گئے ہیں۔ ڈی جی پارکس کو کہا گیا ہے کہ وہ 2016ء سے اب تک کا ریکارڈ 13 دسمبر تک جمع کرادیں۔ افسران نے بچنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے۔ دیکھیں کون کون پھنستا اور کون بچتا ہے یا پھر سارے کے سارے بچ نکلتے ہیں۔
موسم سرما میں سیاست کی گرمی اپنی جگہ لیکن سرد موسم سندھ میں اپنے ساتھ مہمان پرندوں کو بھی لاتا ہے۔ سائبیریا سمیت متعدد ملکوں سے آنے والے یہ پرندے سندھ کی سرزمین کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ان میں سے بعض نایاب اقسام کے پرندے بھی شامل ہیں۔ ان کی آمد سے جھیلوں کا حسن نکھر جاتا ہے لیکن شکاری بھی بندوقیں تان لیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ان پرندوں کا کھلے عام شکار کیا جاتا ہے۔پرندوں کے شکار اور ان کی فروخت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن محکمہ وائلڈ لائف کی طرف سے کوئی واضح ایکشن نظر نہیں آتا۔ سندھ حکومت کو محکمے کی کارکردگی کے ساتھ ان پرندوں کی بقا کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔