جہیز اور ہمارا معاشرہ

تحریر : سارہ بہار


ہمیں چاہیے کہ جہیز جیسے فساد کے لئے آواز اٹھائیں

اس وقت میرا موضوع سخن ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے ۔ جس نے زندگی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ سینکڑوں ہزاروں گھروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور کتنے ہی جذبات کو مسل کر رکھ دیا ہے ۔ یہ وہ بیماری ہے جسے ہم جہیز کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آج پاک و ہند کے اندر اور خاص طور سے ہمارے معاشرے میں جہیز ایک ایسا ناسور بن گیا ہے۔ جو ایٹمی ہتھیار سے زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوتا جا رہا ہے ۔

حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ’’جو شخص کسی عورت سے اُس کی عزت و ثروت کے سبب نکاح کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اْس کی ذلت میں اضافہ فرما دے گا اور جو شخص کسی عورت سے اُس کے مال کے سبب نکاح کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اُس کے فقرو تنگ دستی میں اضافہ فرما دے گا‘‘(المعجم الاوسط للطبرانی: 2363)۔

جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکی ہے ۔ معاشرے میں جب بیٹیاں جنم لیتی ہے ،تبھی سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ لیا جاتا ہے اور ایک ذمہ داری بن جاتی ہے ۔ بیٹیاں بوجھ تو نہیں ہوتیں لیکن انہیں بوجھ بنا دیا جاتا ہے ۔ وہ بھی ایک جہیز کا نام دے کر۔

جہیز کیا ہے ؟ اصل جہیز جو میکے سے سسرال جاتا ہے وہ ٹرک میں بھرا سامان نہیں بلکہ خود بیٹی ہوتی ہے۔ والدین اپنی اولاد سے محبت تو کرتے ہیں اور اسے دل و جان سے چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی پوری دنیا ان کی بیٹی میں بسی ہوتی ہے ۔ ان کا اتنا بڑا دل ہوتا ہے کہ اپنی پوری دنیا کو پرائے گھر میں رخصت کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی بیٹی کے سسرال والے اس کے میکے سے جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کا بیٹا کما نہیں سکتا؟ اسے چاہے کہ وہ جہیز پر لعنت بھیجے اور اس کے خلاف کھڑا رہے ۔ اس نے ٹرک دیکھ کر نکاح کیا ہے یا اس کی حیثیت۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مالدار گھروں میں جب بیٹیاں رخصت ہو کر جاتی ہے تو ان کے ساتھ ایک بڑی کار اور دو ٹرک بھر کر سامان بھی دیا جاتا ہے ،یہاں تک کہ کچھ گھروں میں بیٹیوں کے جہیز میں پلاٹ یا پھر زمین بھی ان کے نام دی جاتی ہے ۔وہ لوگ تو اپنی بیٹیوں کو خوشی خوشی رخصت کر دیتے ہیں اور سسرال میں بھی اسے خوشحال پاتے ہیں۔ 

والدین کو بھی سوچنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ بیٹی کو جہیز دے بلکہ اسے اتنا پڑھایں تاکہ وہ اس قابل بن جائے اور اپ اسے جہیز میں یہ سمجھا کر بھیجیں کہ دونوں میں جو بھی بات ہو آپس میں سمجھوتہ کرے اور دل میں اخلاق اور لہجے میں نرمی پیدا کرے۔ دیکھا جائے تو والدین اپنی غربت کی وجہ سے بیٹیوں کو رخصت نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے بیٹیاں انہیں بوجھ لگنے لگتی ہیں۔ اسی وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں نکاح جیسے پاکیزہ رشتے سے محروم ہو جاتی ہے ۔ سماج میں جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفہ کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور نمائش کے لئے دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے ۔

ہمیں چاہیے کہ جہیز جیسی فساد کے لئے آواز اٹھائیں اور بیٹیوں کے حق کے لیے لڑیں۔ ایسی بیٹیاں کب تک جہیز کے نام پر بکتی رہیں گی۔کب تک وہ ذلت برداشت کرتی رہیں گی۔ہمارا مذہب بھی یہی کہتا ہے ، دینا سیکھو، لینا نہ سیکھو۔ یہ جو رسم جہیز ہے اس دقیانوسی سوچ کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا چاہیے ۔ اور اس جہیز کی آگ کو بڑھانے کے بجائے بجھانا چاہیے تاکہ جو بیٹیاں اپنے گھروں میں جہیز تلے دبی بیٹھی ہے ان کے نصیب بھی کھل جائیں۔

یاد رکھیں!جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے ۔ جو ہمارے ملک کے رگ وریشہ میں سماگئی ہے ۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو برائیاں ملک میں داخل ہوئی ہے ، ان میں ایک برائی جہیز ہے ۔ اس رسم کے ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ دل سے اس لالچ کو نکالیں اور بیٹی کو جہیز نہیں، وراثت میں حصہ دے ۔ایسا کرکے ہی ہم معاشرے سے جہیز کی لعنت کو ختم کر سکتے ہیں۔ اور تبھی یہ لعنت ہمارے سماج سے دور ہوگی۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیض حمید کے خلاف فرد جرم پی ٹی آئی کیلئے خطرے کی گھنٹی

پاکستان تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر فردِ جرم عائد ہونا اور ان پر تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ رابطوں اور ملک کو انتشار کا شکار کرنے کے الزامات تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرنے جا رہے ہیں۔

مدارس بل،جے یو آئی پسپائی کیلئے کیوں تیار نہیں؟

حکومت کی جانب سے یقین دہانیوں کے باوجود جمعیت علماء اسلام اور اس کے لیڈر مولانا فضل الرحمن مدارس کے حوالے سے منظور شدہ بل میں تبدیلی کیلئے مطمئن نہیں، اور موجودہ صورتحال میں یہ ایک بڑا ایشوبن چکا ہے۔

سرد موسم میں سیاسی گرما گرمی

ملک میں سردی آگئی مگر سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی گرمی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسلام آباد کی طرف رُخ کرنے کا اعلان کردیا۔ ادھر سندھ میں ایک بار پھر متحدہ قومی موومنٹ نے آگ پر ہانڈی چڑھا دی۔ پیپلز پارٹی نے بھی چولہے کی لو تیز کردی ہے۔

پی ٹی آئی،جے یو آئی اتحاد کی حقیقت

پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مابین رابطے ایک بار پھر بحال ہورہے ہیں ۔جمعیت علمائے اسلام (ف) دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر وفاق سے ناراض ہے ۔

بلوچستان کی ترقی کیلئے سیاسی تعاون

بلوچستان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت کے صنعتی، تجارتی اور زرعی منصوبے عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ وفاقی وزیر تجارت جام کمال اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی ترقی کی یقین دہانیاں خوش آئند ہیں مگر ماضی کے تجربات شفافیت اور سنجیدہ عمل درآمد کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔

مطالبات منظور،احتجاج ختم

آزاد جموں و کشمیر میں حکومت نے ’’پیس فل اسمبلی اینڈ پبلک آرڈر آرڈیننس 2024‘‘ کو واپس لے لیا جس کے بعد مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج بھی پر امن طریقے سے ختم ہو گیاہے۔