اُستاد دامن:ہنگامہ خیز شاعر
اُن کا تحت اللفظ میں پڑھنے کا انداز انتہائی پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتا تھا 1938ء سے 1946ء تک استاد دامن کی شاعری اور شہرت کا سنہری دور تھا
چراغ دین سے دامن تک
استاد دامن جن کا اصل نام چراغ دین تھا۔ 4 ستمبر 1911 کو اندرون لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میراں بخش ایک ماہر درزی تھے۔ دامن کو خاندانی پیشے سے کوئی لگائونہ تھا۔ وہ اسکول جانا چاہتے تھے، پڑھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی یہ خواہش تو پوری کرلی لیکن نوکری نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوکر باغبانپورہ میں درزی کی دکان کھول لی۔بچپن سے ہی شاعری سے لگائو رکھتے تھے اور دکان کھولنے کے بعد بھی ان کا دل کہیں شاعری میں اٹکا رہتا تھا۔ وہ دکان چھوڑ کر اکثر مشاعرے سننے چلے جاتے تھے۔انہوں نے ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری اور آخر کارآج سے ٹھیک چالیس سال قبل 3 دسمبر 1984ء کو73 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا اورحضرت شاہ حسینؒ کے مزار کے احاطے میں دفنایا گیا۔اندرون ٹکسالی دروازے جائیں تو ایک مسجد کے نیچے چھوٹا سا کمرہ اپنے پرانے ساز و سامان سمیت نظر آتا ہے، یہ استاد دامن کی بیٹھک اور اب دامن اکیڈمی کا دفتر ہے۔
سید سبط حسن نے حبیب جالب کے بارے میں لکھا ہے ’’ اردو زبان نے نظیر اکبر آبادی کے بعد اگر سچ مچ کوئی عوامی شاعر پیدا کیا ہے تو وہ حبیب جالب ہے۔ نظیر اکبر آبادی کی طرح وہ بھی عوامی انسان ہیں۔ ان کا رہن سہن عوامی ہے۔ ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز عوامی ہے۔ ان کی قدریں عوامی ہیں۔ ان کی محبتیں اور نفرتیں عوامی ہیں۔ وہ عوام کے دکھ درد آرزوئوں اور امنگوں کی ترجمانی عوام کی زبان میں کرتے ہیں۔ یہ جو ہزاروں لاکھوں انسان حبیب جالب سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ ان کے اشعار سن کر فرط جذبات سے بے قابو ہو جاتے ہیں تو ان کا پیار ان کی وارفتگی بے سبب نہیں ہے‘‘۔
میں نے یہ اقتباس اس لئے درج کیا ہے کہ استاد دامن کہا کرتے تھے کہ حبیب جالب میرا اردو ایڈیشن ہے۔ جہاں تک شعر پڑھنے کا تعلق ہے۔ استاد دامن زور دار تحت اللفظ میں پڑھتے تھے اور حبیب جالب پر سوز ترنم سے۔استاد دامن کے تحت اللفظ میں پڑھنے کا انداز بڑا پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتا تھا، بالکل ان کی شخصیت کی طرح۔ اگر کہا جائے جلسوں اور مشاعروں میں لوگ حبیب جالب کے کلام کو سننے کیلئے امڈتے تھے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ لوگ استاد دامن کے کلام کے ساتھ انہیں دیکھنے کے بھی بڑے مشتاق تھے۔
استاد دامن اپنے کلام کے ساتھ ساتھ جملہ بازی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں سیاستدانوں کی طرح اسٹیج اور عوام کی نفسیات کا پورا پورا شعور تھا۔ وہ ہمیشہ اسٹیج پر ڈرامائی انداز میں تالیوں کی گونج میں نمودار ہوتے۔ شعر پڑھنے سے پہلے فضا کو خوشگوار کرتے اور پھر ایسی پھلجھڑی چھوڑتے، لوگ ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوتے۔ داد کے ڈونگڑے برساتے اور دیکھتے دیکھتے استاد دامن یک دم غائب ہو جاتے۔ اس طرح لوگوں میں انہیں دیکھنے اور ان کا کام ان کی زبان سے سننے کی خواہش ہر دم مچلتی رہتی۔
وہ خود پہ تبصرہ کہتے ہوئے کہتے تھے ’’میراقد چھوٹا تھا، بھاری بھر کم ہونے کی وجہ سے زیادہ ہی چھوٹا دکھائی دیتا۔ جیسے فٹ بال لڑھکتا چلا آ رہا ہو۔ اس بات کا میری ماں کو بڑا احساس تھا۔ ایک بار کام کیلئے گیا تواسے خوف تھا کہیں وہ مجھے بچہ سمجھ کر ناکام نہ کر دیں۔ اس لئے انہوں نے میری کامیابی کیلئے کہیں سے ادھا روپے پکڑ کر نئے کپڑے سلوائے۔ اونچی ایڑی والا جوتا خریدا اور سر پر اونچے شملہ والی پگڑی پہنا کر مجھے انٹرویو کیلئے بھیجا، پھر بھی مجھے کامیابی نصیب نہ ہوئی‘‘۔
پھر وہ چھلکتی آنکھوں اور رندھی ہوئی آواز سے اپنی معاشی حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے: ’’غریبی کتنی بے بسی اور لاچارگی کو جنم دیتی ہے‘‘۔
سرکاری نوکری میں ناکامی کے بعد انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر جرمن کمپنی ’’ جان ولیم ٹیلرز‘‘ سے کٹائی اور سلائی کا ڈپلومہ حاصل کیا اور باغبانپورہ میں اپنی دکان کھول لی۔ یہ درزی خانہ استاد دامن کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے تھا۔ روحانی خوشی انہیں شعر و شاعری سے حاصل ہوتی۔ اس طرح یہ درزی خانہ شعر و شاعری کا ذوق رکھنے والوں کیلئے ایک ’’ درس گاہ‘‘ تھی۔
استاد دامن کے شاگرد گیان سنگھ محرم بتاتے ہیں: ’’ایک دفعہ ایک گاہک گرم کپڑے کا سوٹ سلوانے کیلئے دکان پر آیا۔ استاد دامن نے اس شرط پر کپڑا رکھ لیا کہ وہ اس سے جلدی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ اپنی پسند کی تاریخ مقرر کرکے استاد دامن نے ان صاحب کا نام اور ناپ رجسٹر میں درج کرکے کپڑا رکھ لیا۔ مقرر تاریخ پر وہ اپنا سوٹ لینے کیلئے آیا تو استاد دامن نے سوٹ کو سب جگہ تلاش کیا لیکن وہ سوٹ نہ ملا۔ آخر اس کی نظر اپنے کپڑے پر پڑی جو تہہ کرکے کپڑوں کی الماری میں رکھا ہوا تھا۔استاد دامن نے کپڑا نکال کر کہا بس جی بھول ہو گئی، آپ پرسوں اسی وقت اپنا سوٹ لے جائیں۔ تیسرے دن وہ صاحب آئے اور ہنسی خوشی سلائی کی قیمت ادا کر کے اپنا سوٹ لے گئے۔
ایک دفعہ جلسہ کے اختتام پر انتظامیہ نے دامن کو دس روپے کا نوٹ دیا۔ شعر کے عوض دس کا نوٹ لے کر دامن حیران کھڑا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہا ہے۔دامن کو حیران دیکھ کر پنڈت جواہر لعل نہرو نے پوچھا۔ اس خوبصورت نوجوان شاعر کو کیا دیا گیا ہے؟۔’’دس روپے‘‘۔’’نہیں یہ تو بہت تھوڑے ہیں، انہیں ایک سو روپیہ دیا جائے اور آئندہ پنجاب میں کہیں بھی ہونے والے جلسے میں اس نوجوان شاعر کی شمولیت ضروری ہے۔ یہ ہمارے خیالات کو احسن طریقہ سے لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔‘‘
یوں چراغ دین کی قسمت کا ستارا چمک اٹھا۔ دنوں میں عزت، دولت اور شہرت نے اس کا دامن تھام لیا۔ دیکھتے دیکھتے وہ سیاسی جلسوں کی ہی نہیں عوامی مشاعروں کی بھی جان بن گیا۔ ہر دن عید ہر شب شب برات، اس کی خاموش اور تنہا زندگی میں ہنگامہ خیزی اور رونقیں عود کر آئیں۔ خوش لباسی اور خوش خوراکی ان کا حصہ بن گئی۔
1938ء سے 1946ء تک استاد دامن کی شاعری اور شہرت کا سنہری دور تھا۔ اس دور میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک کو تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر آگے بڑھایا ہے۔
استاد دامن کی شخصیت کا ایک پہلو ان کے شاگرد وارث لدھیانوی سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں۔ استاد دامن کی شخصیت کے بہت سے اسرار تھے۔ان کی کوٹھڑی کی بھی تحقیق ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ وہی مسجد اورحجرہ ہے جہاں اکبر اعظم کے عہد میں پنجابی کے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین ؒرہتے تھے۔ اس کے بارے میں مزید تحقیق ابھی ہونی ہے۔
منتخب شاعری
چاندی سونے تے ہیرے دی کان تے ٹیکس
عقل مند تے ٹیکس نادان تے ٹیکس
مکان تے ٹیکس دوکان تے ٹیکس
ڈیوڑھی تے ٹیکس لان تے ٹیکس
پانی پین تے ٹیکس روٹی کھان تے ٹیکس
آئے گئے مسافر مہمان تے ٹیکس
ایسے واسطے بولدا نہیں دامن!
متاں لگ جائے میری زبان تے ٹیکس
٭٭٭
ایتھے تن توں لہیڑے لائوندے نیں
کر ننگے جسم نچائوندے نیں
عزتاں تے سر کوئی کجدا نہیں
لاشاں نو خوب سجائوندے نیں
٭٭٭
مسجد مندر تیرے لئی اے
باہر اندر تیرے لئی اے
دل اے قلندر تیرے لئی اے
سْکّھ اک اندر تیرے لئی اے
میرے کول تے دل ای دل اے
اوہدے وچ سما او یار
گْھنڈ مکھڑے تو لاہ او یار
مُکدی گلّ مُکا او یار
٭٭٭
پیٹ واسَطے باندراں پائی ٹوپی
ہَتھ جوڑ سلام گزار دے نیں
پیٹ واسطے حور تے پری زاداں
جان جِن تے بْھوت توں واردے نیں
چِیر پھاڑ کے بَندے نْوں کھان جہڑے
رِچھ نچدے وِچ بازار دے نیں
پَنچھی جنگلوں ٹْرے نیں شہر وَلے
دْنیا دار پَئے چوگ کھلاردے نیں
٭٭٭
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
کدی چین جانا کدی روس جانا
بن کے توں امریکی جاسوس جانا
کدی شملے جانا، کدی مری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
جدھر جانا ایں، بن کے جلوس جانا
دھسا دھس جانا دھسا دھوس جانا
اڑائی قوم دا توں فلوس جانا
لائی کھیس جانا، کھچی دری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
ایہہ کیہ کری جانا
٭٭٭