اذان کے فضائل و برکات

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


’’اذان‘‘ لغت میں خبر دینے کو کہتے ہیں اور اصطلاحِ شریعت میں چند مخصوص اوقات میں نماز کی خبر دینے کیلئے چند مخصوص الفاظ کے دہرانے کو ’’اذان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’اذان‘‘ کی مشروعیت کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور مسجد بنائی گئی تو آپ ﷺنے صحابہ کرامؓسے مشورہ کیا کہ نماز کے وقت اعلان کیلئے کوئی ایسی چیز متعین کی جانی چاہیے جس کے ذریعے تمام لوگوں کو ’’اوقاتِ نماز‘‘ کی اطلاع ہوجایا کرے،

 تاکہ سب لوگ وقت پر مسجد میں حاضر ہوکر باجماعت نماز ادا کرسکیں۔  بعض صحابہ کرامؓنے یہ مشورہ دیا کہ نماز کے وقت کسی بلند جگہ پر ’’آگ‘‘ روشن کردی جایا کرے تاکہ اُسے دیکھ کر لوگ مسجد میں جمع ہو جایا کریں، بعض نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ’’ناقوس‘‘ بنالیا جائے اور بعض نے کہا کہ یہود کی طرح ’’سینگ‘‘ بنا لیا جائے، وغیرہ وغیرہ۔ صائب الرائے صحابہ کرام ؓ نے ان تجاویز کے سلسلے میں عرض کیا کہ ’’آگ‘‘ تو یہودی اپنی عبادت کے وقت اعلان کیلئے روشن کرتے ہیں ، اسی طرح ’’ناقوس‘‘ نصاریٰ اپنی عبادت کے وقت اعلان کیلئے بجاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ دونوں طریقے اختیار نہیں کرنے چاہئیں کہ اِس سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت لازم آتی ہے۔  ان کے علاوہ دوسرا طریقہ سوچنا چاہیے۔

بات معقول تھی، اس لئے بغیر کسی فیصلے کے مجلس برخاست ہوگئی اور صحابہ کرام ؓ اپنے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن زید ؓ نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اس سلسلے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں اور کوئی بہتر طریقہ سامنے نہیں آ رہا تو وہ بہت پریشان ہوئے۔ اُن کی دلی خواہش تھی کہ یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح جلد از جلد طے ہوجائے تاکہ آنحضرت ﷺ کی فکر و پریشانی دُور ہوجائے، چنانچہ یہ اسی سوچ و فکر میں گھر آ کر سوگئے ، رات کو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ اُن کے سامنے کھڑے ہوکر اذان کے کلمات کہہ رہا ہے۔جب صبح ہوئی تو اُٹھ کر بارگاہِ رسالت  میں حاضرہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بلاشبہ یہ خواب سچا ہے‘‘ اور فرمایا’’بلالؓ کو اپنے ہمراہ لواور جو کلمات خواب میں تم کو تعلیم کئے گئے ہیں وہ اِن کو بتاتے رہو وہ انہیں زور زور سے ادا کریں گے، کیوں کہ وہ تم سے بلند آواز ہیں‘‘ (مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف:1 /453)

 جب حضرت بلال ؓ نے اذان دینا شروع کی اور اُن کی آواز شہر میں پہنچی تو حضرت عمر فاروقؓ دوڑتے دوڑتے آئے اور عرض کیا، یارسول اللہ ! ﷺ قسم ہے اُس ذات پاک کی کہ جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، ابھی جو کلمات ادا کئے گئے ہیں، میں نے خواب میں ایسے ہی کلمات سنے ہیں ۔یہ سن کر آنحضرت  ﷺ نے ا للہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ منقول ہے کہ اسی رات میں دس، گیارہ یا چودہ صحابہ کرامؓنے ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔بہرحال اذان کی مشروعیت میں صحیح اور مشہور یہی ہے کہ اس کی ابتداء حضرت عبد اللہ بن زید انصاریؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کا یہی خواب تھا جو اُنہوں نے اس رات دیکھا تھا۔

اِس میں شک نہیں ’’اذان‘‘ اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سے ایک عظیم ترین اور ایک اہم ترین ذکر ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کی شہادت کا اعلان کیا جاتاہے ، لوگوں کو کامیابی و کامرانی کی طرف بلایا جاتا ہے اور اسلام کی شان و شوکت کا ایک بہترین عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے جس کی مثال دُنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں پائی جاتی۔یہی وجہ ہے کہ ’’اذان‘‘ دینے کی اہمیت و فضیلت اور اُس کا اجر و ثواب احادیث و روایات میں بکثرت وارد ہوا ہے۔ حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے سرورِ کائنات ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’قیامت کے دن سب سے اُونچی گردنوں والے لوگ ’’مؤذن‘‘ ہوں گے‘‘(صحیح مسلم)

حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ’’مؤذن کی انتہائی آواز کو جو بھی سنتا ہے خواہ انسان ہو یا جن یا اور کوئی بھی چیز ہو تو وہ سب قیامت کے دن اِس (کے ایمان) کی گواہی دیں گے ‘‘(صحیح بخاری)۔

حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رحمت کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اذان دینے والے کی بخشش اُس کی آواز کی انتہاء کے مطابق کی جاتی ہے۔ہر خشک و تر چیز اور نماز میں آنے والے آدمی اُس کے (ایمان کے) گواہ ہوجاتے ہیں۔ 25 نمازوں کا ثواب (اُس کے زائد اعمال میں) اُس کیلئے لکھا جاتا ہے اور ایک سے دوسری نماز کے درمیان اُس سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں وہ معاف کردیئے جاتے ہیں‘‘ (احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)

حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص (مزدوری اور اُجرت کے لالچ کے بغیر) محض ثواب حاصل کرنے کی نیت سے 7 سال تک اذان دے تو اُس کیلئے جہنم سے نجات لکھ دی جاتی ہے‘‘ (جامع ترمذی وابن ماجہ)۔

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تمہارا رب راضی ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کیلئے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے ، پس اللہ عز وجل (ملائکہ مقربین سے)  فرماتے ہیں’’میرے اِس بندے کی طرف دیکھوکہ یہ پابندی سے اذان دیتا ہے اور (پابندی کے ساتھ) نماز پڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے، پس میں نے اپنے (اِس) بندے کے گناہ بخش دئیے ہیں اور میں اِس کو جنت میں داخل کروں گا‘‘(ابو داؤد، نسائی)۔

حضرت عمر ؓسے مروی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اشہد ان محمد الرسول  اللہ‘‘  کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’اشہد ان محمد الرسول اللہ‘‘ کہے،پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الصلوٰۃ‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’حی علیٰ الفلاح‘‘ کہے تو تم میں سے ہر شخص ’’لاحول ولاقوۃ الا باللہ‘‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ایک شخص ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘ کہے، پھر جب مؤذن ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہے۔ پس جس نے (اذان کے کلمات کے جواب میں یہ کلمات ) صدقِ دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا‘‘ (صحیح مسلم)۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جب تم مؤذن کی آواز سنو تو اُس کے الفاظ کو دہراؤ اور پھر (اذان کے بعد) مجھ پر درود بھیجو ، کیوں کہ جو شخص ایک مرتبہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے بدلے میں10 مرتبہ اُس پر رحمت نازل فرماتا ہے، پھر (مجھ پر درود بھیج کر) میرے لئے (اللہ تعالیٰ کے وسیلے سے) دُعا کرو! ’’وسیلہ‘‘ جنت کا ایک (اعلیٰ) درجہ ہے ، جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف ایک بندے کو ملے گا، اور مجھ کو اُمید ہے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں گا، لہٰذا جو شخص میرے لئے وسیلے کی دُعا کرے گا (قیامت کے دن) اُس کی سفارش مجھ پر ضروری ہوجائے گی۔‘‘ (صحیح مسلم)حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ حضرت رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے دن3 آدمی مشک کے ٹیلوں پر ہوں گے، ایک وہ غلام کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بھی حقوق ادا کیے اور اپنے آقا کے بھی حقوق ادا کیے اور دوسر ا وہ شخص جو لوگوں کو نماز پڑھاتا ہو اور لوگ اِس سے خوش ہوں اور تیسرا وہ شخص جو روزانہ 5 نمازوں کیلئے اذان کہتا ہو‘‘(جامع ترمذی)۔

الغرض اذان دینے کے فضائل و برکات اور اُن پر گراں قدر اجر و ثواب کا ملنا احادیث و روایات میں بکثرت وارد ہوا ہے، جن پر صحیح طرح سے عمل پیرا ہونا اور اُنہیں ٹھیک ٹھیک بجا لانا انسان کی بخشش و مغفرت کیلئے کافی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اندھیروں میں جاکر مسجدوں کو آباد کرتے ہیں، اُن میں کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی تسبیحات کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کا منادی بن کر روزانہ صبح و شام 5 مرتبہ نماز کی طرف اور کامیابی و کامرانی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں۔

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ

میری پہلی سیر

میرے پیارے پیارے بھائیوں اور بہنوں اور روزنامہ دنیا کے بچوں کے صفحہ ’’پھولوں کی دُنیا‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ کرنے والے ساتھیو! میرا نام محمد بن ڈاکٹر نوید انجم جٹ ہے۔ اس وقت میں چار برس کا ہوں۔ میں نے چند ماہ قبل اپنی والدہ ڈاکٹر اسماء سلیم پی ایچ ڈی سے پہاڑی علاقہ جات دیکھنے کی فرمائش کی جو چھٹیوں پر تھیںاور انہوں نے صوبہ کے پی کے شہر مردان کی یونیورسٹی میں ملازمت کیلئے درخواست دے رکھی تھی۔ مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں انٹرویو کی کال دی تو مجھے لگا کہ اب میری خواہش پوری ہونے والی ہے جس پر خوشی کی انتہا نہ رہی۔

سنہرے موتی

٭… اس دنیا میں اتنی بلند دیواروں والے محلوں میں نہ رہو کہ جس میں تمہاری آواز گھٹ جائے۔ ٭… آنکھیں بولتی ہیں اور ان کی زبان صرف آنکھ ہی جان سکتی ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد: بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں؟ شاگرد: سر! یہ تو کوئی بیوقوف بھی بتا دے گا۔ استاد: اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔٭٭٭