میری پہلی سیر

تحریر : محمد بن نوید


میرے پیارے پیارے بھائیوں اور بہنوں اور روزنامہ دنیا کے بچوں کے صفحہ ’’پھولوں کی دُنیا‘‘ کے باقاعدہ مطالعہ کرنے والے ساتھیو! میرا نام محمد بن ڈاکٹر نوید انجم جٹ ہے۔ اس وقت میں چار برس کا ہوں۔ میں نے چند ماہ قبل اپنی والدہ ڈاکٹر اسماء سلیم پی ایچ ڈی سے پہاڑی علاقہ جات دیکھنے کی فرمائش کی جو چھٹیوں پر تھیںاور انہوں نے صوبہ کے پی کے شہر مردان کی یونیورسٹی میں ملازمت کیلئے درخواست دے رکھی تھی۔ مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں انٹرویو کی کال دی تو مجھے لگا کہ اب میری خواہش پوری ہونے والی ہے جس پر خوشی کی انتہا نہ رہی۔

 ہم15نومبر2024ء بروز جمعتہ المبارک کی شب بس میں سوار ہو کر مردان پہنچے۔ ہم نے 16نومبر2024ء صبح 9بجے والدہ کو یونیورسٹی میں انٹر کیا۔ میں اپنے ابو جان کے ہمراہ مردان شہر کی سیر کیلئے چل پڑا۔ ریلوے اسٹیشن اور وہاں کی مختلف مارکیٹس، بازار اور اہم یادگار مقامات کی سیر کی۔ وہاں کے ماحول کا بغور جائزہ کیا وہاں کے باسی افراد کو زندگی گزارنے کے طور طریقوں کا اپنی چشم سے مشاہدہ کیا کہ وہ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

میں نے مردان کے علاوہ واپسی پر خوبصورت پہاڑیوں کا نظارہ کیا۔ ان حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہوا رات 11بجے فیصل آباد میں انٹر ہوئے۔

 گھر آکر اپنی بہن علیشہ فاطمہ، بہن اربش انجم کو اپنے سفر بارے تفصیلاً بتایا۔ یہ میری زندگی کا پہلا حسین سفر اور سیر تھی۔جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم:چیمپئنز ٹرافی:معاملہ لٹک گیا

آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی2025ءکا ایونٹ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں شیڈول ہے بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ایک تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میزبانی کے اپنے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹا ہوا ہے، جس کے بعد بھارت نے مزید وقت مانگ لیا ہے۔ اسی لئے گزشتہ روز ہونے والا آئی سی سی کا اجلاس بھی نہ ہو سکا اور ذرائع کے مطابق اب یہ اجلاس اگلے 48 گھنٹوں میں ہونے کا امکان ہے۔

فیڈرل ویمنز باسکٹ بال ٹورنامنٹ

پاکستان میں باسکٹ بال کا کھیل روز افزوں ترقی کر رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل نہ صرف قومی اور صوبائی سطح پر باسکٹ بال کے متواتر ٹورنامنٹس اور دیگر مقابلے ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی اس کھیل کے ایونٹس کا انعقاد ہو رہا ہے۔

دوستی ہو تو ایسی

کامران اور عمر کی دوستی پوری کالونی میں مشہور تھی۔ دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ سب کامران کو پیار سے کامی کہتے تھے۔ ایک دفعہ عمر، ٹیچر سے پانی پینے کا پوچھ کر گیا لیکن پھر اس کی واپسی نہیں ہوئی۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا، کامی پریشان ہو رہا تھا۔ چھٹی کے وقت کامی، عمر کے گھر گیا اور کہا ’’ آنٹی! عمر، ٹیچر سے پانی کا پوچھ کر گیا تھا لیکن واپس نہیں آیا، کیا وہ گھر آ گیا ہے؟‘‘۔ اس بات سے عمر کے گھر والے پریشان ہو گئے۔

کریلا

کریلا میرا نام بچو! کریلا میرا نام سبزی میں ہے خاص مقامگہرا ہرا ہوں میں خوش رنگ

سنہرے موتی

٭… اس دنیا میں اتنی بلند دیواروں والے محلوں میں نہ رہو کہ جس میں تمہاری آواز گھٹ جائے۔ ٭… آنکھیں بولتی ہیں اور ان کی زبان صرف آنکھ ہی جان سکتی ہے۔

ذرامسکرایئے

استاد: بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں؟ شاگرد: سر! یہ تو کوئی بیوقوف بھی بتا دے گا۔ استاد: اسی لیے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔٭٭٭