ایم ڈی تاثیر ہر ادبی صنف میں کامیاب
تعارف: 28 فروری 1902ء کو امرتسر (ہندوستان ) میں پیدا ہوئے۔ایم اے 1926ء میں ایف سی کالج سے کیا۔ اسی سال اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد مستعفی ہو کر محکمہ اطلاعات سے وابستہ ہو گئے۔ محمد دین تاثیر حضرت علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ تاثیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔ 1935ء کے آخر میںمحمد دین تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل اور 1941ء میں سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقررہوئے۔
1942ء میں وہ امر سنگھ کالج کے بانی پرنسپل بن گئے۔ 1948ء اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک ا سی کالج سے وابستہ رہے۔1937ء میں ڈاکٹر محمد دین تاثیر ایک برطانوی خاتون کرسٹوبل جارج کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ 1938ء میں دونوں کی شادی ہوئی۔ کرسٹو بل نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام بلقیس تاثیر رکھا گیا۔ 30 نومبر1950ء میں ان کا انتقال ہوا۔
ڈاکٹر محمد دین تاثیر اردو زبان کے نامور شاعر، نقاد اور ماہر تعلیم تھے۔انہوں نے شعر و ادب کی دنیا میں بہت کام کیا اور اردو شاعری کو نئی جہتوں سے متعارف کرایا۔ ان کی متعدد کتب بھی شائع ہوئیں ۔
ایم ڈی تاثیر کے کلام کا جائزہ لیں تواس میں کم و بیش سبھی کچھ ہے۔ غزلیں بھی ہیں، قطعات بھی ہیں، نظمیں بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ صنف شعر کے بدل جانے سے شاعر کی ذہنی ساخت اور فکری پیمانے نہیں بدل جاتے۔ ہر صنف میں شاعر کے سوچنے کا اسلوب اور ذہنی واردات کو بیان کرنے کا ڈھنگ ایک سا ہوتا ہے۔ فرق صرف صنف کی ہیئت کا ہوتا ہے، اس اعتبار سے غزل اور نظم سے علیحدہ علیحدہ بحث کرنا بنیادی طور پر غلط معلوم ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اردو کی کلاسیکی غزل مخصوص روایات کی حامل اور کچھ سمجھوتوں کی پابند ہے لیکن غزل کا مزاج ایسا لچک دار ہے کہ وہ ردیف اور قافیے کی پابندی کے باوجود ان مطالب اور معانی کو بھی بیان کر سکتی ہے جنہیں کلاسیکی روایت تغزل کے دائرے سے خارج سمجھتی ہے۔
ایم ڈی تاثیر کے مجموعہ کلام ’’آ تشکدہ ‘‘ کے پیش لفظ میں عابد علی عابد لکھتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ تاثیر کا طبعی میلان نظم کی طرف تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ غزل کی ہیئت کی پابندیوں کی وجہ سے کچھ معنیٔ نازک کہ گفتنی ہوتے ہیں، بیان ہونے سے رہ جاتے ہیں کہ ایسا تو نظم میں بھی ہو سکتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ غزل کی ہیئت میں تصرف کرنا ناممکن ہے۔ غزل میں بھی انہوں نے بتدریج ان سمجھوتوں کو ترک کر دیا ہے جو بدلتے ہوئے معاشری اور تمدنی حالات کے پیش نظر بالکل غیر فطری اور مصنوعی ہو گئے تھے۔ بیس سے تیس سال تک کی عمر میں تاثیر نے جو غزلیں کہی ہیں ان کا انداز بھی منفرد ہے۔
ایس ایم شریف جو ایک بیورو کریٹ اورایم ڈی تاثیر کے ہم جماعت تھے ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ تاثیر اور میں کالج میں ہم جماعت تھے، جب میں اس زمانے کا تصور کرتا ہوں تو ایم ڈی تاثیر کی تصویر یوں میرے سامنے آتی ہے، دبلا پتلا جسم، بڑا سر، سادہ لباس، لیکن آنکھوں میں ذہانت کی چمک اور باتوں میں شوخی اور ظرافت، ہم جماعت میں اس کی محنت اور پڑھائی کا چرچا تھا اور احباب اس کی دوستی کا دم بھرتے تھے۔
میں کالج سے فارغ ہوا تو ولایت چلا گیا اور ایم ڈی تاثیر اسلامیہ کالج میں پڑھانے لگا۔ میں ولایت سے واپس آیا تو تاثیر اُدھر روانہ ہو گیا۔ اس کی واپسی پر بھی میری اس کی ملاقات بہت کم ہوئی۔ وہ امرتسر اور لاہور میں رہا اور میں لاہور سے دور مختلف مقامات میں گھومتا رہا۔ اسی اثناء میں ایم ڈی تاثیر کا نام ادبی حلقوں میں چمکنے لگا۔ رسالوں میں اس کے مضمون اور نظمیں چھپتی تھیں، علمی اور ادبی حلقوں میں اس کا اکثر ذکر ہوتا تھا۔ صاحب ذوق لوگ مشاعروں میں اس کے شعر پڑھنے کے انداز پر تبصرہ کرتے اور اس کے پرزور مضامین کی داد دیتے۔ وقتاً فوقتاً اس کی لکھی ہوئی کوئی نہ کوئی چیز میری نظر سے بھی گزرتی اور بے ساختہ دل میں ایک ولولہ سا پیدا ہوتا اور اس شاعر، ادیب اور نقاد دوست سے بے تکلف ملنے اور زیادہ دیر تک قریب رہنے کو جی چاہتا، لیکن ملازمت کے مخمصے ہمیشہ آڑے آتے اور ایسی ملاقات کی آرزو دل میں چٹکیاں لے کر رہ جاتی۔
آخر ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد میں اور تاثیر دلی اور شملے میں جمع ہو گئے۔ تاثیر اب بھی میرا وہی ہم جماعت تاثیر تھا لیکن ادب و شعر اور درس و تدریس سے اس کے خط و خال سنور گئے تھے۔ زیادہ قریب آنے پر معلوم ہوا کہ تاثیر خالی شاعر اور ادیب ہی نہیں ایک ہوش مند، تجربہ کار انسان بھی ہے۔ اس کی باتوں میں فقط شوخی اور رنگینی ہی نہیں باریک بینی اور گہرائی بھی ہے اور وہ ادب کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف پہلوئوں سے بھی آشنا ہے ۔
ملک میں تجربہ کار استاد اور ماہرین تعلیم ہیں مگر بہت کم، تاثیر انہی چند ہستیوں میں سے تھا۔ لیکن ان چند ہستیوں میں بھی اسے خاص امتیاز حاصل تھا۔ اسے دنیاوی امور اور بالخصوص تعلیمی معاملات میں بڑی بصیرت حاصل تھی۔ وہ کسی معاملے میں رائے دینے سے پہلے اس کی اچھی چھان بین کر لیتا،پھر کسی قطعی نتیجے پر پہنچتا۔ کمال یہ تھا کہ اس کے قائم کئے ہوئے نتیجے ہمیشہ صحیح ہوتے۔
ایم ڈی تاثیر کی علمی اور تعلیمی سرگرمیاں فقط اس صوبے تک محدود نہ تھیں۔ اس کی خدمات مرکزی حکومت کے وسیع دائرے تک پھیل گئیں اور وہاں کے تعلیمی منصوبوں اور کارگزاریوں میں اس کے عملی مشورے شامل ہونے لگے۔ تاثیر کی ادبی حیثیت اور عظمت مسلم ہے۔ ہم سب اس بات پر فخر کرتے ہیں۔
تاثیر میرے لئے ادیب، شاعر اور نقاد کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ ایک مخلص دوست اور ایک صحیح مشورہ دینے والا مشیر، تاثیر ایک زندہ جیتا جاگتا تجربہ تھا جس سے ملنا گویا زندگی کی عملی رہنمائی سے ہمکنار ہونا تھا۔
منتخب اشعار
ہوس کیا آرزو کیا مدعا کیا
فریبِ عشق کے ساماں ہیں کیا کیا
کروں وحشت میں عرضِ مدعا کیا
مجھے کہنا تھا کیا کچھ کہہ دیا کیا
پرانا چاہنے والا ہوں، مجھ سے
……………
کہیں ہو جائے مجھ کو دسترس گر تیرے داماں تک
تو یکسر ایک کردوں چاکِ دامن سے گریباں تک
……………
غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں
کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں
داورِ حشر مرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
……………
آنکھ اب تک دیکھتی ہے لب ترے ہلتے ہوئے
کان لیتے ہیں مزا اب تک تری تقریر کا
……………
ہوس نہ عشق کسی سے نہیں قرار مجھے
ملے بھی وہ تو رہا ان کا انتظار مجھے
مرے لئے کہ عدُو کے لئے ہے اذنِ حیات
وہ خواب میں نظر آئے ہیں سوگوار مجھے
……………
قتلِ عاشق پر وہ کہتے ہیں کہاں کیونکر ہوا
یہ کوئی پوچھے کہ دامن خونچکاں کیونکر ہوا
……………
بہت اچھا کیا رسوا کیا جو مجھ کو محفل میں
سمجھتا تھا میں اپنے آپ کو کیا جانے کیا دل میں
……………
انہیں ہے مجھ سے محبت کسی کو کیا معلوم
کسی کے دل کی حقیقت کسی کو کیا معلوم
کیا کریں وہ بظاہر عتاب کی باتیں
انہیں ہے مجھ سے محبت کسی کو کیا معلوم
……………
اے سکوتِ شاعری پروردہِ آغوشِ صبح
گوہرِ اسرار نو، آویزۂ در گوشِ صبح
نغمہ طائر شکستِ رنگ کی آواز ہے
تھی تلاطم گاہ جلوہ وسعت خاموشِ صبح
……………
بے خود اس درجہ بناتی ہے تمنا ان کی
کہ رقیبوں کا ہے کچھ خوف نہ پروا ان کی
دل بے حوصلہ نے وہم میں ڈالا کیا کیا
ورنہ ایسی تو نہ تھی رنجش بے جا ان کی
……………
عمر بھر ہم انقلابِ آسماں دیکھا کئے
دشمنوں کا لطف جورِ دوستاں دکھا کئے
……………
فریبِ جلوۂ نیرنگی جہاں مت پوچھ
ہم اُن کو بھول گئے اُن کی جستجو کرتے