پی ٹی آئی دھرنا، حکومتی حکمت عملی اور اپیکس کمیٹی
پی ٹی آئی نے اپنے چار مطالبات: 26ویں ترمیم کا خاتمہ، آئین اور قانون کی بحالی ،مینڈیٹ کی واپسی اور گرفتار افراد کی رہائی کو بنیاد بنا کر 24نومبر کو اسلام آباد میں ایک بڑے احتجاج کی کال دی ہے۔
پی ٹی آئی کے بقول یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے۔بانی پی ٹی آئی نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں ، ارکان اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کو خبردار کیا ہے کہ اگرانہوں دھرنے میں شرکت نہ کی اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو یقینی نہ بنایا تو پارٹی میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ خان صاحب کو لگتاہے کہ حکومت پر بڑا دباؤ ڈالے بغیر ان کی اور دیگر ساتھیوں کی رہائی ممکن نہیں ہوگی۔ خان صاحب نے علی امین گنڈا پور سمیت تمام لوگو ں کو پیغام دیا ہے کہ اگروہ پارٹی معاملات میں کوئی ریلیف لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو ان کو بھی ان کی مزاحمت کی سیاست کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ایک بار پھربانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی ہے اور اسی طرح بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کی بھی ملاقات ہوئی ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ہر صورت احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بھی پشاور میں بیٹھ کر پارٹی کو متحرک کرنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ انہوں نے بھی ارکان اسمبلی کو ٹاسک دیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اسلام آباد کی طرف لے کر آئیں ورنہ ان کی سیاسی حیثیت کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔مگرپارٹی میں ایک بڑا گروپ 24نومبر کے احتجاج کا حامی نہیں ، اس کو لگتا ہے کہ اس حکمت عملی سے پارٹی کونقصان ہوگا اور پارٹی پر مقتدرہ اور حکومت کی سختیاں اوربڑھ جائیں گی۔ لیکن بانی پی ٹی آئی نے پارٹی میں موجود ان آوازوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور کوئی بڑی مشاورت یا پارٹی کے ان حلقوں کو اعتماد میں لیے بغیر ایک بڑے احتجاج کی کال دے دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے اور اجتماع کی اجازت ملے گی؟ اور کیا ان کو اسلام آباد میں داخل ہونے بھی دیا جائے گا ؟ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اس دھرنے سے سختی سے نمٹے گی اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوں گی اور اسلا م آباد کے راستو ں کی بھی ناکہ بندی ہوگی۔ پی ٹی آئی کی بیرون ملک قیادت کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ کیا وہ اسلام آباد میں لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کرسکیں گے؟ اور اگر ایسا نہیں ہوتاتو اس کے بعد ان کے پاس کیا بچے گا؟کیونکہ پی ٹی آئی کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ خاص طور پر پنجاب میں انہیں زیادہ سختی کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی صورت میں ان کوبانی پی ٹی آئی کی طرف سے بھی ناکامی کا طعنہ ملے گااور ان کی سیاسی پوزیشن بھی خراب ہوگی۔ پنجاب میں اس وقت ویسے ہی پارٹی قیادت کے بغیر ہے اور پارٹی کے اندرونی معاملات میں بڑی خرابیو ں کی وجہ سے پنجاب سے لوگوں کو اکٹھا کرنا اور اسلام آباد لے کر جانا ممکن نظر نہیں آتا۔پی ٹی آئی کو سب سے زیاد ہ انحصار خیبر پختونخوا پرہے کیونکہ وہاں اس کی اپنی حکومت ہے مگر اس صوبہ کے لوگ بھی وزیر اعلیٰ کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ان کو پارٹی میں بڑی طاقتوں کافرد سمجھا جاتا ہے اور خود پارٹی میں ان کی قیادت پر بھی پارٹی کے بڑے ناموں کو تحفظات ہیں۔
سوال یہ ہے کہ علی امین گنڈا پور ہوں یا بیرسٹر گوہر، کیا ان کے مقتدرہ سے ہونے والی بات چیت میں کوئی بریک تھرو ہوا؟ اور اگر ہوا ہے تو کیا وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کو فوری طور پرممکن بناسکتے ہیں ؟اور اگرایسا نہیں ہوتا تو پھر پی ٹی آئی کی یہ مزاحمت کی سیاست پارٹی کو کہاں لے کر جاسکتی ہے؟ اپیکس کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں پہلی بار وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے شرکا کے سامنے پی ٹی آئی ،عمران خان اور پارٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر روشنی ڈالی۔ کیا یہ حکمت عملی پی ٹی آئی کے لیے کوئی نئے امکان پیدا کرے گی ؟اسی اجلاس میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی پنجاب میں سیاسی چڑھائی کی مذمت کی اور کہا کہ اس عمل سے صوبوں کی سیاست میں نفرت بڑھے گی۔لیکن علی امین گنڈا پورنے اپنا مؤقف پیش کیا اور یہ ظاہر کیا کہ کے پی کے وزیراعلیٰ کی یہ حکمت عملی اپیکس کمیٹی کو اپنے پارٹی مفاد میں استعمال کرنے میں کامیاب رہی۔ اس کا حتمی نتیجہ کیانکلتا ہے اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر ایک بات طے ہے کہ علی امین گنڈا پور بانی پی ٹی آئی اورمقتدرہ میں ٹکراؤ کی سیاست کے حامی نہیں اور خود علی امین گنڈا پور بشریٰ بی بی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں او ر اس وقت پارٹی بھی عملًاکے پی کے سے ہی چلائی جارہی ہے اور اس میں علی امین گنڈا پور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس پر پنجاب سمیت دیگر صوبوں کی قیادت زیادہ خوش نظر نہیں آرہی اور اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی ہے جو پارٹی کو کمزور کررہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی اس ’فائنل کال‘ کو اپنی اناکا مسئلہ بھی بنالیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ل کے بغیر ان کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا اور پارٹی کو جس انداز سے چلایا جارہا ہے اس پر بھی انہیںتحفظات ہیں۔ پارٹی میں نئی گروپ بندی بشریٰ بی بی او ر علیمہ خان کے طور پر سامنے آئی ہے جس سے پارٹی کے اختلاف نمایاں نظر آتے ہیں۔ پی ٹی آئی اس وقت مشکل میں ہے اور اس کواس وقت بڑا ریلیف درکار ہے۔ اسی بنیاد پر حتمی کال کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس دھرنے کی ناکامی سے پی ٹی آئی کو بڑا سیاسی دھچکا لگے گا اور پارٹی کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔بظاہرایسے لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مایوسی بڑھ رہی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ حکومت ہو یا مقتدرہ ،ان کو فوری ریلیف نہیں دے گی ، اسی وجہ سے ان کو جارحانہ طرزکی سیاست کرناپڑرہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب کی جارحانہ سیاست کیا رنگ لاتی ہے۔
دوسری جانب پنجاب کی وزیر اعلیٰ غیر ملکی دورے سے وطن واپسی کے بعد دوبارہ حکومتی امور میں سرگرم ہوچکی ہیں۔رواں ہفتہ انہوں نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے پنجاب میں ڈائیلسز کے مریضوں کے لیے ڈائلیسز کارڈ کی منظوری دی ہے۔انہوں ہیلتھ کیئر کمیشن کو بھی ہدایات دی ہیں کہ وہ تمام ڈائلیسزسنٹرز کی کڑی نگرانی کو یقینی بنائیں۔ ڈائیلیسز کارڈمیں مفت ٹیسٹ، ادویات شامل ہیں۔ پنجاب میں مزید ڈائیلسز یونٹ بنانے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ ڈائیلسز کے مریضوں میں ایڈز کے پھیلنے پر بھی گہری تشویش اور فوری اقدامات کی منظور ی دی گئی ہے۔