نبی اکرم ﷺ کی مرغوب غذائیں

تحریر : مولانا زبیر حسن


حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضورنبی اکرم ﷺ کے ہمراہ آپ ﷺ کے ایک خادم کے پاس گیا جو درزی کا کام کرتا تھا۔ پس اْس نے آپ ﷺ کی خدمت میں ثرید کا ایک پیالہ پیش کیا۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ پھر وہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا، حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺاس میں کدو کے ٹکڑے تلاش فرما رہے تھے۔

 ان کا بیان ہے کہ میں بھی تلاش کر کے آپ ﷺ کے سامنے رکھنے لگا اور اس کے بعد میں نے ہمیشہ کدو کو پسند کیا۔(یہ حدیث متفق علیہ ہے)

رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں کھانوں کے بارے میں واضح طور پر دوباتیں سامنے آتی ہیں ایک سادگی اور دوسرے حالات کے مطابق کھانے کا معیار۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ کی وفات تک آپﷺ کے اہل وعیال نے دو دن کبھی جوکی روٹی سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ 

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے گھر والے کئی کئی راتیں پے درپے بھوکے گزار دیتے تھے کہ رات کو کھانے کیلئے کچھ موجود نہیں ہوتا تھا اوراکثر غذا جوکی روٹی ہوتی تھی۔لیکن جب اچھا کھانا میسر ہوتا تو آپ ﷺوہ بھی تناول فرما لیتے اور صرف سرکہ بھی ہوتا تو اسی سے کھانا تناول فرما لیتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا’’سرکہ بھی کیسا اچھا سالن ہے ‘‘ ۔ ایک حدیث میں ہے فرمایا کہ پہلے انبیاء کا سالن بھی سرکہ رہا ہے۔ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا جس گھر میں سرکہ ہو وہاں سالن کی ضرورت نہیں رہتی۔ جامع ترمذی میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے میں نے خود رسول اکرم ﷺ کو مرغی تناول فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔ ترمذی میں روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ  کے آزاد کردہ غلام سفینہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ہے۔ حباری ایک پرندہ ہے۔ اس کے ترجمہ میں مختلف اقوال ہیں تغذری،  بٹیر، سرخاب، چکا چکوئی استعمال ہوئے ہیں، بہر صورت حباری ایک جنگلی پرندہ ہے جس کا رنگ خاکی، گردن بڑی، پاؤں لمبے، اورچونچ میں تھوڑی سی لمبائی ہوتی ہے بہت تیز اڑتا ہے۔

 حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکو میٹھا اور شہد پسند تھا۔روایت میں عربی لفظ’’ الحلواء‘‘ ہے‘ محدثین فرماتے ہیں کہ اس سے ہر میٹھی چیز مراد ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبؒ خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی میں فرماتے ہیں سب سے پہلے حلوا حضرت عثمانؓ نے بنوا کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا تو آپﷺ نے اسے پسندفرمایا تھا۔ یہ حلوا آٹے، شہد اور گھی سے بنایا گیا تھا۔ 

حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے پہلو کا بھنا ہوا گوشت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپﷺ نے وہ تناول فرمایا۔ عبداللہ بن الحارثؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ بھنا ہوا گوشت مسجد میں کھایا۔ 

حضرت ابویرہرہؓفرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں کہیں سے گوشت آیااس میں سے دستی کا گوشت (بونگ) آپ کی خدمت میں پیش ہوئی۔ آپﷺ کو دستی کا گوشت پسند بھی تھا، آپﷺ نے اسے دانتوں سے کاٹ کر تناوّل فرمایا۔ ترمذی میں حضرت ابو عبیدہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کیلئے ہانڈی پکائی چونکہ آپ ﷺ کو بونگ کا گوشت زیادہ پسند تھا۔ اس لیے میں نے ایک بونگ پیش کی پھر رسول اکرم ﷺ نے د وسری طلب فرمائی میں نے دوسری پیش کی۔ آپﷺ نے اور طلب فرمائی میں نے عرض کیایارسول اللہ ﷺ  بکری کی دوہی بونگیں (دستیاں) ہوتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے اگر تو چپ رہتا تو میں جب تک مانگتا رہتا اس دیگچی میں سے بونگیں نکلتی رہتیں۔ محدثین فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ تھا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ بونگ کا گوشت رسول اکرم ﷺ کو صرف کسی لذت کی وجہ سے پسند نہ تھا بلکہ گوشت کبھی کبھی پکتا تھا اور یہ گوشت جلدی گل جاتا تھا، اس لیے رسول اکرم ﷺاسے پسند فرماتے تھے تاکہ جلدی سے فارغ ہوکر اپنے مشاغل میں مصروف ہو جائیں۔  

حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پشت کا گوشت بہترین گوشت ہے۔

حضرت سلمیٰؓ فرماتی ہیں کہ حضرت حسنؓ اور عبداللہ بن عباسؓاور عبداللہ بن جعفرؓ ان کے پاس تشریف لائے اور یہ فرمایا کہ حضور ﷺکو جو کھانا پسند تھا اور اسے  رغبت سے تناول فرماتے تھے وہ ہمیں پکا کر کھلائیں۔ حضرت سلمیؓ نے فرمایا پیارے بچو! اب وہ کھاناتمہیں پسند نہیں آئے گا (محدثین نے اس جملہ کا مطلب یہ لکھا ہے کہ آئندہ ذکر کیا جانے والا کھانا ظاہر ہے تنگی کی حالت ہی میں اچھا لگتا ہے) انہوں نے فرمایا نہیں، ضرور پسند آئے گا چنانچہ وہ اٹھیں اور تھوڑے سے جوہانڈی میں ڈالے اور اس پر ذرا سا زیتون کا تیل ڈالا اور کچھ مرچیں اور زیرہ وغیرہ مسالہ ڈالا اور پکا کر لاکر رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ کہ آپ ﷺ کو پسند تھا۔

 حضرت یوسفؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ دیکھا کہ آپﷺ نے ایک روٹی کا ٹکڑا لے کر اس پر ایک کھجور رکھی اور فرمایا کہ یہ اس کا سالن ہے اور تناوّل فرمایا۔

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ  کا کھانا عموماً سادہ ہوتا اور حالات کے مطابق جو بھی میسر آتا تناوّل فرمالیتے۔

حضرت انس ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جس وقت کھانا کھاتے تو اپنی تین انگلیوں کو چاٹتے اور فرماتے: جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اْس سے مٹی دور کر کے کھالے، اور اْس کو شیطان کیلئے نہ  چھوڑے، اور آپ ﷺ نے ہمیں پیالہ صاف کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: تم نہیں جانتے کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘( اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے)۔

حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ا کرمﷺ جب کھانا تناول فرماتے یا پانی پیتے تو (اس کے بعد) یہ دعا فرماتے: ’’اَلحَمدْ لِلّٰہِ الَّذِی اَطعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مْسلِمِینَ‘‘(تمام تعریف اللہ کیلئے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور مسلمان بنایا)۔ (ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی)۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مدد کرنا سیکھو

میرا نام شہلا ہے اور صائمہ میری چچا زاد بہن ہے۔ہم ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔وہ بہت اچھی فطرت کی مالک ہے۔کبھی دروازے پر کوئی مانگنے والی بھکارن آتی تو وہ پیسے دینے کے بجائے ان سے کہتی 20 روپے دوں گی،ہمارے برتن دھو دو یا ہمارے پودوں کو پانی دے دو یا پیاز لہسن چھیل دو یا جھاڑو دے دو۔

بچے اور سوشل سائنس

دنیا کے کامیاب ترین لوگ کیا پڑھتے ہیں ؟ یا دنیا پر حکمرانی کرنے والے لوگ کیا پڑھتے ہیں ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اور اس پر کچھ تبصرہ آج کا میرا موضوع ہے۔ دنیا میں کامیاب ترین رہنماؤں کی 55فیصد تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے سائنسی علوم نہیں حاصل کیے، بلکہ ان کی کامیابی کا راز غیر سائنسی علوم تھے۔ یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ برٹش کونسل کی ایک تحقیق اور سروے کی رپورٹ ہے جو اس نے 30سے زائد ممالک کے 1700افراد پر کی۔

پہیلیاں

ایک اُستاد ایسا کہلائے آپ نہ بولے سبق پڑھائے (کتاب)

ذرامسکرایئے

نعیم: ’’آج میں نے عہد کیا ہے کہ آئندہ کبھی شرط نہیں لگاؤں گا‘‘۔ وسیم: ’’لیکن تم ایسا نہیں کر سکو گے‘‘۔ نعیم: ’’شرط لگا لو‘‘۔٭٭٭٭

حرف حرف موتی

٭…صبر کا دامن تھام لو اور صرف اللہ تعالیٰ کے طلبگار بن جاؤ۔ ٭…صبر انسان کو اندر سے مضبوط بناتا ہے۔ ٭…انسان کی شرافت اور قابلیت اس کے لباس سے نہیں ، اس کے کردار اور فعل و گفتار سے ہوتی ہے ۔

نعمتوں کی قدردانی

قیامت کے دن میدانِ حشر میں جہاں نیکیاں اور برائیاں تولی جائیں گی تو وہاں اس چیز کا بھی مطالبہ اور محاسبہ کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنی نعمتیں عطا فرمائی تھیں اُن کا کیا حق اور کیا شکر ادا کیا؟ بندہ کے پاس ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کی ہوئی ہے۔