حق طر از شاعر بیدل حیدری

تحریر : ڈاکٹر عرفان احسن پاشا


بیدل حیدری کی شعری مشق بہت زبردست تھی کیونکہ انہیں علم عروض اورفن شاعری پر حیرت انگیز دسترس حاصل تھی

 اردو ادب میں ڈاکٹربیدل حیدری ایک ایسی شخصیت کے طور پر ادبی اُفق پر اُبھرتے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے پورے آسمان کو ستاروں کی مانند منور کردیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک عہد اور شاعری کے میدان میں روشنی کے مینار کے حیثیت رکھتے تھے۔ وہ عہد جدید کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت اور جدت پسند شاعر بھی تھے۔ ان کا اصل نام عبدالرحمان اور ان کے والد کا نام مراد خان تھا۔ وہ 20اکتوبر 1920ء کو بھارت میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1936ء کے لگ بھگ ہی اپنی شاعری کا آغاز کردیا اور وہ شاعری میں استاد جلال الدین حیدری دہلوی کے شاگرد تھے۔ ان کی پہلی غزل کا مطلع یہ ہے:

تم ہمارے ہو، ہم تمہارے ہیں

ایک دریا کے دو کنارے ہیں

بیدل حیدری نے اگست1965ء میں غازی آباد (بھارت) سے ہجرت کر کے کبیر والا (خانیوال) پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ وہ پیشے کے لحاظ سے میڈیکل ڈاکٹر تھے اور ان کے کلینک پر مریضان صحت سے زیادہ ہمیشہ مسیحان ادب کا ہجوم رہتا تھا۔

ڈاکٹر رحمت علی شاہ کے بقول بیدل حیدری نے ملتان کے مضافات میں بیٹھ کر شاعری کی اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ بڑے شاعر ہمیشہ بڑے شہروں میں ہی پیدا ہوا کرتے ہیں بلکہ انہوں نے ثابت کردیا کہ بڑی شاعری کی تخلیق ان تمام زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہوا کرتی ہے۔ بڑی شاعری کا تعلق کسی خاص علاقے یا شہر سے نہیں بلکہ بڑا شاعر جہاں بیٹھ جائے وہی جگہ بڑی شاعری کا مرکز کہلاتی ہے۔ اپنے خوبصورت آہنگ، جدا لہجے اور انقلابی رجحان کے باعث بیدل حیدری کا نام ایک جداگانہ حیثیت کا حامل ہے۔ انہیں غزل یا نظم کا شاعر کہہ کر کسی مخصوص خانے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔

بیدل حیدری کا ذخیرۂ الفاظ لامحدود تھا۔ فن کے لحاظ سے اپنے عالم عمر رسیدگی میں بھی وہ ہمیشہ کی طرح جوان، توانا اور متحرک رہے، یہ جوانی صرف جذبہ و خیال کی جوانی نہیں۔ محسوسات کے اظہار ترسیل معنی اور جدید لفظیات کی جوانی ہے۔ وہ کتنے ہی کثیر الاستعمال الفاظ کو اپنی غزلوں میں ایسے تیوروں سے لائے ہیں کہ ان الفاظ کے مفاہیم جگمگا اٹھے ۔ وہ ترقی پسند تھے اور ان کے ہاں پاکستانیت اپنے پورے جاہ و جلال اور تقدیس و تحریم کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ یوں ان کا رشتہ پہلے اپنی زمین اور پھر آسمان سے قائم ہو کر پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لینے کے بعد زیادہ منزہ ہو جاتا ہے۔ بیدل حیدری کی شاعری اور ان کی ذات سے محبت فزوں تر ہو جاتی ہے۔ اپنی شاعری کے متعلق بیدل حیدری خود بتاتے ہیں:

’’ میں داخلی، خارجی اور مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کو یکجا کر کے اور کبھی الگ الگ پیکر بناتا ہوں اور ایسی شاعری سے گریز کرتا ہوں جس پر اخباری خبروں کا گمان ہو‘‘۔

بیدل حیدری کی شاعری انسان کی خوابیدہ حسوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے اتنا گہرا مشاہدہ، اتنا مستند مطالعہ؟ بیدل حیدری انسان کا دکھ سکھ اپنے سینے کی بے کراں وسعتوں میں محسوس کرتے تھے۔  پھر وہی دکھ سکھ وہ اپنے لہو میں ڈبو کر قرطاسِ شعر پر منتقل کر دیتے۔ لاتعداد موضوعات ان کی شاعری کا حصہ ہیں۔ 

بیدل حیدری جیسی نابغۂ روزگار شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں جو اپنے کام سے، اپنے کردار سے اور اپنے بے پناہ خلوص سے ایک زمانہ کو متاثر کرتی ہیں۔ بیدل حیدری کے رنگ تغزل میں جدت کا رنگ جھلکتا ہے۔ ان کے کلام میں بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جو انہیں ایک عظیم تخلیق کار ثابت کرتی ہیں اور ان خوبیوں کا احساس انہیں خود بھی تھا، وہ بتاتے ہیں:

’’جس طرح سیارگاں کے بارہ برج ہیں اسی طرح شاعری کے بارہ ستون ہیں۔ ایوان شاعری کا پہلا ستون میر تقی میر، دوسرا آتش لکھنوی، تیسرا امیر انیس لکھنوی، چوتھا مرزا غالب، پانچواں حکیم مومن خاں مومن، چھٹا علامہ اقبالؒ، ساتواں جوش ملیح آبادی، آٹھواں مرزا یاس یگانہ چنگیزی، نواں فانی بدایونی، دسواں فراق گورکھپوری، گیارہواں احمد ندیم قاسمی اور بارہویں کے نام کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ‘‘۔

بیدل حیدری کی شعری مشق بہت زبردست تھی کیوں کہ انہیں علم عروض اور فن شاعری پر حیرت انگیز دسترس حاصل تھی بلکہ اس پر انہیں اتھارٹی تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ان کی شعری ریاضت نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط رہی۔ علم عروض اور شعر کے عیوب و محاسن پر انہیں سند کا درجہ حاصل تھا۔ بقول خود بیدل حیدری:

اب شعر گوئی میرے لیے مسئلہ نہیں

میں جانتا ہوں لفظ و معانی سے کھیلنا

 روایتی انداز میں شعر کہنے والا بیدل حیدری جب لاہور سے کبیروالا آیا تو یہاں کے ترقی پسند حلقوں کی پذیرائی سے روشن خیال شاعری کی طرف لے گئی اور پھر جب وہ فنون میں شائع ہونا شروع ہوا تو شاعری کے نئے ذائقوں سے آشنا ہوا اور یوں جدید غزل کے تمام خوبصورت رنگ اس کی شاعری میں شامل ہو گئے۔بیدل حیدری تاحیات مفلسی سے نبردآزما رہے۔ غربت و افلاس نے کبھی ان کے گھر کا آنگن نہ چھوڑا۔ اس کے باوجود فکری سطح پر ان کے ہاں ناامیدی اوریاس کے بجائے قناعت اور امید کی شمع روشن رہی اس حوالے سے ان کا شاعرانہ رویہ ملاحظہ فرمایئے:

بھوک پیچھے پڑ گئی ہے ہاتھ دھو کر اور بھی

پیٹ سے باندھو مرے دو چار پتھر اور بھی

بیدل حیدری بڑے اعتماد کے ساتھ پُرامید لہجے میں بات کرتے ہیں۔ انہوں نے بے شمار مصائب و آلائم کو بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرکے ان کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ وہ کہیں بھی مایوس اور زندگی سے بیزار نظر نہیں آتے بلکہ وہ ہر جگہ بڑے پرامید نظر آتے ہیں۔ بیدل حیدری نے زندگی کی تلخیوں کو چکھا اور یہ تلخیاں ان کی شاعری میں بھی جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں محرومیوں اور تلخیوں کا بیان تو کیا مگر اپنے لہجے کو تلخ نہیں ہونے دیا۔ناامیدی اور مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی انہوں نے امیدوں کے چراغوں کو بجھنے نہیں دیا۔ بیدل حیدری8مارچ  2004ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔

شب بھی ڈھلے گی، صبح کی ساعت بھی آئے گی

آئے گی، روشنی کی حکومت بھی آئے گی

 

منتخب اشعار

یہ دل جو مضطرب رہتا بہت ہے 

کوئی اس دشت میں تڑپا بہت ہے 

٭٭٭

ہو گیا چرخ ستم گر کا کلیجہ ٹھنڈا 

مر گئے پیاس سے دریا کے کنارے بچے 

٭٭٭

مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں 

اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا 

٭٭٭

دشمن مجھ پر غالب بھی آ سکتا ہے 

ہار مری مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

٭٭٭

میرے اندر کا پانچواں موسم 

کس نے دیکھا ہے کس نے جانا ہے 

جتنا ہنگامہ زیادہ ہوگا 

آدمی اتنا ہی تنہا ہوگا 

٭٭٭

خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو 

گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں 

٭٭٭

رات کو روز ڈوب جاتا ہے 

چاند کو تیرنا سکھانا ہے 

٭٭٭

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے 

سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا 

٭٭٭

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے 

بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے 

 

ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے 

وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے 

 

بیدل حیدری کی مشہور غزل 

دریا نے کل جو چپ کا لبادہ پہن لیا

پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا

وہ ٹاٹ کی قبا تھی کہ کاغذ کا پیرہن

جیسا بھی مل گیا ہمیں ویسا پہن لیا

فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی

عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا

گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے

سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا

بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی

ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا

بیدل لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

بدلتے موسم میں پہناوئوں کے انداز!

بدلتے موسم کے ساتھ ہی لباس کے رنگ اور انداز بھی بدل جاتے ہیں،گرمیوں کے رنگ اور ہوتے ہیں تو سردیوں میں مختلف اور شوخ رنگوں کو پسند کیا جاتا ہے۔

ڈائننگ ٹیبل: ذوق اور سلیقے کی علامت

کھانے کی میز، خوبصورت دکھائی دینے کے ساتھ ساتھ آرام دہ کرسیوں اور نشستوں سے بھی آراستہ ہونی ضروری ہے تاکہ آپ یہاں اطمینان سے بیٹھ کر پرسکون انداز میں کھانے سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ڈائننگ ٹیبل وہ جگہ ہے جہاںکھانے کے وقت تمام افراد خانہ اکٹھے ہوتے ہیں ایک ساتھ کھانا کھاتے اور ہنستے بولتے ہیں اور اس وقت اپنی تمام تکلیفیں و پریشانیاں بھول جاتے ہیں۔

آئی مہندی کی یہ رات۔۔۔۔۔

شادی بیاہ کی تقریبات سے مہندی کو نکالنا ایسے ہی ہے جیسے کھانے سے مصالحے کو نکال دینا۔بنا مہندی کی تقریب شادی کی رونق ممکن ہی نہیں ہے۔

آج کا پکوان: تندوری چکن پیزا

اجزاء :سالم مرغی ایک عدد، پسی ہوئی لال مرچ ایک کھانے کا چمچ، پسا ہوا لہسن، تل دو دو کھانے کے چمچ، اوسٹرسوس، لیموں کا رس تین تین کھانے کے چمچ، تیار باربی کیو مصالحہ، سفید سرکہ چھ چھ کھانے کے چمچ، نمک حسب ذائقہ

سوء ادب : پاگل خانہ (2)

ایک صاحب اپنی گاڑی میں شہر میں جا رہے تھے کہ پاگل خانے کی دیوار کے برابر میں اُن کی گاڑی کاٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ نیچے اُترے، ٹائر کھولا ،سٹپنی نکالی،اُسے کسنے لگے تو جو ڈھبریاں نکال کر اُنہوں نے رکھی تھیں وہ غائب تھیں ۔بچے اِدھر اُدھر کھیل رہے تھے شاید وہ اُٹھا کر لے گئے ہوں ۔وہ صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ اب کیاہو گا کہ اتنے میں اوپر دیوار پربیٹھا ایک پاگل بولا ’’کسی دوسرے ٹائر سے دو ڈھبریاں نکال کراسے لگا لو اور ورکشاپ لے جائو ‘‘۔اُن صاحب نے سر اُٹھا کر حیرت سے اوپر دیکھا ور بولے ،’’تم پاگل ہو ؟‘‘ تو وہ بولا ،’’میں پاگل ہوں، بیوقوف نہیں ‘‘۔

پاکستان انگلینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں فتح یاب

تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلے میچ میں مہمان انگلینڈ کے ہاتھوں ایک اننگز اور 47 رنز سے شکست کے بعد شاہینوں نے پلٹ کر ایسا وار کیا کہ انگلش شیروں کو بے بس کر دیا۔