بدلتے موسم میں پہناوئوں کے انداز!

تحریر : سارہ خان


بدلتے موسم کے ساتھ ہی لباس کے رنگ اور انداز بھی بدل جاتے ہیں،گرمیوں کے رنگ اور ہوتے ہیں تو سردیوں میں مختلف اور شوخ رنگوں کو پسند کیا جاتا ہے۔

کچھ خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے، کہ وہ جوانی میں بھی اپنے اوپر بڑھاپا طاری کئے رکھتی ہیں، پھیکے اور سادہ لباس کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوتا ہے۔لیکن کچھ خواتین اپنی عمر کو بھلا کر ایسے فیشن کو اپنانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتیں جو ان کی عمر اور مرتبے کو سوٹ نہیں کرتا۔جبکہ ذہانت کا امتحان اسی بات میں ہے کہ اپنی عمر،رنگت،اور مرتبے کے مطابق لباس ، جیولری اورجوتوں کا انتخاب کیا جائے،جیسے یہ کتنا عجیب لگے گا کہ آپ چوتھی کی دلہن ہیں محض اسی لئے 6انچ کی ہیل پہن کر کچن میں کھانا بنانے کھڑی ہو جائیں کہ آپ کو سج بن کے کھڑا ہونا چاہئے۔ اپنے آپ کو بدلتے تقاضوں کے ساتھ ڈھالتی رہیں لیکن اتنا بھی مت بدلیں کہ آپ کے اپنے بھی آپ کو پہچان نہ پائیں۔اب موسم میں ہلکی سی خنکی آ رہی ہے،لیلن پہنی جائے گی یا پھر کاٹن مگر سب سے اچھی بات یہ ہے اس موسم میں شوخ و شنگ کپڑے پہنے جا سکتے ہیں اس لئے جارجٹ اور شیفون کی بہار بھی دکھائی جا سکتی ہے۔ حسین رنگوں کا انتخاب کریں، انہیں اچھا سا ڈیزائن کروائیں، اور پہنیں۔ شادیوں کا سیزن بھی ہے تو ایسے لباس سلوائیں جو آپ شادیوں کے علاوہ بھی پہن سکیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ستائیسویں ترمیم کیوں ضروری ہے؟

ملک میں اب ستائیسویں آئینی ترمیم کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ حکومت اور اس کے اتحادیوں کی اس پر مشاورت بھی ہوئی ہے مگر ستائیسویں ترمیم کرنے سے متعلق ابھی حتمی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب و قطر اہم کیوں؟

وزیراعظم شہبازشریف معاشی چیلنجز کو ہدف سمجھتے ہوئے اس حوالے سے کوشش کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔بے شک معاشی مضبوطی ہی ملک کی بقا و سلامتی کی ضامن ہے۔

کراچی، احوال اور مسائل

کیسی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ مفروضوں، فرضی کہانیوں، سنی سنائی باتوں اور جھوٹ پر یقین میں زندگی گزاردیتے ہیں۔ پولیو ویکسین کی بات ہو یا کورونا وائرس کا معاملہ ہو، ہر چیز میں اپنے خلاف سازش ڈھونڈ لیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ کا پلڑا بھاری

پشاورایک بارپھر پاکستان تحریک انصاف کی سرگرمیوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ اس بار بانی پی ٹی آئی خود تو یہاں نہیں لیکن اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی وزیراعلیٰ ہاؤس کی مہمان ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بانی پی ٹی آئی نے پشاور کو سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنایاتھا۔

ترقی امن کی ضامن

بلوچستان میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ احساسِ محرومی کو تیز رفتار ترقی کے ذریعے ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔صوبے کے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں،عوام کو ترقی کے عمل میں شراکت دار بناکر صوبے کے وسائل کو ان کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے۔یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔

علاقائی نہیں قومی سیاست کی ضرورت

آزاد جموں و کشمیر کے مختلف حلقوں میں ایک نئی علاقائی سیاسی جماعت کے قیام کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ڈیڑھ سال قبل جب سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کے کیس میں نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹا یا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک بناکر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا تو اس وقت بھی چوہدری انوار الحق کی قیادت میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی مداخلت پر آخری لمحات میں روک دیا گیا تھا۔