اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری


اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیداکیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو‘‘ (سورۃ الروم) ’’ تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کیلئے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں‘‘(جامع ترمذی) آپ ﷺاپنے اہل بیت اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے بلکہ ہمیشہ ان کی دلجوئی کا خیال رکھتے

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے : ’’تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کیلئے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں‘‘(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح )۔

انسان کے لیے بہت بڑی مونس اس کی بیوی بھی ہے :انسان کا خمیر انس سے ہے اورانسیت اس کی فطرت میں شامل ہے۔ اس لیے ہر انسان کو اپنی اجتماعی زندگی کے علاوہ نجی زندگی میں بھی ایک ایسے مونس کی تلاش ہوتی ہے جس کے سامنے وہ اپنی داستانِ زندگی بیان کر سکے اور کرۂ ارض پر کسی بھی انسان کے لیے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی مونس نہیں۔ اﷲ رب العزت نے مرد کیلئے سب سے بڑا مونس اس کی بیوی کو بنایا،جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ سے واضح ہوتا ہے : ’’یعنی اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیداکیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو‘‘ (سورۃ الروم)۔

علاوہ ازیں ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس کے بعد جنت میں بی بی حوا علیہا السلام کا وجود، پھر ان کا آپس میں نکاح بھی اس بات کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔غور کیجئے ! جنت میں کس لطف و مسرت کی کمی تھی؟ہر سو نعمتوں کی بارش ، ہر طرف انوار کی تابش ، لیکن سیدناآدم علیہ السلام اس پر بھی اپنے دل کا ایک گوشہ خالی پاتے ہیں، محسوس ایساہوتاہے کہ اب بھی کوئی خلاہے ، پھر اتمامِ نعمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ نہیں ہوتاکہ جنت کی لذتِ مادی اور سرورِ روحانی میں کچھ اضافہ کردیاجائے ، بلکہ تخلیق ہوتی ہے آدم علیہ السلام ہی سے ایک اورمخلوق کی ،اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی، سیدنا آدم علیہ السلام کا دل اب جاکر تسکین پاتا ہے ، نوازشوں اور بخششوں کی تکمیل گویااب جاکر ہوئی، سیدنا آدم علیہ السلام کے حق میں جنت حقیقی معنی میں جنت اب جاکر ثابت ہوئی جب مرد کے لیے عورت اور شوہر کے لیے بیوی وجود میں آئی۔

بہتر وہ ہے جو اپنے 

اہل وعیال کے لیے بہتر ہو

جب یہ حقیقت ہے توایمان، اخلاق اور عقل کاتقاضہ ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے ، اس کے بغیر انسان سکون و اطمینان حاصل کر بھی نہیں سکتا،کیوں کہ اس سے انسان خود بھی سکون پائے گااو رگھر کا ماحول بھی پرسکون رہے گا۔گھریلو زندگی اگر پر سکون ہے تو اس کا اثر بیرونی زندگی پر لازمی ہے۔ گھریلو زندگی خوشگوار ہوگی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور خوش اخلاقی کا معاملہ کرنے سے۔ اس لیے قرآن نے حکم دیا: ’’اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو‘‘(النساء)۔

گویا حق تعالیٰ شوہروں سے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی سفارش فرماتے ہیں، لہٰذا اے نئے پرانے دولہو! حق تعالیٰ کی اس سفارش کو قبول فرماکر اپنی دلہنوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو، چاہے تمہاری بیویاں تم پر غالب آ جائیں۔ یہی ایک شریف شوہر کی پہچان ہے۔  حدیث مذکور میں اس حقیقت کو حضورِ اکرمﷺ نے بیان فرماکر اپنا عمل بھی اس سلسلہ میں امت کے سامنے پیش کیا۔ ارشاد فرمایا: ’’خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہ‘‘  تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو۔ اہل خانہ سے آدمی کا جتنا واسطہ پڑتا ہے عموماً اتنا دوسروں سے نہیں پڑتا، پھر گھروالوں سے بسا اوقات خلافِ مزاج باتیں بھی پیش آتی ہیں۔ اب ایسے موقع پر(بشرطیکہ خلافِ مزاج بات خلافِ شرع نہ ہو) چشم پوشی اور خوش اخلاقی سے کام لیا، تو یہ اس کے بہترین ہونے کی دلیل ہے ۔

باہر بڑائیاں، گھر میں

 لڑائیاں یہ بد اخلاقی ہے

جن کا سلوک باہر تو اچھا ہو مگر اہل خانہ کے ساتھ برا ہو، تو یہ ان کے بد اخلاق ہونے کی دلیل ہے۔ حضور ﷺ نے بنیاد ی بات بیان فرمادی، ارشاد ہے : ’’خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَہْلِہ‘‘تم میں بہترین فرد وہ ہے جواپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو۔یہ حدیث بھی بڑی جامع ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بہن کے لیے اچھے بھائی، بیوی کے لیے بہتر شوہر اور گھر والوں کے لیے اچھے فرد ثابت ہوں۔ یہی حال عورتوں کا بھی ہوکہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بھائی کے لیے اچھی بہن، شوہر کے لیے اچھی بیوی اور گھروالوں کے لیے نیک عورت ثابت ہوں۔اگر واقعی معاملہ ایساہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے ۔

امام ربانی، محبوبِ سبحانی، غوثِ صمدانی، شیخ یزدانی، پیر حقانی ، عامل قرآنی، ولایت کی نشانی، شیخ عبدالقادر جیلانی ؒفرماتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک سب سے بہتر شوہر وہ ہے جو بیوی کی نظر میں بہترہو، اور سب سے بہتر بیوی وہ ہے جو شوہر کی نظر میں بہتر ہو۔ لقمانِ حکیمؒ نے فرمایا : میں طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سب سے بہتر دوا محبت و عزت ہے ۔ کسی نے کہا اگر یہ بھی اثر نہ کرے تو؟فرمایا: دوا کی مقدار بڑھا دیں، اس کا فائدہ دونوں کو ہوگا۔

حضورﷺکااپنے اہل خانہ سے سلوک

آگے حضور ﷺ نے فرمایا: ’’أَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ‘‘(ترجمہ:میں تم میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں)۔ آپ ﷺاپنے اہل بیت اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے بلکہ ہمیشہ ان کی دلجوئی کا خیال رکھتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر بیوی یہ سمجھتی کہ حضوراکرم ﷺ کو دیگر ازواجِ سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔

آپ ﷺنے گیارہ شادیاں کیں، اور بیک وقت نو بیویاں آپ ﷺ کے ساتھ تھیں، (جو آپﷺ کی خصوصیات میں سے ہے)۔ جب مدینہ طیبہ میں ہوتے تو روزانہ عصرکے بعد تمام ازواجِ مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے ، اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کر کے اس کی تکمیل فرماتے۔ ازواج کے مابین شب باشی کی باری متعین فرماتے ، گو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی، لیکن آپ ﷺ اپنی جانب سے اس کا پورا اہتمام فرماتے ، جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے، جس کا نام نکل آتا اسے ساتھ لے جاتے۔ یہ بھی ازواج کی تالیف قلب کے لیے تھا۔غرض سیرتِ رسول اللہﷺ میں ازواجِ مطہرات کی دلداری کے سلسلہ میں کئی واقعات ملتے ہیں ۔

حضورﷺ کا اہل خانہ 

سے سلوک کا واقعہ

 ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رحمت دو عالمﷺ باہرسے تشریف لا ئے، گھر کے صحن میں سیدہ عائشہ ؓ کو دیکھا کہ پیالہ سے پانی پی رہی ہیں۔ وہیں سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے حمیرا!(اس پیارے جملے سے) اندازہ لگائو! حضورﷺ کا اپنی بیوی سے کتنا محبت بھرا معاملہ تھا!آپ ان کو کبھی پیار سے ’’حُمَیْرَا‘‘  فرماتے۔ یہ حضرت عائشہؓ کا لقب ہے ، جو’’حَمْرَائُ‘‘ کی تصغیر ہے ، جس کے معنی ہیں سرخ رنگ والی، یعنی گوری۔ محققین محدثین کے نزدیک یہ سنداً ثابت نہیں۔ کبھی  یَا عَائِش!  فرماتے ، یہ سب بیوی کو پکارنے کے پیارے انداز تھے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ یہ بھی سنت ہے کہ بیوی کو پیار بھرے نام سے پکارا جائے ، آج اس سنت کو گھروں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے ، اس پر عمل کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہو کر نفرت دور ہوگی۔تو فرمایا: اے حمیرا ! تھوڑا پانی میرے لیے بھی بچانا۔غور فرمائیں !بیوی امتی ہے ، شوہر نبی ہے ، برکتیں نبی کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں، مگر سبحان اﷲ! آپ ﷺ اپنی رفیقۂ حیات کے بچے ہوئے پانی کو پینا چاہتے ہیں۔

 آگے سنیے ! جب سیدہ عائشہ ؓ نے کچھ پانی بچا کر خدمت اقدس میں پیش کیا تو نو ش فرمانے سے پہلے معلوم کیا: اے حمیرا ! تم نے اس پیالہ کے کس حصہ سے لب لگاکر پانی پیا؟ تاکہ میں بھی اس جگہ سے پانی پیوں۔ اﷲ اکبر کبیرا! (خواتین کے لیے تربیتی بیانات)۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی، یا ہڈی چوستی، پھر میں آپ ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ اسی مقام سے نوش فرماتے او رہڈی سے گوشت نکال کر کھاتے، جہاں سے میں پیتی یا کھاتی (مسلم/ شمائل کبری)۔

اہل خانہ سے حسن سلوک پر مغفرت

 حضوراکرم ﷺ کی پوری زندگی ساری امت او راس کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے ، آپ ﷺ امت کو بتلانا چاہتے تھے کہ اہل خانہ کے ساتھ اس طرح حسن سلوک کرنا چاہیے ۔ آپ ﷺ نے خود بھی ایسا کیا او رامت کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا: ’’ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ‘‘ (ترجمہ:اہل خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا حقیقت میں اچھا ہے)۔ ہماری کوئی تعریف کردے ، اچھا کہہ دے ، خصوصاً کہنے والا کوئی بڑا ہو تو پھولے نہیں سماتے ،پھر کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جسے حضورِاکرم ﷺبہتر قرار دیں، اس سے زیادہ اچھا کون ہو سکتا ہے؟ یہی کیا کم فضیلت کی سند ہے ؟ 

اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کے فضائل اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے ، حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت ہے ، حضورِاکرمﷺ فرماتے ہیں: قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو لایا جائے گا ،جس کے پاس بظاہر ایسی کوئی نیکی نہ ہوگی جس سے وہ جنت کی امید کر سکے ، مگر حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ فرشتو! اس بندے کو جنت میں داخل کر دو، اس لیے کہ یہ اپنے اہل و عیال پر بڑا مہربان تھا ،ان کے ساتھ اس کا سلوک بڑا اچھا تھا‘‘(کتاب البر/ از: شمائل کبریٰ)۔اس سے ثابت ہوا کہ جوشخص اہل خانہ کے لیے بہتر ہوگا وہ اوروں کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجہ میں اس کی دنیا وعقبیٰ دونوں بہتر ہوگی۔ان شاء اللہ العزیز۔

اﷲ پاک ہمیں ان صفات سے آراستہ ہونے کے ساتھ معاشرہ اور گھرکا اچھا فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ پی ٹی آئی مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی؟

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین مذاکراتی عمل کو دوسرا راؤنڈ آج شروع ہونے جا رہا ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف اپنے تین مطالبات سے حیران کن طور پر پیچھے ہٹ چکی ہے ۔

مذاکراتی عمل میں بریک تھرو ہو گا ؟

ایک دوسرے کیلئے تحفظات کے باوجود آج سے حکومت‘ اس کے اتحادی اور پی ٹی آئی مذاکرات کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ مذاکراتی عمل سے توقعات تو یہی ظاہر کی جا رہی ہیں کہ یہ ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کیلئے اچھا ثابت ہو گا لیکن دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن حکومت سے اور حکومت اپوزیشن سے کیا چاہتی ہے۔

کراچی میں دھرنے مصیبت بن گئے

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام پر گزشتہ ایک ہفتہ بڑا بھاری گزرا۔ تعمیراتی کاموں کے نام پر پہلے ہی شہر جگہ جگہ سے کھدا پڑا ہے اور راستے بند ہیں، رہی سہی کسر دھرنوں نے پوری کردی۔ درجن بھر سے زائد مقامات پر دھرنے دیے گئے، آنے جانے والی دونوں سڑکوں کو بند کردیا گیا، ٹریفک پولیس نے متبادل ٹریفک روٹ بھی جاری کیا لیکن شہر میں ٹریفک کی جو صورتحال ہے اس سے گھنٹوں ٹریفک جام معمول رہا۔

سال نیا سیاست پرانی

2024ء خوشگوار اورناخوشگوار یادوں، امیدوں، مایوسیوں اور رونقوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سال گزشتہ میں خیبرپختونخوا نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔

2024 ء تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا

سال 2024 ء بلو چستان میں دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے چیلنج بن کر آیا۔یکم جنوری سے31 دسمبر تک صوبے میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا جس میں عام شہری اور سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکارشہید ہوئے۔2024ء تک پانچ اضلاع میں14خود کش حملوں میں سیکورٹی فورسز کے 14 اہلکاروں اور 27مسافروں سمیت48افراد شہید جبکہ11اہلکاروں سمیت 106افراد زخمی ہوئے۔

یوم حق خودارادیت اور ہماری ذمہ داریاں

پانچ جنوری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری یوم حقِ خود ارادیت منا تے ہیں۔ پانچ جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے کشمیریوں کیلئے حقِ خود ارادیت یعنی رائے شماری کی قرارداد منظور کی تھی۔