2024 ء تلخ یادوں کے ساتھ رخصت ہوا
سال 2024 ء بلو چستان میں دہشت گردی اور جرائم کے حوالے سے چیلنج بن کر آیا۔یکم جنوری سے31 دسمبر تک صوبے میں دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا جس میں عام شہری اور سیکورٹی فورسز کے افسران اور اہلکارشہید ہوئے۔2024ء تک پانچ اضلاع میں14خود کش حملوں میں سیکورٹی فورسز کے 14 اہلکاروں اور 27مسافروں سمیت48افراد شہید جبکہ11اہلکاروں سمیت 106افراد زخمی ہوئے۔
گزشتہ سال 29اور 30جنوری کی درمیانی شب کچھی بولان کے علاقے مچھ میں تین درجن سے زائد دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ا ن حملوں میں چاروں خود کش حملہ آوروں نے ایف سی ہیڈ کوارٹر پر دو خود کش ،مچھ جیل کالونی کے ساتھ ایک دفتر کے گیٹ ،ایک لیویز تھانے اور شہر کے مختلف علاقوں میں دو خود کش حملے کئے۔ان واقعات میں چھ سیکورٹی اہلکاروں سمیت 13افراد شہید جبکہ 21افراد زخمی ہو ئے۔ بعد میں سیکورٹی فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے پانچ خود کش حملہ آوروں سمیت 24دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔گزشتہ سال 25مارچ کو تربت ائیرپورٹ پر خود کش حملہ ہوا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جبکہ سیکورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چاردہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ 25اور 26اگست کی درمیانی شب ضلع لسبیلہ میں دوخود کش حملہ آوروں نے سات اہلکاروں کو شہید اور 18 کوزخمی کر دیا۔24 اکتوبر کو ژوب ،کوئٹہ شاہراہ پر سیکورٹی فورسز ،پولیس اور لیویز کی مشترکہ چیک پوسٹ پرخود کش حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ 9نومبر کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر خود کش حملہ ہوا جس میں 27مسافر جاں بحق اور 62زخمی ہو گئے۔ 2024ء میں خود کش حملوں میں گزشتہ سالوں کی نسبت اضافہ ہوا۔ 2022ء میں چاراور 2023ء میں پانچ خود کش حملے ہوئے۔ گزشتہ سال بلوچستان کے مختلف علاقوں میں راکٹ فائر، بارودی سرنگ، آئی ای ڈی، دستی بم، خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ ، تخریب کاری اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر وارداتوں کے 13 ہزار 589 مقدمے درج ہوئے۔
ادھرانسداد دہشت گردی فورس کی 17ویں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کر تے ہوئے وزیراعلی بلوچستان میر سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان دشمنوں اور ان کے آلہ کاروں کے آگے ڈٹ گیاہے۔ بزدل اور راء فنڈڈ دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملائیں گے ۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف خون بہانے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں ، ان کوکسی صورت فراموش نہیں کریں گے۔ دہشت گردوں کو راء فنڈ فراہم کرتی اور ٹریننگ دیتی ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ بندوق کے زور پر نظریہ مسلط نہیں کیا جاسکتا،دہشت گردوں کی خواہش تھی کہ بلو چستان کے ٹریننگ سکولزبند ہوجائیں، دہشت گردوں نے سکولوں، کالجوں اور وکلا کو بھی نشانہ بنایا، دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کسی صورت پورے نہیں ہونے دیں گے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبے کی ترقی و خوشحالی کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات خوش آئند ہیں خصوصاً کسانوں اور سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے کئے جانے والے اقدامات ۔ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار کسانوں کی بہبود کیلئے بینظیر بھٹو کسان کارڈ کا اجرا حکومت کی عوام دوست پالیسیوں کا ثبوت ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے غریب کسانوں کو براہ راست معاونت فراہم کی جائے گی ۔وزیر اعلیٰ نے اس کارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کا جو منصوبہ پیش کیا ہے اس سے درمیانی افراد کا کردار ختم ہو جائے گا اور کسانوں کو ان کا حق بغیر کسی رکاوٹ کے ملے گا۔2022ء کے سیلاب نے بلوچستان خصوصاً نصیر آباد ڈویژن کو برُی طرح متاثر کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اس بحران کے دوران متاثرین کی مشکلات کو نہایت گہرائی سے محسوس کیا اور اب ان کی بحالی کیلئے ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون اور راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بلوچستان حکومت سیلاب متاثرین کو جلد از جلد ان کے گھروں میں آباد کرنے کیلئے پرُعزم ہے۔بلوچستان حکومت کی جانب سے متاثرین کو گھروں کی تعمیر کا عزم بھی ایک بڑا اقدام ہے۔ سندھ کی طرز پر بحالی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت متاثرین کو محض زبانی دعوؤں تک محدود نہیں رکھنا چاہتی بلکہ حقیقی معنوں میں ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے۔ وزیر اعلیٰ کی یقین دہانی کہ آئندہ چھ ماہ میں متاثرین کو گھروں میں آباد کیا جائے گا ایک مثبت پیغام ہے جو عوام کو امید اور یقین فراہم کرتا ہے۔یہ اقدامات نہ صرف بلوچستان کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے اہم ہیں بلکہ پورے ملک کیلئے ایک مثال بھی ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے اقدامات نہ صرف ان کی عوام دوستی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ حکومتِ بلوچستان بہتر اور خوشحال مستقبل کیلئے پُرعزم ہے۔ بینظیر بھٹو کسان کارڈ اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبے ان کی قیادت اور ویژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان اقدامات سے صوبے کے عوام میں نہ صرف اعتماد بحال ہوگا بلکہ ان کے مسائل بھی حقیقی معنوں میں حل ہوں گے۔
رواں ہفتے پبلک اکانٹس کمیٹی کے اجلاس میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے مالی سال 2022-23 ء کے آڈٹ پیراز پر غور کیا گیا۔کمیٹی کا حالیہ اجلاس بلوچستان کے مالیاتی اور انتظامی بحرانوں کی واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ اجلاس میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے مالی معاملات زیر بحث آئے، حکومتی نظام کی کمزوریاں اور عوامی وسائل کے غیر مؤثر استعمال کو بے نقاب کرتا ہے۔اجلاس میں پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے منصوبوں کی تاخیر، بجٹ کی ناقص منصوبہ بندی اور مالی بے ضابطگیوں پر کڑی تنقید کی گئی۔ مثال کے طور پر منگی ڈیم منصوبے کی تکمیل میں غیر معمولی تاخیر اور لاگت میں بے پناہ اضافہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ منصوبہ 2017ء میں شروع ہوا لیکن 2024ء میں بھی مکمل نہ ہوسکا اور اس کی لاگت ابتدائی تخمینے سے دوگنا ہو گئی۔ یہ صورتحال نہ صرف عوامی وسائل کے زیاں کی عکاس ہے بلکہ حکومتی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔اسی طرح کیسکو اور کیو واسا کے درمیان تعاون کی کمی اور ٹرانسفارمرز کی تنصیب میں تاخیر نے عوام کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔ غلام دستگیر بادینی کا یہ مطالبہ کہ کیسکو کو ایڈوانس ادائیگیاں روک دی جائیں اہم ہے لیکن اس کا نفاذ یقینی بنانا چیلنج ہوگا۔اجلاس میں پیپرا قوانین پر عمل درآمد کی کمی اور غیر شفاف خریداریوں کی نشاندہی بھی کی گئی۔ کمیٹی نے سختی سے ہدایت دی کہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کو روکا جا سکے۔یہ اجلاس اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اگرچہ پی اے سی عوامی فنڈز کے مؤثر استعمال کیلئے پرُعزم ہے لیکن انتظامیہ کی نااہلی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل کا حل نکالنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور ترقیاتی منصوبے وقت پر مکمل ہوں۔